ColumnMazhar Ch

ہم کیا کر سکتے ہیں؟ .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

 

معروف برطانوی مفکر برٹرینڈرسل اپنے ایک مضمون’’ہم کیا کر سکتے ہیں‘‘میں رقم طراز ہیں کہ بہت سے مرد اور خواتین انسانوں کی خدمت کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ پریشان خیالی میں مبتلا ہیںاور ان کی توانائیاں اور صلاحیتیں بے حد معمولی دکھائی دیتی ہیں۔ اپنی ناتوانیوں کے تصور سے وہ گہری مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جن کا انسانی خدمت کا جذبہ زیادہ شدید ہوتا ہے، ان کو اپنی ناتوانی کے احساس سے رنج بھی زیادہ پہنچتا ہے۔ بات یہ ہے کہ توجہ اگر فوری مستقبل تک محدود رہے تو پھر لگتا ہے کہ ہم واقعتاً کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دے سکتے، کسی خون خرابے کو یا کسی بڑی جنگ کو ختم کروانا غالباہمارے بس کا روگ نہیں ہے۔فوراً ہی ہم تعلیم سمیت کسی بھی شعبے میں نئی روح نہیں پھونک سکتے۔اس قسم کے معاملات میں ہم کو خرابی اور بدی کا احساس تو ہو سکتا ہے لیکن ہم معمول کے طریقوں کی مدد سے ان کو یک دم ختم نہیں کر سکتے۔ہم کو مان لینا چاہیے کہ دنیا کا نظام غلط طریقے سے چل رہا ہے اور یہ بھی کہ پلک جھپکتے ہی اس کو راہ راست پر نہیں لایا جا سکتا، لہٰذا ہماری امیدوں کا تعلق آنے والے کل یا مستقبل قریب سے نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہم کو وہ زمانے پیش نظر رکھنے چاہئیںجب وہ تصورات اکثر لوگوں تک پھیل جائیں گے اور مقبول عام ہو جائیں گے جو آج صرف چند لوگوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ہم میں حوصلہ اور صبر ہو تو ہم ایسے خیالات پر غور وفکر کر سکتے ہیں اور ایسی اُمیدیں پال سکتے ہیں جو جلد یا بدیر لوگوں کو متاثر کریں گی اور ان کو عمل پر اُکسائیں گی۔رسل کہتے ہیں کہ خیالات کی طاقت بل آخر کسی اور انسانی طاقت سے عظیم ترثابت ہوتی ہے۔جو لوگ سوچنے کی اہلیت رکھتے ہیں اورانسانی ضرورتوں کے مطابق سوچنے کا تخیل رکھتے ہیں وہ عام طور پر جلد(زندگی میں) یا بدیر (مرنے کے بعد)اپنا مقصد حاصل کر لیا کرتے ہیں۔ ‘‘
انفرادی و اجتماعی سطح پر ہم زندگی میں بہت کچھ کر سکتے ہیں لیکن ہم سب کیلئے کرنے کا سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے مقصد حیات کا تعین کریں۔مشہور امریکی ماہر تعلیم ہربرٹ ہاکس کے مطابق کالج میں فیل ہونے والے طلباء کو دو کیٹیگریز میں شامل کیا جا سکتاہے۔ ایک وہ جوامتحان پاس کرنے کیلئے کوشش کرتے ہیں لیکن فیل ہوجاتے ہیں اور دوسرے وہ جو کوشش ہی نہیں کرتے۔اسی طرح دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ایک وہ جو ساری زندگی خواہشات کا غلام بن
کر گذار دیتے ہیںاور دوسرے وہ جو کسی مقصد کے تحت جیتے ہیں۔ زندگی گزارنے اور زندگی جینے میں فرق مقصد حیات کے تعین کرنے یا نہ کرنے میں ہی مضمر ہے۔کسی مقصد کے تحت جینے والوں کے برعکس مقصد کا تعین نہ کرنے والے لوگ بس دوسروں کی دیکھا دیکھی ایک روبوٹ کی طرح محنت کرتے زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ نصب العین کے بغیر زندگی جینا بغیر چھت یا ستونوں کے دیواریں کھڑی کرتے جانے کے مترادف ہے۔مقصد کا تعین کرنے کیلئے فرصت اور یکسوئی کے لمحات میں اپنے آپ سے who are you اور what do you want جیسے بنیادی سوال کرنا ناگزیر ہوتا ہے لیکن زیادہ تر لوگ یا تو زندگی بھر اپنے آپ سے یہ سوال ہی نہیں کر پاتے یا پھر خود کو ان سوالات کا کوئی مدلل جواب نہیں دے پاتے۔