Ali HassanColumn

قابل فخر قوم .. علی حسن

علی حسن

 

تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کو 23 دسمبر کو تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہیں اپنے اس قدم کی وجہ سے یقین ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین پر مشتمل حکومت انتخابات کے انعقاد کا فوری اعلان کر دے گی۔ عمران خان کو انتخابات کے فوری انعقاد کی سیاسی ضرورت ہے۔ ان کے سیاسی حریفوں کو سیاسی ضرورت کے تحت ہی زیادہ سے زیادہ تاخیر کی ضرورت ہے۔ پاکستان اس وقت جس طرح کی مخدوش معیشت اور افرا تفری والے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے ، اس میں فوری انتخابات کیا نتیجہ دے سکیں گے اور موجودہ حکومت تو پاکستان کو دیوار سے لگا ہی چکی ہے۔ تعلیم یا فتہ طبقہ تباہی کی پیش گوئی کرتا ہوا پایا جاتا ہے۔ خوف زدہ لوگ تو سری لنکا کے انجام سے زیادہ ہی کی رائے دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ایک وقت کے جج جناب جسٹس آصف کھوسہ نے جو بعد میں چیف جسٹس بھی مقرر ہوئے تھے ، سابق وزیراعظم نواز شریف کے توہین عدالت کے مقدمے کے فیصلے میں اپنا علیحدہ نوٹ تحریر کیا تھا ۔ ’’حیف ہے ،اس قوم پر‘‘ کے عنوان سے طویل نوٹ تھا جو سامان عبرت تھا ۔ اس قوم کے رہنمائوں کیلئے ، لیکن عدلیہ کے ایک ناقد نے اس پر یہ تبصرہ کیا کہ جج صاحب پاکستانیوں کے جذبات عربوں کی طرح ابھارنا چاہتے تھے ۔
اپنے وقت کے عظیم دانشور، فلسفی اور شاعر خلیل جبران کو کیا معلوم تھا کہ نظم’’ قابل رحم ہے، وہ قوم‘‘ جو وہ تحریر کر رہے ہیں ، ان کی موت کے سولہ سال بعد وجود میں آنے والی پاکستانی قوم کی لفظ بہ لفظ عکاسی کرے گی۔ خلیل جبران نے’’قابل رحم ہے وہ قوم‘‘ کسی اور پس منظر میں لکھی تھی۔ اگر وہ قیام پاکستان کے بعد زندہ رہتے تو شاید لکھتے کہ’’قابل فخر ہوتی ہے ،وہ قوم‘‘ اور قوم کے آج کے حکمرانوں کے خیال میں قوم کو اپنے جن کارناموں پر فخر ہوتا تو وہ کچھ یوں ہوتے ۔ راقم نے اس عنوان سے ایک کالم لکھا تھا۔
قابل فخر ہوتی ہے وہ قوم
جو عمل میں ناکارہ ہوتی ہے ، دخل اندازی میں تیز ہوتی ہے
جو ضرورت مندوں کے معاملے میں بخل کا مظاہرہ کرتی ہے
جو بوئے کوئی اور کھائے کوئی پر یقین رکھتی ہے
جو محنت کرے، کوئی اور صلہ پائے کوئی پر عمل کرتی ہے
جو حسد ، ہوس اور حرص کی گرویدہ ہوتی ہے
جو ہاتھ پھیلانے کو معیوب نہیں سمجھتی ہے
جو جھولی بڑھانے کو عیب قرار نہیں دیتی ہے
قابل فخر ہوتی ہے وہ قوم
جس کے تعلیمی اداروں میں سیاسی رہنمائوں کے گودام ہوتے ہیں ، بیٹھکیں ہوتی ہیں
جانوروں کے اصطبل ہوتے ہیں
جس کے اساتذہ بکھرے بالوں،کھلے گریبانوں سے کلاسوں میں جاتے ہیں
اپنے شاگروں کے سامنے سگریٹ اور بیڑی کا دھواں اڑاتے ہیں، منہ میں پان کھاتے ہیں
جس کے طلباء نقل کر کے امتحان میں کامیابی کو معیار جانتے ہیں
قابل فخر ہوتی ہے وہ قوم
جس کے سیاست دان سیاست کو پیسہ بنانے کا پیشہ قرار دیتے ہیں
