ColumnImtiaz Aasi

عمران خان کی مشکلات .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین او ر سابق وزیراعظم عمران خان اس وقت عوام کے مقبول ترین لیڈر ہیںان کی کال پر عوام کا ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر سٹرکوں پر آجاتا ہے ۔جلسے ہوں یا لانگ مارچ لوگ اپنے محبوب لیڈر کی آواز پرلبیک کہتے ہیں۔ راولپنڈی میں لانگ مارچ کے آخری جلسے سے خطاب کرتے ہوئے شاید اسی امید پر انہوںنے اسمبلیوںسے استعفیٰ کا اعلان کرکے خود کو ایک نئی مشکل میں ڈال لیا ہے۔ سابق وزیراعظم کو توقع تھی کہ جس طرح وہ عوام کو جلسوں اور لانگ مارچ میں شرکت کی کال دیتے ہیں اسی طرح خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی کے ارکان ان کی آواز پرلبیک کہتے ہوئے اپنی نشستوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کریں گے۔درحقیقت عمران خان سیاسی طور پر جلد باز واقع ہوئے ہیں بعض معاملات میں بغیر مشاورت کئے ان کے اعلانات ان کیلئے نقصان دہ ثابت ہو تے ہیں۔اگرچہ انہوں نے اسمبلیوں سے استعفوں کااعلان کرکے وقتی طور پر حکومت کو ایک ہیجانی صورت حال سے ضرور دوچار کیا مگر عملی طور پرانہیں اس معاملے میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ کسی حد تک چودھری پرویز الٰہی کا یہ مشورہ درست ہے کہ پنجاب حکومت نے جن جن علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کر رکھا ہے اسمبلی توڑنے کی صورت میں تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔دوسری صورت میں اگر ایک حکومت کسی منصوبے کا اعلان کرے تو نئی آنے والی حکومت ایسے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائے تو پھر تو اسمبلی سے استعفے دینے میں کوئی حرج نہیں بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس طرح کا ماحول نہیں ہے ہر آنے والی حکومت اپنے پیش رو کے منصوبوں کو روک دیتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ارکان اسمبلی کروڑوں خرچ کرکے ایوان تک پہنچتے ہیں انہیں کیا پڑی ہے وہ قبل از وقت اسمبلیوںسے استعفیٰ دے کر سرکاری طور پرملنے والے لاکھوں روپے ماہانہ الائونس اور پرکشش کمروں اور دیگر مراعات چھوڑدیں۔پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اسمبلیوں کی مدت میں ایک سال کے اضافے کا بیان دے کر ارکان کو ایک نئی سوچ میں مبتلا کر دیا ہے۔ حال ہی میں فیصل آباد سے پی ٹی آئی کے ایک رکن کا صوبائی وزیر بننااس بات کا غماز ہے وزیراعلیٰ ابھی اسمبلی توڑنے کاارادہ نہیں رکھتے ہیں۔
بقول ایک سابق وفاقی وزیر عمران خان ایک اچھے انسان ضرور ہیں مگر وہ مردم شناس نہیں ۔عوام میں ان کی مقبولیت اپنی جگہ مگرعمران خان کے جلد بازی کے فیصلے ان کی ناکامی کا باعث بن رہے ہیں۔ملک کی موجودہ صورتحال میں سیاست دان پہلے ملک کی معاشی حالت کو سدھارنے کی کوشش کریں جس میں ملک وقوم دونوں کی بھلائی ہے۔مملکت میں سیاسی عدم استحکام سے بیرون ملک سے سرمایہ کاری رک گئی ہے، برآمدات نام کی کوئی چیز نہیں ہے ہم وطنوں نے ترسیلات زرمیں کمی کر دی ہے لہٰذا اس نازک موقع پر سیاسی جماعتوں کو مفادات کے خول سے نکل کر ملک کی فکر کرنی چاہیے نہ کہ اپنا وقت حکومتیں گرانے میں ضائع کرنے سے ملک ترقی نہیںکر سکتا۔عمران خان خیبر پختونخوا میں اپنے وزیراعلیٰ پر دبائو ڈال کر اسمبلی توڑ سکتے ہیں لیکن پنجاب میں ان کیلئے اسمبلی توڑنا ممکن نہ ہوگا۔پی ٹی آئی کے ایک رکن کو عمران خان سے مشاورت کئے بغیر وزارت دینا اس امر کی واضح دلیل ہے چودھری پرویز الٰہی اسمبلی توڑنے میں لیت ولعل سے کریں گے۔
