Column

اور پھر دی اینڈ

سیدہ عنبرین

گزشتہ دنوں اسلام آباد میں مقابلہ سیاسی حسن کا انعقاد ہوا جس میں قریب قریب وہی طریقہ کار اپنایا گیا جو عالمی مقابلہ حسن کے سلسلے میں ہوتا ہے، فرق صرف اتنا تھا کہ عالمی مقابلہ حسن میں جیوری پینل اور مقابلے کے سپانسر کو یعنی ملٹی نیشنل کاسمیٹکس کمپنیوں کو معلوم ہوتا ہے کہ کس ملک سے تعلق رکھنے والی حسینہ کو اس مرتبہ حسینہ عالم منتخب کرنا ہے تاکہ اس ملک میں بسنے والوں کو خاص طور پر بتایا جاسکے کہ اس حسینہ کے حسن کا راز فلاں بیوٹی کریم فیس پائوڈر، لپ اسٹک، ہیئر کلر اور فلاں کمپنی کے تیار کردہ مختلف رنگوں کے کنٹیکٹ لینز میں ہے، انہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے نمبر پر کس ملک اور تیسرے نمبر پر کس ملک کی حسینہ کو رکھنا ہے۔ یہ عام فہم کی بات ہے کہ اگر انہیں یہ سب کچھ پہلے سے معلوم نہ ہو تو وہ مقابلے کی شام بہت تھوڑے وقت میں حسن کی گھتیاں نہیں سلجھا سکتے۔ مقابلہ حسن کی جیوری کو یہ سہولت حاصل ہوتی ہے کہ حسینہ کی لہراتی بل کھاتی دراز زلفیں نہیں ہوتیں پس وہ کسی زلف دراز میں نہیں اُلجھتے اور طے شدہ فیصلہ سنا کر حاظرین سے داد سمیٹتے ہیں، اس کار خیر کا صلہ وہ پہلے ہی سمیٹ چکے ہوتے ہیں۔
اسلام آباد میں منعقد ہونے والا مقابلہ سیاسی حسن ایک لحاظ سے بلامقابلہ تھا لہٰذا اس کا نتیجہ بھی قوم کو پہلے سے معلوم تھا۔ اس مقابلے کا ایک قابل ذکر حسین پہلو یہ تھا کہ مقابلہ جیتنے والوں کے مقابل آنے کی کسی کو جرات نہ ہوئی، مقابلے کی دوسری خاص بات یہ تھی اس مقابلے کے ذریعے اس بات کا فیصلہ بھی ہوگیا کہ ملک میں فہم و فراست، عقل، تدبر، امانت، دیانت، شرافت جیسے اور صاف اوصاف کا مالک کون ہے، مزید برآں روحانی اور غیبی مدد کس کس کو حاصل ہے، مقابلے کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے ان جملہ اوصاف اور صلاحیتوں کی بارش لاہور کے نواحی علاقے رائیونڈ میں ہی ہوتی ہے، البتہ اس بارش کی چند چھینٹیں بھٹک کر پنجاب کے کسی دوسرے شہر میں پڑ جاتی ہیں، اس بارش پر پابندی ہے کہ رائیونڈ سے باہر نہیں برسنا اور اس کی بھٹکی یا بھٹکائی گئی چھینٹوں کو حکم ہے کہ پنجاب کی حدود سے نہیں نکلنا بس عالمی مقابلہ حسن کے نتائج کی طرح مقابلہ سیاسی حسن میں وزیراعظم شہباز شریف صدر، احسن اقبال سیکرٹری اور مریم نواز چیف آرگنائزر منتخب ہوئے ہیں جبکہ نواز شریف تاحیات صدر چنے گئے ہیں، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ن لیگ کی ٹیبل ٹرن ہوگئی ہے اور نواز شریف صاحب کو کھڈے لائن لگاکر کچھ نئے چہرے سامنے لائے جائیں گے تو یہ آپ کی بھول ہے، ایسے خیالات کو ذہن میں لانا اتنا ہی ناپسندیدہ ہے جتنا کوئی گناہ کبیرہ، نواز شریف نے اپنی نااہلی ختم ہونے تک اس عہدے پر رہنا پسند کیا ہے جو اب نمائش سمجھا جاتا ہے، فعال سیاستدان کو یہ عہدہ پیش کیا جائے تو وہ اس تاحیات عہدے کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیتے ہیں کہ یہ عہدہ واہیات ہے اس سے بہتر ہے انسان کوئی عہدہ نہ لے۔ مسلم لیگ ن کے پاس موقع تھا کہ وہ یہ عہدہ کسی پرانے لیڈر کو نہیں بلکہ سیاسی ورکر کو دے کر ڈینگیں مارتی کہ ہم ہیں جو اپنے کارکنوں کو کبھی نہیں بھولتے بلکہ انہیں اپنے ساتھ بٹھاتے ہیں لیکن ایسا کرنے میں ایک مشکل حائل تھی کہ الیکشن مہم میں اس کارکن کی تصویر پوسٹر کی زینت بنتی جس میں صرف نواز شریف شہباز شریف اور مریم نواز کی جگہ ہے، پوسٹر میں جگہ اتنی کم پڑ گئی کہ احسن اقبال کے بعد اب تو حمزہ شہباز کی تصویر کے لالے پڑے ہیں اسے کہاں فٹ کیا جائے لیکن پریشانی کی کوئی بات نہیں ’’ حمزہ شہباز لورز‘‘ کو دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے، احسن اقبال کو پوسٹر میں کہیں نکرے لگا کر ان کی جگہ نکال لی جائے گی آخر ان کی رگوں میں بھی شریف خون دوڑتا ہے یہ وہ خون نہیں