Column

ملک کا سوچئے . . محمد خان

محمد خان

پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو بہت دکھ ہوتا ہے کہ کافی وقت سے پاکستان کے حالات کو عالمی تناظر کو دیکھتے ہوئے کچھ بہتر ہونا چاہئے تھا لیکن پاکستان کے حالات بہتر ہو نے کی بجائے مزید خراب ہورہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جو پالیسیاں بناتے ہیں بلکہ جن کی پالیسیوں سے ملک چل رہا ہوتا ہے وہ چاہتے ہی نہیں ہے کہ ملک کے حالات ٹھیک ہوں۔ پاکستان کی اکانومی کی صورتحال کو دیکھیں تو یہ لگتا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ ہوگیا ہوا ہے، اب صرف اعلان رہتا ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کو قرض دینے کو تیار نہیں، تقریباً چار مہینے ہوگئے ہیں، ہمارے وزیر خزانہ کوشش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک گرائونڈ لیول پر بھی معاہدہ نہیں ہوسکا۔ پاکستان نے جون میں کچھ قسطیں واپس بھی کرنی ہے اور جون میں ہی پاکستان نے بجٹ بھی پیش کرنا ہے بقول اسحاق ڈار صاحب کے پاکستان کے خزانے میں دس ارب ڈالر ہے لیکن اتنے بڑے ملک کو چلانے کے لیے دس ارب کیا کرتے ہیں اور ساتھ میں آئی ایم ایف کو پیسے واپس کرنے ہیں اور آئی ایم ایف تو آئی ایم ایف اب تو ہمارے دوست ممالک پیسے نہ دینے کے بہانے تلاش کر رہے لیکن اگر دیکھا جائے تو وہ بھی ٹھیک ہے کب سے وہ ہم کو پیسے دے رہے ہیں لیکن ہماری حالت جوں کی توں بلکہ پہلے سے زیادہ خراب سو انہوں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ سیف زون کے دیکھے کر ہی کھیلیں گے، یہ بات بالکل نہیں کہ پاکستان کے حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے، پاکستان کے حالات ٹھیک ہو سکتے ہیں اگر عوام اور حکومت چاہے تو پاکستان کی سیاست دانوں کو ایک پیج پر مل بیٹھ کر اپنی ذات کو نظر انداز کر ملک کے بارے سوچنا ہوگا بلکہ سوچنا کیا ملک کی بہتر ی کے لیے کچھ کرنا ہوگا اب سوچنے کا ٹائم گیا۔ آئین کو مدنظر رکھ کر ریاست اور عوام کی بھلائی اور ترقی کی پالیسیاں بنا کر ان پر عمل درآمد کرنا اور کرانا ہو گا۔ ہمارے ملک کی سیاسی پارٹیاں چاہے کوئی بھی ہوں جب وہ حکومت میں ہوتی ہیں تو ملک کی ترقی کی طرف دھیان دینے کے بجائے وہ کھل کر اپوزیشن سے انتقام لیتی ہیں اور جو اپوزیشن میں ہوتی ہیں ان کے پاس ایسے ایسے پلان ہوتے ہیں جو ملک کو مہینوں یا سالوں میں نہیں بلکہ کچھ دنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن کر کے پاکستان کی عوام کے لیے بے پناہ سہولیات پیدا کر دیں گے لیکن جب حکومت میں ہوتے ہیں تو پتہ نہیں وہ پلان کہاں ہوتے ہیں جو پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کیلئے ترتیب دیئے گئے ہوتے ہیں لیکن موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی ایک پارٹی کے بس کی بات نہیں کہ ملک کی ڈوبتی کشتی کو نکال کر پار کنارے لگایا جاسکتا ہو۔ اب یہ بات ساری پارٹیوں پر منحصر ہے کہ ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتیں یا اپنی خوشی میں مست رہنا چاہتے ہیں عوام جائے بھاڑ میں، بہتر تو یہی ہی کہ سارے ماہرین جو اپوزیشن اور حکومت کے پاس جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں اگر وہ ایک ایک کر کے شاید بہت ٹائم لگ جائے اگر وہ سارے اکٹھے مل کر زور لگائے تو میرے ملک کے حالات جلد ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ پوری دنیا آج کل اپنے آپ کو سب سے پہلے معاشی طور پر مضبوط کر رہی ہے تو ہمیں بھی اپنی اکانومی کو مضبوط کر کے اپنا وقار حاصل کرنا ہو گا، اگر ہم اپنے خطے میں دیکھے تو جو ملک ہمارے ساتھ آزاد مملکت بنی تھی وہ آج دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتی ہے، بھارت ہمارے ساتھ ایک آزاد مملکت بنی تھی وہ دنیا کی چھٹی بڑی معیشت بن چکی ہے، چین سپر پاور ہونے کا عنقریب اعلان کرنے جارہا ہے، بنگلہ دیش ہم سے بہت بعد الگ ہوا، ان کی معیشت ہم سے کئی گناہ زیادہ مضبوط ہے تو کیا ہمارے ملک ذخائر کی کمی ہے؟ بالکل نہیں پاکستان میں ذخائر کی کوئی کمی نہیں، بس ان ذخائر کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے، آخر میں بات یہ ہے کہ میرے ملک کے سیاست دان اور تمام ادارے، عوام مل کر آئین پر عمل کریں تو میرا ملک خوشحال اور امن کا گہوارہ بن سکتا ہے جس کی عزت انشااللہ پوری دنیا میں ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button