Column

خوشحالی کی تلاش میں

خوشحالی کی تلاش میں

یاور عباس
پاکستان کے معرض وجود آتے ہی ان گنت مسائل ہمیں تحفہ میں مل گئے مگر اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پاکستان نے ان مسائل کا سامنا کیا اور جس تیزی سے ترقی کی منازل طے کرنا شروع کیں اگر وہ برق رفتاری جاری رہتی تو آج ہم بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے نظر آتے ، مقروض ہونے کے بجائے غریب ممالک کی مالی امداد کر رہے ہوتے ہیں ۔ آج تک ہر وزیراعظم مہنگائی کے زیر عتاب رہا ۔ مہنگائی ختم کرنے کے دعوے اور نعرے تو سبھی لگاتے رہے مگر جب جب حکومتیں ملیں کوئی بھی مہنگائی کے طوفان کی آگے ٹھہر نہیں سکا۔ مشرف دور میں امریکہ کی افغان پر چڑھائی کے دوران پاکستان پر ڈالروں کی بارش بھی ہوتی رہی اور معاشی ترقی کو مثالی بھی قرار دیا جاتا رہا مگر جیسے 2008ء کے الیکشن قریب آئے ملک سے آٹا ، چینی اور بجلی غائب ہوگئی اور نتیجہ کیا نکلا کہ مسلم لیگ ق کی شکل میں مضبوط ترین جماعت کو وہ عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ مسلم لیگ ق سکڑتے سکڑتے خاندانی سیٹوں تک ہی محدود ہوگئی ۔
2008ء کے بعد پانچ سال پاکستان پیپلز پارٹی اور پھر پانچ سال مسلم لیگ ن نے میثاق جمہوریت کے ذریعے فرینڈلی اپوزیشن کرتے ہوئے ایک دوسرے کا ساتھ دیا اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے مگر دونوں بڑی جماعتیں مہنگائی پر قابو پاسکی نہ ملکی معیشت کو سنبھالا دے سکیں ۔ دونوں حکومتوں کے ادوار میں اگر کوئی ریکارڈ بنے ہیں تو کرپشن کے ریکارڈ ہیں ، اقرباء پروری کے ریکارڈ ہیں ، قرضوں کے انبار لگانے کے ریکارڈ بنے ہیں ،منی لانڈرنگ کے ریکارڈ بنے ہیں۔ غربت اور مہنگائی کی ایسی چکی میں پیسنے کے لیے عوام کو آئی ایم ایف کے آگے پھینک دیا گیا ہے کہ اب ہم قسمت سے ہی قرضوں کے شکنجے سے آزاد ہوںگے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ جمہوری ادوار میں سیاسی ورکروں کی ٹریننگ عوام کی خدمت اور ملک و قوم کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے اپنے اثاثہ جات بڑھانے کی ٹیوشن دی جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں موجود بہت سارے لیڈران ایسے بھی موجود ہیں جن کی نہ تو زیادہ تعلیمی قابلیت ہے اور نہ ہی ماضی میں وہ کوئی سرمایہ دار تھے مگر حکومتوں میں آنے کے بعد ان کے کاروبار ، جائیدادیں اور آسائشیں شاہی خاندانوں جیسی ہوگئی ۔ تحریک انصاف جب عمران خاں کی قیادت میں اپوزیشن کاکردار ادا کر رہی تھی تو جو نظریہ عمران خاں نے عوام کو دیا اقتدار ملنے کے بعد تحریک انصاف کے وہ نظریاتی کارکن پس منظر چلے گئے اور مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی کے’’ کھائو گروپ ‘‘ پارٹی میں شامل ہوگئے ، مسلم لیگ ق ، ایم کیو ایم جیسی جماعتیں جن کو ہمارے عمران خاں کبھی چور ڈاکو کہتے تھے انہی کونہ صرف ساتھ ملانے پر مجبور ہوئے بلکہ وزارتیں دے کر ان کو ایک دفعہ پھر طاقتور بننے کا موقع بھی دیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے عوام نے جو امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں وہ پوری نہ ہوسکیں ۔ عوام کو انصاف ملا ، نہ ہی قانون کی حکمرانی قائم ہوسکی۔ یہاں آج بھی امیر اور غریب کے لیے قانون یکساں نہیں ہے ۔