جو پانی میں سرخ رنگ ڈال کر پنجابی فلم کے ہیرو کی چوٹی سے بہتا ہے اور ایڑی تک پہنچ جاتا ہے لیکن ہیرو اس کے باوجود لہولہان حالت میں ہسپتال جانے کی بجائے پہلے عدالت میں پیش ہوکر یہ مکالمہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ جج صاحب آپ صبح سے شام تک مختلف کہانیاں سنتے رہتے ہیں آج میں آپ کو اپنی کہانی سنانے آیا ہوں، فلمی جج صاحب کی عقل پر چونکہ پتھر پڑے ہوئے ہیں لہٰذا وہ بھی انتظامیہ کو حکم نہیں دیتے نہ ہی ملزم سے کہتے ہیں کہ پہلے ایک ڈرپ لگوا لو پھر کہانی شروع کرنا۔ عدالت کا سین عموماً فلم کا آخری سین ہوتا ہے جس میں لہولہان ہیرو کے مکالمے ختم ہوتے ہی ہیروئن کی انٹری ہوتی ہے جو جج صاحب کے روبرو پیش ہوکر بتاتی ہے کہ وہ زندہ ہے اور ہیرو نے اس کی عزت نہیں لوٹی بلکہ عدالتی کارروائی کو ذوق و شوق سے دیکھنے کیلئے ہال میں موجود شہر کے سب سے زیادہ متمول اور شریف سمجھے جانے والے شخص کی طرف اشارہ کرکے کہتی ہے جج صاحب یہ ہے وہ شخص جس نے میری عزت تار تار کی اور مجھے زنجیروں میں کئی روز تک جکڑے رکھا، جج صاحب مصنوعی حیرانی و پریشانی سے ہیروئن کی طرف دیکھتے ہیں اور اسے گفتگو جاری رکھنے کا موقعہ دیتے ہیں جس پر وہ بتاتی کس طرح اس کے دل دے جانی کو راستے سے ہٹانے کیلئے سازش کی گئی اور اسے جعلی پولیس مقابلے میں مارنے کی سازش کی گئی لیکن ہیروئن کی طرف سے دی گئی نشانی کا لاکٹ ہیرو کی گردن میں تھا جو اسے زندہ رہنے اور جدوجہد کرنے کی تحریک دیتا رہا، جج صاحب فقط چند لمحوں میں حقائق تک پہنچ جاتے ہیں اور ہال میں بیٹھے ہوئے مجرم کو گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہیں، ہیروئن اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رو کر ہیرو کے سینے سے جا لگتی ہے جس کی تاثیر سینما ہال میں بیٹھے ہوئے تماش بینوں تک پہنچتی ہے، ساتھ ہی سامنے دی اینڈ آجاتا ہے، حیرت کی بات ہے آخری سین میں ہیرو جب ہیروئن کو گلے سے لگاتا ہے تو ہیروئن کا سر ہیرو کے سینے پر ہوتا ہے جبکہ ہیرو کے ہاتھ ہیروئن کے سر پر نظر آتے ہیں، ملنے کا یہ انداز بہن بھائی کا ہوتا ہے دو محبت کرنیوالوں کا نہیں لیکن حماقتوں کی انتہا دیکھئے، ہیروئن اور ہیرو کے ہمیشہ کیلئے مل جانے کا یہ آخری سین گزشتہ ستر برس سے یونہی دکھایا جارہا ہے یونہی فلمایا جارہا ہے۔ سیاسی فلموں میں بھی کچھ سین گزشتہ پچاس برس سے دکھائے جارہے ہیں جس میں ہیروئن اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو یاد کرکے سیاسی فلم بینوں پر رقت طاری کرنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے لیکن سیاسی فلم بین اتنے ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں کہ انہیں اس موقعہ پر رونا نہیں آتا بلکہ بعض تو قہقہے لگا کر ہنستے نظر آتے ہیں، کچھ فرط جذبات میں آکر نعرہ بازی شروع کر دیتے ہیں جس سے بعض اوقات یہ تاثر ملتا ہے کہ جو کچھ ہوا بہت اچھا ہوا۔ اس سلسلے میں ایک درد ناک سین سیاسی فلمی تاریخ میں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوچکا ہے جب ایک اہم کردار نے بتایا کہ دوران قید اس پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے حتیٰ کہ اسے کپڑے استری کرنے کیلئے استری دستیاب نہ تھی اور اسے فرائنگ پین گرم کرکے اپنے کپڑے سیدھے کرنے پڑے، کپڑوں کا اس قدر خیال تو ماڈلز اور شوبز سے تعلق رکھنے والی شخصیات رکھتی ہیں، سیاسی شخصیات کیلئے یہ چیزیں بے معنی ہوتی ہیں، ن لیگ کو اب اپنے میڈیا منیجرز تبدیل کر لینے چاہئیں، وہ پچاس برس پرانی کہانیاں لکھ رہے ہیں جبکہ پیش کار انہیں من و عن پیش کر رہے ہیں، ایک نئی عدالت لگنے والی ہے جہاں آخری سین فلمایا جائے گا، ہیرو بے گناہ قرار پائے گا ولن کو چودہ سال قید بامشقت سنائی جائے گی اور پھر دی اینڈ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button