ColumnJabaar Ch

اسمبلی توڑ مہم ۔۔ جبار چودھری

جبار چودھری

 

سب تدبیریںلڑائی جاچکیں،صلاح مشورے بروئے کار لائے جاچکے۔نتیجہ یہی کہ جو اعلان چھبیس نومبر کو پنڈی میں ہواتھااس کو کرگزرنے کے سواکوئی چارہ نہیں۔عمران خان صاحب آج لاہورکے لبرٹی چوک میںاسمبلی توڑجلسہ کریں گے یہاں وہ اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب اورخیبرپختونخوامیں قائم اپنی حکومتوں کے خاتمے کی تاریخ کا اعلان کر دیں گے۔میں نے انہی صفحات میں لکھا تھا کہ خان صاحب اسمبلی توڑنے کا اعلان کرکے کلہاڑی پر اپنا پاؤں رکھ چکے ہیں اب انہیں اس پرسے گزرنا ہی پڑے گا۔مفرمکراس بار کام نہیں آئے گااور اس کے کام نہ آنے کی وجوہات ہیں۔

عمران خان نے پنڈی میں لانگ مارچ ختم کرنے کیلئے خود کو یہ فیس سیونگ دی تھی کہ ان کے پاس جو دوصوبوں کی حکومتوں کا ایٹم بم رکھا ہے وہ چلادیںگے۔یہ اعلان اس وقت تونہایت خوشنما اور بلے بلے کروانے والا تھالیکن اگلے ہی دن میں نے عرض کردیا تھا کہ خان صاحب نے جس مشاورت کے بعد یہ کام کرنے کا اعلان کیا ہے اگر اس مشاورت کے بعد یہ اسمبلی توڑاعلان کرتے تو انہیں زیادہ پذیرائی ملتی ۔پی ڈی ایم حکومت کو سنبھلنے کا موقع نہ ملتااور خان صاحب کیلئے نتائج حاصل کرنا قدرے آسان ہوجاتا۔ویسے تو خان صاحب نے مشاورت کے نام پر وقت حاصل کیا تھا۔ان کا خیال تھا کہ اسمبلی ٹوٹنے کے اعلان کے ساتھ ہی حکومت ڈر جائے گی۔سب زمان پارک کی طرف بھاگے چلے آئیں گے اورپھر میں ان کے آگے شرط رکھ دوں گا کہ اسمبلی بچانی ہے توالیکشن کی تاریخ دیں۔یہ پیغام پہنچایا بھی گیا۔صدر عارف علوی کو پیغام رسانی کیلئے استعمال بھی کیا گیا لیکن دوسری طرف سے صاف کہا گیا کہ مذاکرات کیلئے بیٹھ سکتے ہیں لیکن پیشگی شرائط قبول نہیں اور اس شرط کے بغیر مذاکرات کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہونے کے امکانات کم تھے اس لیے خان صاحب نے چاروناچار اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کی طرف جانے کا ہی فیصلہ کیا۔
اسمبلی توڑنے،اپنی دو حکومتیں ختم کرنے کا فیصلہ کوئی آسان فیصلہ ہرگزنہیں۔پنجاب میں مشکل دوچند۔وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی صاف انداز میں زمینی حقائق عمران خان کو بتاچکے۔عمران خان نے ان کا اعتراف بھی کیاکہ انہیں اعلان نہیں کرنا چاہیے تھالیکن ان کی سیاسی مجبوری کہیں بڑی ہے۔ یہ الگ بات کہ مجبوری کے فیصلے کم ہی کارگرہواکرتے ہیں۔