مہنگائی مکائو مارچ کے ذریعے عوامی ہمدردی حاصل کرنے والی پی ڈی ایم میں موجود 14جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت تو حاصل کر لی مگر کیا ان کے دعوے سچ ثابت ہوئے ، یہ سوال ان کے لیے بھی ہے اور ان کو لانے والوں کے لیے بھی، قوم کو کیا ریلیف ملا۔ مہنگائی کا عذاب بڑھ گیا ، آئی ایم ایف نے غلامی کا شکنجہ مزید سخت کر دیا، اپوزیشن کی احتجاجی سیاست کو بدترین ریاستی تشدد کے ذریعہ کچل کر ، پنجاب اور کے پی کے میں بروقت انتخابات نہ کروا جمہوریت کا گلہ گھونٹ دیا گیا ، آزادی اظہار پر قدغن ، صحافیوں کی گرفتاریاں اور جبری گمشدگیاں، تعلیم یافتہ نوجوانوں اور سرمایہ کاروں کی دیگر ممالک میں ہجرت، نیب کے قوانین میں تبدیلیوں سے کرپشن کے راستے ہموار کرنے جیسے معاملات سے ملک ترقی نہیں کرتے ، وزیراعظم شہباز شریف جس اشرافیہ کے خلاف میڈیا کے سامنے باتیں کرتیں اسی اشرافیہ کو نوازتے ہیں ، ملکی مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوسکتے جب پوری قوم کرپشن کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائے ۔ کرپٹ لیڈروں کو پھولوں کے ہار کی بجائے جوتوں کے ہار پہنائے ۔ ووٹ دیتے وقت امیدواروں کی جانچ کریں کہ یہ ایماندار بھی ہے کہ نہیں موروثی سیاست کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں ۔ مگر بدقسمتی ہے کہ کرپشن کے پیسے سے الیکشن کے دوران عوام کو نہ صرف بریانی کھلائی جاتی ہے کہ ماہانہ راشن اور نقدی دے کر بھی ووٹ لیا جانا رواج بن چکا ہے ایسے میں کوئی ایماندار شخص اسمبلیوں میں کیسے پہنچ سکتا ہے اور ہمارے ملکی مسائل کیسے حل ہوسکتے ہیں؟
پاکستان کے سادہ لوح عوام 75سال سے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ کبھی آمریت اور کبھی جمہوریت کے کھیل میں ہمیشہ سے ہی پستے چلے آئے ہیں ۔ سادہ لوح بھی اتنے ہیں کہ ایک سیاستدان سے دھوکہ کھاتے ہیں تو دوسرے کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتے ہیں پھر اس سے ڈنگ کھاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ نہیں پہلا ہی ٹھیک تھا اور پھر اس کو دوبارہ برسراقتدار لے آتے ہیں یہ کھیل گزشتہ تین دہائیوں سے کھیلا جارہا تھا پھر پی ٹی آئی کی حکومت نے جب ماضی کے حکمرانوں کا احتساب کرنے کی کوشش کی تو ساری پارٹیاں اکٹھی ہوگئیں تب عوام کی آنکھیں کھلیں کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے مگر شاید ابھی بھی عوام کے پاس اتنے اختیارات نہ ہوں ، عوام کا ووٹ اتنی طاقت نہ رکھتا ہو کہ ملک میں کوئی حقیقی تبدیلی لاسکیں اور ہمارا ملک بھی بے پناہ مسائل سے نکل کر خوشحال ملک بن سکے ۔ حکومت کی مدت چند دنوں بعد ختم ہوجائے گی اور حکومت میں شامل تمام جماعتیں الیکشن کروانے کا اعلان کر رہی ہیں مگر عوام کو خدشات ہیں کہ پنجاب کی طرح وفاق میں بھی اگر نگران حکومت کی مدت لمبی ہوگئی اور الیکشن کمیشن نے معاشی استحکام تک الیکشن نہ کروانے کا فیصلہ کر لیا تو پھر پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ پی ڈی ایم جماعتوں کو جمہوریت بحالی کی تحریک چلانا پڑے گی ، اللہ کرے کہ الیکشن بروقت ہوجائیں ، شفاف ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن ہی ملکی مفاد میں ہیں اور عوامی حمایت سے آنے والی حکومت بہتری کے لیے مناسب اقدامات کر سکتی ہے اگر خودمختار ہوتو ، اتحادی جماعتوں کی بلیک میلنگ نہ ہو تو وگرنہ ہم خوشحالی کی تلاش میں نہ جانے کب تک بھٹکتے رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button