صدر مملکت عارف علوی سے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی تواتر سے ملاقاتیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہی ہیں۔اس وقت ملک کی سب سے بڑی مشکل معیشت کے استحکام کا احیا ہے جس کیلئے سیاسی چپقلش بھلا کر سر جوڑنے کی اشد ضرورت ہے۔عمران خان اور حکومت دونوں کو لچک دکھانے کی ضرورت ہے۔ عمران خان اپنی طویل سیاسی جدوجہد کے باوجود ابھی تک سیاست دانوں کے مزاج سے پوری طرح واقف نہیں ہو سکے ۔موجودہ دور کی سیاست کا نصف صدی سیاست سے موازانہ کریں تو زمین آسمان کا فرق ہے۔اس دور کے سیاست دان ذاتی مفادات کی بجائے ملکی مفادات کو اولیت دیتے تھے جب کہ عہد حاضر کے سیاست دانوں کا مطمع نظر مال ودولت جمع کرنا ہے۔البتہ یہ ضرور ہے کہ وزارت عظمیٰ سے محروم ہونے کے بعد عمران خان کو اچھے اور برے سیاست دانوں کی خاصی تمیز ہو چکی ہے جس کا فائدہ انہیں آئندہ انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت ہوگا۔حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات میں ایک بڑی رکاوٹ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی ہیں ان کا موقف ہے کہ عمران خان پی ڈی ایم کے رہنمائوں کو چور اور ڈاکو کہتے رہے ہیں لہٰذا ان سے کسی صورت بات چیت نہیں ہو سکتی اور نہ قبل از وقت انتخابات ہوں گے۔ عمران خان کے جارحانہ رویے نے تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کے درمیان فاصلے پیدا کر دیئے ہیں جو ختم ہونے کا مستقبل میں کوئی امکانات نظر نہیں آرہے ہیں۔چنانچہ ایسی صورتحال میں عمران خان کو رائے عامہ کو اپنے حق میں رکھنے کیلئے جلسوں کا سلسلہ جاری رکھ کر حکومت کی ناقص پالیسیوں کو عوام میں پوری طرح اجاگر کرکے اپنے ووٹ بنک کو برقرار رکھنے کی بہت ضرورت ہے۔عمران خان کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی ادارے کی بیساکھیوں کی ضرورت کے بغیر اپنا سیاسی عمل جاری رکھیں جب مقتدرہ نے سیاسی عمل دخل سے ہاتھ اٹھا لیا ہے تو سیاست دانوں کوبھی چاہیے وہ اداروں کو سیاسی معاملات سے دور رکھیں نہ کہ انہی سے تعاون کی امید رکھیں ۔سچ تو یہ ہے عمران خان اس وقت ایک نازک دوراہے پر کھڑے ہیں ،ایک طرف ان کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہے اور دوسری طرف ان کے اتحادی ساتھ چھوڑنے کیلئے پر تول رہے ہیں لہٰذا اس موقع پر انہیں اپنے فیصلے جلد بازی کی بجائے سوچ سمجھ اور مشاورت کے ساتھ کرنے چاہئیںکہیں ایسا نہ ہو وہ اپنے جلد بازی کے فیصلوں سے عوام کی بڑی تعداد کی حمایت سے بھی محروم ہو جائیں۔تازہ ترین خبروں کے مطابق ڈیلی میل نے شہباشریف کے خلاف کرپشن کی خبروں کی اشاعت پرمعافی مانگ لی جس کے عمران خان کی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button