جس کے مذہبی رہنما سیاست میں مکر و فریب کے قائل ہوتے ہیں
جس کے جنرل سیاست کرتے ہیں
جس کے مبلغ منبر پر کھڑے ہو کر غیبت کرتے ہیں
جس کے صحافی لکھتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں
جس کے ذرائع ابلاغ پیسہ بٹورنے میں پیش پیش رہتے ہیں
قابل فخر ہوتی ہے وہ قوم
جس کے دم قدم سے ہر کام میں سیاست ہو تی ہے
جس کے منتخب رہنمائوں کو ہوٹل اور اسمبلی کے بل کا فرق معلوم نہیں ہوتا
جس کے رہنما بوگس ووٹ لے کر منتخب ہوتے ہیں
قابل فخر ہوتی ہے ،وہ قوم
جس کے وزراء سرکاری ملازمتوں میں بھرتی کے پیسے لیتے ہیں
تقرری اور تبادلے چمک اور دمک کے عوض کرتے ہیں
جس کے اہل افراد سفارش نہ ہونے پر محروم رہ جاتے ہیں
جس کے نااہل افراد سفارش اور پیسے کی بنیاد پر بڑے بڑے عہدے پاتے ہیں
قابل فخر ہوتی ہے وہ قوم
جس کے ڈاکٹر ہسپتالو ںکی دوائیں بازار میں فروخت کرتے ہیں
ضرورت مندوں کو محروم رکھتے ہیں
جس کے افسران عوامی فلاح کے ہر کام پر بے دریغ پیسہ کھاتے ہیں
جس کے انجینئر عمارتوں ، سڑکوں کی تعمیر میں بھی پیسہ کھاتے ہیں
قابل فخر ہوتی ہے وہ قوم
جس کی مساجد کے دروازوں پر فرقوں کے نام لکھے ہوتے ہیں
جس کا ہر فرد دوسرے کوباعث قابل گردن زدنی قرار دیتا ہے
قابل فخر ہوتی ہے وہ قوم
جس کے لوگ عقیدے کے نام پر قتل جائز تصور کرتے ہیں
جو اپنے پڑوسی کو زبان ، نسل کی بنیاد پر قتل کرنے میں نہیں ہچکچاتے
جو اپنی عورتوں کو قتل کرتے ہیں، مائوں ، بہنوں اور بیویوں کو بھی نہیں بخشتے ہیں
جو اپنے چہرے بچانے کیلئے عورتوں کے چہرے بگا ڑ دیتے ہیں
قابل فخر ہوتی ہے وہ قوم
جو ہر وقت جذبہ نفرت میں بھری رہتی ہے
جو انتقام کو سینے میں دبائے مگن رہتی ہے
جو زندوں سے نفرت، مردوں سے محبت کرتی ہے
قابل فخر ہوتی ہے وہ قوم
جو خوشی میں دیوانگی کی حدوں کو چھوتی ہے
جو غمی میں کسی کی پرواہ نہیں کرتی ہے
قابل فخر ہوتی ہے وہ قوم
جس کے وکلاء بڑی بڑی فیسیں لے کر جرائم پیشہ لوگوں کو عزت کا سرٹیفکیٹ دلاتے ہیں
جو فیس وصول کر کے رسید نہیں دیتے
جس کے وکلاء غریبوں کے مقدمات کی پیروی کرنے سے کتراتے ہیں
جس کے رضا کار اپنی رضا میں مگن رہتے ہیں
قابل فخر ہوتی ہے وہ قوم
جو نظام احتساب کو زیبائش کیلئے استعمال کرتی ہے
جونظام عدل کو پیمائش میں ناپتی ہے
جو سزا کو نمائش کی طرح استعمال کرتی ہے
جو جزا کو خریدنے کی خواہش رکھتی ہے
جو کتابوں میں منع کئے گئے ہیں ہر وہ کام کرتی ہے
قابل فخر ہوتی ہے ، وہ قوم
اس تماش گاہ میں قابل فخرہے وہ قوم ،جو تماش بینی پر عمل کرتی ہے
’’قابل فخر ہوتی ہے وہ قوم‘‘اور وہ قابل فخر قوم پاکستانی ہیں ۔
آج پاکستانی قوم کی حالت کیا اوپر تحریر کی گئی صورت حال سے کسی طرح بھی مختلف ہے۔ سوچئے، دیکھئے، غور کیجئے کہ کیا ہم اپنے منطقی انجام کی طرف تیزی سے رواں دواں نہیں ہیں۔ سب کا اندازہ ہے کہ یہ انجام کیا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button