مقصد کا تعین نہ کرنے والے اکثر وبیشتر لوگ ساری زندگی پریشان خیالی کا شکار رہتے ہیں ۔ایسے افراد بس ڈنگ ٹپائو پالیسی کے تحت زندگی گذارتے رہتے ہیں۔انفرادی یا اجتماعی سطح پر کچھ غیر معمولی کر گزرنے کیلئے مقصد کا تعین ضروری ہے۔کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جیسے ہی کوئی فرد اپنے دماغ میں اپنی زندگی کا مقصد واضح کر لیتا ہے اس کی زندگی میں ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر خود بخود آ جاتی ہے۔
ویسے تو دنیا میں ہر کوئی اپنی پسند و ناپسند، خواہش و مزاج اور رجحان و صلاحیت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے لیے کسی بھی مقصد کا تعین کر سکتا ہے لیکن تاہم پھر بھی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ آپ کا مقصد حیات ایسا ہو جو آپ کو زندگی میں کامیاب فرد بنانے کے ساتھ ساتھ معاشرے کیلئے بہترین انسان بھی بنا سکے۔ہمارے مقصد حیات میں علم کی جستجو اور محبت کی تلاش کے ساتھ ساتھ انسانی دکھوں کیلئے بے پایاں درد محسوس کرنے کا جذبہ بھی شامل ہونا چاہیے، اگرچہ ہم مقامی، ملکی اور عالمی سطح پر موجود جہالت غربت، بے روزگاری، ظلم ، جبر اور ناانصافی کا فوری اور یکسر خاتمہ نہیں کر سکتے تاہم ہم غربت کی چکی میں پسنے والے ، ظلم وجبر کا شکار اور ابنیادی انسانی حقوق اورنصاف سے محروم انسانوں کے دکھ درد محسوس کرتے ہوئے ان کی دادرسی کیلئے کچھ نہ کچھ ضرور کر سکتے ہیں۔کسی نے کہا تھا اور کیا خوب کہا تھا کہ سماج کیلئے لڑو، لڑ نہیں سکتے تو لکھو، لکھ نہیں سکتے تو بولو، بول نہیں سکتے تو ساتھ دو۔ساتھ نہیں دے سکتے توجو سماج کیلئے لڑ، لکھ اور بول رہے ہیں ان کی مدد کرو اور اگر مدد بھی نہ کر سکتے تو ان کے حوصلوں کو مت گرنے دو کیوں کہ وہ آپ کے حصے کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ہمیں سماجی و سیاسی سطحوں پرہر قسم کے ظلم ، جبر ، ناانصافی اور قانون شکنی کی بلا امتیاز مذمت ومزاحمت کرنی چاہیے۔ہم غلط کو غلط کہنا شروع کر دیں تو کئی ایک برائیوں کی شدت میں کمی لانے کا باعث بن سکتے ہیں۔مولانا عبید اللہ سندھی نے کہا تھاکہ مظلوم کامذہب اور قوم پوچھے بغیر اس کے حق میں کھڑے ہو جائو۔ اسی طرح اگر ہم ملکی سیاست میں پائی جانے والی خرابیوں پر آواز بلند کرنا شروع کر دے تو تھوڑے عرصے میں بتدریج بہتری آنا شروع ہو سکتی ہے۔ ملکی سیاست میں ہمارا کردار یا توہر پانچ سال بعد ووٹ ڈالنے تک محدود ہے یا پھر ہم تھڑے اور سوشل میڈیا پر بیٹھے ملکی معاملات پر بحث کرتے رہتے ہیں۔حکومت کی عوام دشمن پالیسیز کے خلاف یا ملک و قوم کے حق میںکسی خاص قانون سازی پر زور دینے کیلئے پرامن انداز میں سڑکوں پر آ کر اپنا کردار ادانہیں کرتے ۔افلاطون نے کہا تھاکہ سیاست سے کنارہ کشی کا انجام یہ ہوگا کہ تم سے کم تر لوگ اُٹھ کر تم پر حکومت کریں گے۔سیاست کی فریب کاریوں کو سمجھنے کیلئے معروف شاعر فرحت عباس شاہ کی کتاب’’مزاحمت کریں گے ہم‘‘سے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
ممکن تھا جتنا حشر اٹھایا گیا سمجھ
جمہوریت کو کھیل بنایا گیا سمجھ
اعلیٰ فریب کاری سیاست کہی گئی
مہروں کو آگے پیچھے بڑھایا گیا سمجھ
جکڑا گیا ہے قرضوں کے بے رحم جال میں
یہ کام کس سے کیسے کرایا گیا سمجھ
کب کس طرح سے کونسے مقصد کے واسطے
کس کس کو اقتدار میں لایا گیا سمجھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button