Abdul Hanan Raja.Column

تماشائے اہلِ کرم .. عبدالحنان راجہ

عبدالحنان راجہ

 

جنرل ساحر شمشاد سے پہلی ملاقات اس روز ہوئی جب شہید میجر طلحہ منان کی شہادت کے بعد وہ اظہار تشفی اور تالیف قلب کیلئے گھر تشریف لائے۔ بیرونی دروازے پر انکو خوش آمدید کہا، مہمان خانہ میں شہید کے والد کو دیکھتے ہی ان کے ہاتھ فوجی انداز میں اٹھے، شہید کے والد کو بیٹے کی شہادت پر مبارک باد پیش کی، جنرل ساحر شمشاد کے مطابق وہ دوران سفر تشفی اور تسلی کے الفاظ سوچتے آ رہے تھے مگر شہید کے والدین کی حوصلہ مندی دیکھ کر پر فخر ہوئے اور کہا کہ جب تک ایسی حوصلہ مند مائیں موجود ہیں قابل فخر سپوت پیدا ہوتے رہیں گے۔ اگلے روز جنازہ میں شرکت اور تدفین تک ساتھ رہے، بعد ازاں دو تین بار ملاقات میں جنرل ساحر کو دیگر کے برعکس منکسر المزاج اور ہمدرد دیکھا بالخصوص شہدا کے خاندانوں کیلئے! سابق چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زبانی ان کے بچپن کے حالات معلوم ہوئے کہ چند ماہ کی عمر میں یتیم اور اوائل عمری میں ہی شفقت مادر ماں سے محروم ہونے والے کو اللہ نے کس طرح بلند ترین منصب عطا کیا،سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات میں انہیں خوش گفتار اور معاملات پر گہری نظر رکھنے والا پایا، طویل نشست میں اہم موضوعات پر بات چیت ہوئی اور پس پردہ حقائق انہی کی زبانی سننے کو ملے، کچھ باتیں امانت اور صحافتی اقدار ان میں خیانت کی اجازت نہیں دیتیں۔ سابق چیف کے مطابق انہوں نے عدم اعتماد کی تحریک بابت کپتان کو قبل از وقت آگاہ کر دیا تھا مگر کپتان اپنی ہی جماعت کے اندر پکنے والے لاوے کو پھٹنے سے روک سکے اور نہ معاملات کی سنگینی کا بر وقت ادراک کر سکے، بقول سپہ سالار بدلتے روئیوں نے بہت کچھ بدل ڈالا، اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہوئی تو معاملات کپتان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ اس میں شک نہیں کہ جنرل باجوہ نے اپنے دائرہ کار سے ہٹ کر معاشی اور خارجی محاذ پر پی ٹی آئی حکومت کو جو سہولیات فراہم کیں وہ تاریخ کا حصہ ہے، وزیر اعظم اور سپہ سالار کی مثالی ہم آہنگی کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی۔ کپتان کو اقتدار کے بعد کٹھن معاشی حالات درپیش تھے۔ نون لیگی حکومت نے آمدہ انتخابات میں اپنی شکست یقینی دیکھ کر جو معاشی خندقیں کھودی تھیں کپتان اس میں گر پڑے، انہوں نے خزانہ ایک کے بعد ایک کے سپرد کیا مگر معاملات نہ سنبھلے، دعوے بلند و بانگ تھے اور عوامی توقعات بہت زیادہ، صرف کھلاڑی ہی نہیں معاشی دہشت گردوں کے ستائے عوام بھی چشم تصور میں بڑی تبدیلی بالخصوص غربت سمیت لاقانونیت، ناانصافی جیسے سماجی مسائل کے خاتمہ بارے پر امید تھے، پہلے 90 دن پھر چھ ماہ اور آخر سال گزر گیا مگر تبدیلی نظر نہ آئی، عوام کی بے چینی شروع ہوا ہی چاہتی تھی کہ کرونا کی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میںلے لیا۔مغربی ممالک کے برعکس پاکستانی حکومت نے اس کا بہتر انداز سے مقابلہ کیا، عمران خان نے ان بدترین حالات میں کمزور طبقات کو ریلیف فراہم کرنے کی مقدور بھر کوشش کی، معیشت پہلے ہی زبوں حالی کا شکار تھی اور دوست ممالک سے تعلقات بھی کم ترین سطح پر، ان حالات میں جب حکومت کے معاشی و خارجہ امور کے ماہرین کو کچھ نہ سوجھ رہا تھا تو جنرل قمر جاوید باجوہ سفارتی اور معاشی محاذ سرگرم ہوئے اور باجوہ ڈاکٹرائن کی اصطلاح وجود میں آئی۔ چیف کی خاموش سفارت کاری نے سعودی عرب اور چین سے دوبارہ قابل اعتماد تعلقات کی راہ ہموار کی اور پھر وزیر اعظم کا ہر دو ممالک میں شایان شان استقبال ہوا، سابق سپہ سالار نے دوران ملاقات بتایا کہ عرب ممالک اور چین نے ہماری درخواست پر ہمیں معاشی سنبھالا دیا،اس میں دو رائے نہیں کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے اپنی عسکری سفارت کاری کی صلاحیتوں کو خوب بروئے کار لایا، بدقسمتی یہ کہ ذوق مطالعہ سے عاری اور سوشل میڈیا کے پجاری اکثریت کو ماضی قریب کے واقعات یاد ہیں نہ تاریخ پہ نظر۔ انہوں نے تو فکری، نظریاتی اور اخلاقی اقدار بھی بھلا دیں، جس کا نتیجہ کہ وہ بلا سوچے جذبات کی رو میں بہہ نکلتے ہیں، افغانستان میں بھارت نواز حکومت کا خاتمہ اور بغیر جنگ و جدل طالبان کا کابل پر قبضہ نے پاکستان کو بڑی آزمائش سے بچا لیا کہ
جب امریکی ایجنسیز کی طرف بڑے خون خرابہ کی پیشین گوئی اور اس کے براہ راست اثرات پاکستان پر پڑنے تھے،یہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہی تھی کہ جس نے ماضی میں بیک وقت بھارت، روس اور اسرائیل جیسے طاقتور ممالک کو ناکوں چنے چبوائے، عرب ممالک کٹھن وقت میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہی دیکھتے ہیں،حالیہ مثال قطر میں فٹ بال ورلڈ کپ میں سکیورٹی امور کی ہے، سپر پاور امریکہ باوجود بارہا کوشش کے ہمیں ایران کی طرح تنہا نہ کر سکا، الحمد للہ بھارت کیلئے عسکری جارحیت کی سوچ بھی سوہان روح ہے، پوری دنیا چین سے خائف اور چین پاکستان دوستی پر فخر کرتا ہے، ہماری پریمیر انٹیلی جنس ایجنسی بیک وقت تین سپر پاورز کے علاوہ بھارت اور اسرائیل جیسے مکار دشمن سے نبرد آزما جو ہمیں داخلی طور پر بھی بے دست وپا کرنے کے در پے، بلاشبہ قوم ان خاموش مجاہدوں پر فخر کرتی ہے، دیانت داری کا تقاضا تو تھا کہ سیاسی قیادت اسٹیبلشمنٹ کی ان صلاحیتوں کا ادراک ان کو نظریاتی قوت فراہم اور داخلی محاذ پر کوہتائیوں کو حکیمانہ انداز سے حل کرتی مگر دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کی اسیر رہیں، اپنے مقاصد کے وقت اسٹیبلشمنٹ کا کردار درست جانا گیا، مگر جب تعلقات میں بگاڑ آیا تو وہ طوفان بد تمیزی اٹھا کہ الاماں الحفیظ،! حتی کہ شہدائے لسبیلہ اور دیگر شہدا کو بھی رگید ڈالا۔ سیاسی قیادتوں کی ناعاقبت اندیشی کہ انہوں نے اپنے کارکنان کو یہ باور ہی نہیں کرایا کہ انکی ناموس اور وطن کی حفاطت چند ٹکوں کی خاطر نہیں کی جاتی، یہ حیدری جانباز جانوں کا نذرانہ جذبہ حب الوطنی اور شوق شہادت میں پیش کرتے ہیں، ان کو شہادت اتنی ہی مطلوب ہوتی ہے جتنی سیاست دانوں کو حکومت، ان مجاہدوں پہ کیا گزرتی ہے جب انہیں سیاسی قیادت کی ہلہ شیری پر طعن و تشنین کا نشانہ بنایا جاتا ہے، نشست کا اختتام جنرل باجوہ کا میری اس بات سے اتفاق پر ہوا کہ اگر قانون اور ادارے روز اول سے ہی مصلحت کا شکار نہ ہوتے تو زبانیں اس طرح دراز نہ ہوتیں۔ بقول شاعر
یوں غلط تو نہیں چہروں کا تصور ہمدم
مگر لوگ ویسے بھی نہیں جیسے نظر آتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button