پرویزالٰہی نے اس دوران چودھری شجاعت سے تعلقات بہتر ہونے کی خبریں دے کربھی عمران خان کو ڈرایا کہ ان کے پاس دوسراآپشن موجود ہے اور وہ اپنی حکومت بچانے کیلئے پی ڈی ایم کی کشتی میں بھی سوار ہوسکتے ہیں لیکن عمران خان کیلئے یہاں سے پیچھے ہٹنا خسارے کا سودا ہی نہیں بلکہ شرمندگی اور ندامت کا باعث بھی ہوگا۔وہ یوٹرن لینے کو جائز سمجھتے ہیں لیکن یہ معاملہ یوٹرن سے کافی بڑا ہےاور یہ وقت خان صاحب کی سیاست کیلئے کوئی بہت موزوں نہیں ہے۔وہ اس بات سے تو یوٹرن لے سکتے ہیں کہ اپنے دور حکومت کے سارے گناہ جنرل باجوہ کے سرڈال دیں۔انہیں اپنا اورملک کا دشمن ہی کہہ دیں۔وہ اس بات سے بھی یوٹرن لے سکتے ہیں کہ اب نیوٹرل جانور نہیں ہوتا اب انہیں نیوٹرل اسٹیبلشمنٹ درکار ہے لیکن اسمبلی نہ توڑنا اب شاید ان کے اپنے بس سے بھی باہر ہوچکا ہے۔ایک صورت بہرحال نکل سکتی ہے کہ اسمبلی توڑنے کی سمری بھیجنے سے پہلے گورنر،پرویزالٰہی کو اعتماد کاووٹ لینے کا کہہ دیں۔اس سے اسمبلی کی فوری تحلیل رک جائے گی اورپی ٹی آئی کو اپنے ایم پی ایز کی فکر پڑجائے گی۔قاف لیگ میں اگرکوئی چھ لوگوں کا گروپ ہے تواس کو بھی غیر حاضرکیا جاسکتا ہے تو اگر اعتماد کے ووٹ کی بات ہوئی توپنجاب کی سیاست ایک بار پھر گرم ہوجائے گی اور اس کے امکانات موجود ہیں۔گورنر پنجاب بلیغ الرحمان بھی پی ڈی ایم کے اشارے کے منتظرہیں۔
یہ سوال ابھی بھی اپنی جگہ پر ہی ٹکا ہوا ہے کہ اسمبلی توڑنے کی تاریخ دینے کیلئے آج کا یہ میلہ سجانے کی کیا ضرورت تھی تو اس کا جواب سادہ سا ہے کہ خان صاحب نہیں چاہتے کہ عوامی اجتماعات میں اتنازیادہ وقفہ آجائے کہ کارکنوں کو دوبارہ متحرک کرنے کیلئے نئے سرے سے محنت کرنی پڑے۔خبر یہ ہے کہ خان صاحب آج جس تاریخ کا اعلان کریں گے وہ تئیس دسمبر ہوگی۔یعنی اعلان اوراسمبلی تحلیل میں ایک ہفتہ ہے اس ایک ہفتے میں بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ اس دوران پنجاب اورخیبر پختونخوامیں نگران سیٹ اپ پربات چیت ہوگی۔اس دوران پرویزالٰہی کے اسمبلیاں توڑنے سے مکرجانے کا آپشن تو ہے لیکن چانس نہیں ہے۔قاف لیگ بے شک اس وقت وزیراعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہے لیکن وہ یہ جانتے ہیں کہ یہ کرسی ان کی اپنی نہیں ہے عمران خان کسی بھی وقت یہ کرسی کھینچ سکتے ہیں جو کہ انہوں نے کھینچنے کا آغازبھی کردیا ہے۔قاف لیگ کیلئے اصل لالچ اگلے سیٹ اپ میں عمران خان کی مقبولیت میں سے اپنا حصہ وصول کرناہے۔مونس الٰہی ہو ں یا پرویز الٰہی ان کی عمران خان سے ملاقاتوں کا مقصد اس اسمبلی کوبچانا کم اور اگلے سیٹ میں حصہ رکھوانا زیادہ ہے۔ عمران خان،پرویزالٰہی کو قائل کررہے ہیں کہ وہ اورمونس الٰہی پی ٹی آئی کو جوائن کرلیں پھر ان کو اکاموڈیٹ کرنا آسان ہوجائے گا ۔مونس الٰہی اس پرسوچنے کو کسی قدرتیار ہیں کیونکہ وہ اپنا سیاسی مستقبل پی ٹی آئی میں یا اس کے ساتھ ہی دیکھ رہے ہیں لیکن چودھری پرویزالٰہی چاہتے ہیں کہ کسی طرح قاف لیگ کی انفرادی حیثیت برقراررکھی جائے ۔
عمران خان صاحب کا مسئلہ فوری الیکشن ہیں لیکن پاکستان کا مسئلہ اس سے کہیں بڑاہوگیا ہے۔یہ مسئلہ پاکستان کی معیشت ہے جو مٹھی سے ریت کی مانندہر لمحہ پھسلتی جارہی ہے۔قرضوں کا بوجھ ساٹھ ہزارارب روپے سے بڑھ گیاہے۔انحصار اب بھی مزیدقرضہ بازی پر ہی ہے۔برآمدات میں مسلسل کمی،گیس کا بحران سونے پہ سہاگہ۔مہنگائی کی ماردن بدن شدید ۔عام آدمی کا جینا مشکل سے مشکل تر۔عوام اورحکمران اشرافیہ میں بڑھتی دوریاں، ریاست پر اٹھتااعتبار۔بحران ہی بحران ہیں لیکن ہمارا مسئلہ ایک پارٹی کو اقتدارکی کرسی سے اٹھا کر خود اس ٹوٹی کرسی پر براجمان ہونا رہ گیا ہے۔اس کیلئے چاہے سیاسی عدم استحکام کی بھٹی میں لوگوں کو جھونکنا پڑے یا اسمبلیوں کوتوڑکر آدھے سے زیادہ ملک کو وقت سے پہلے الیکشن میں دھکیلناہو۔
پنجاب اورخیبر پختونخوا کی اسمبلی ٹوٹے گی تو زیادہ امکان یہی ہے کہ معاملہ ملک میں عام انتخابات کی طرف جانے کی بجائے دونوں صوبوں میں قبل ازوقت الیکشن ہوجائیں ۔ان انتخابات میں عمران خان کی مقبولیت کا امتحان ہوجائے گا۔ویسے تو پچھلے سات ماہ میں ہوئے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کامیاب رہی ہے لیکن اس وقت حالات مختلف تھے پورے صوبے میں انتخابات کا ماحول بنے گا تو صورتحال مختلف ہوگی۔پنجاب میں نون لیگ اورکے پی میں جے یوآئی کا بھی امتحان ہوگا۔کے پی کے بلدیاتی الیکشن میں جے یوآئی کی کارکردگی متاثر کن رہی ہے اس کا مثبت اثر کے پی کے الیکشن پر پڑسکتا ہے۔اگر پنجاب میں ہونے والے قبل ازوقت الیکشن کے نتائج نون لیگ کے حق میں آجاتے ہیں تو پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی کے عام انتخابات میں نقصان ہوگا۔اگر نتائج کے بعد وہی پوزیشن دوبارہ بن جاتی ہے جو اس وقت پنجاب میں ہے تو اس کا بھی کوئی فائدہ عمران خان کو نہیں ملے گا۔ہاں ان کو اسی صورت سیاسی فائدہ ملے گا اگر ان انتخابات میں پی ٹی آئی کو بھاری اکثریت سے پنجاب مل جائے، کیا یہ ہوگا؟ یہی ملین ڈالر سوال ہے ۔ویسے جمعرات کے دن صدرعارف علوی لاہورمیں اسمبلی بچاؤ مشن پرکافی مصروف رہے ہیں ۔عین ممکن ہے ان کی کوششیں رنگ ہی لے آئیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button