ColumnJabaar Ch

غلطیاں! .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

’’جنرل باجوہ کو توسیع دینا میری غلطی تھی ‘‘ یہ عمران خان کاتازہ ترین اعترا ف ہے۔اپنی غلطی کا اعترا ف کرنا بہت اچھی بات ہے۔ ایک لیڈر ہی نہیں بلکہ اچھے انسان کی بھی یہ نشانی ہے۔غلطی کا اعتراف کرنا اس وقت تک آپ کا رہنما بنتا ہے جب تک اس غلطی سے سبق لیا جائے،اس کو نہ دہرایا جائے، خان صاحب جب سے مسند اقتدار سے نیچے اترے ہیں اپنی غلطیوں کے اعتراف میں ہی مگن ہیں۔ وہ یہ اعترا ف صرف اس لیے نہیں کررہے کہ وہ خود کی اصلاح کرناچاہتے ہیں بلکہ زیادہ تر غلطیوں کا اعتراف اس لیے کیے جارہے ہیں تاکہ کچھ ہمدردی سمیٹ سکیں اور دوسروں پر تنقید کرسکیں۔اپنے حامیوں کو یہ باورکرواسکیں کہ ملک میں ان کے دور حکومت میں جو بھی غلط ہوا ہے اس کے ذمہ داروہ نہیں۔وہ بے قصور ہیں ،وہ بے بس تھے۔ ان کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا یا انہیں کوئی اختیار استعمال کرنے کی اجازت ہی نہیں تھی۔ان کے یوٹرن شمار میں آنے کی حد سے اب باہر نکل چکے ہیں۔وہ خود یوٹرنز کی دکان ہی نہیں بلکہ پورا’’ہائپرسٹار‘‘ ہیں۔
یہ بھی نہیں کہ عمران خان صاحب صرف پاپولرسیاست ہی کرتے ہیں یا اب انہوں نے صرف مقبول سیاست شروع کردی ہے۔وہ نعرہ ضرور مارتے ہیں لیکن جب انہیں احساس دلایا جاتا ہے کہ یہ کام نقصان دہ ہوگا یا اس کا فائدہ کسی اور کو ہوسکتا ہے تووہ اس کام سے رک جاتے ہیں۔تازہ مثال تو اسمبلیوں کی تحلیل کا نعرہ ہے۔یہ نعرہ انہوں نے چھبیس نومبرکومارا تھا۔آج دسمبر کی نو تاریخ ہوگئی ہے بات مشاورت میں ہی گھوم رہی ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے انٹرویوزسے پتا چل رہاہے کہ وہ خان صاحب کو اس نعرے کا نفع اور نقصان سمجھارہے ہیں اور خان صاحب کی سمجھ میں کتنا کچھ آتا ہے یہ جاننے کیلئے ابھی کچھ دن انتظار کرلیتے ہیں۔مجھے یاد ہے ،دوہزار انیس کے جون کا مہینہ تھا۔قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر جاری تھی۔میں صحافیوں کی گیلری میں اسد عمرکی بجٹ تقریر سن کر نکلا تو خبر ملی کہ وزیراعظم عمران خان آج شام قوم سے خطاب کریں گے۔عمران خان صاحب کے خطاب بارے معلوم کیا تو پتا چلا کہ وہ انتہائی اہم اعلان کرنے جارہے ہیں۔ہم نے اسلام آباد سے لاہور واپسی کی راہ لے لی کہ راستے میں ہی خطاب سنیں گے۔خان صاحب کا یہ خطاب تاخیرکا شکار ہوتا رہا۔ وقت تبدیل ہوتا رہا یہاں تک کہ ہم چار گھنٹے کا سفر کرکے لاہور کے قریب پہنچ گئے۔رات کے بارہ بجنے کوآئے تھے کہ آخرکار خطاب شروع ہوا۔ خان صاحب نے اس خطاب میں پچھلے دس سالوں میں نون لیگ اورپیپلزپارٹی کی طرف سے لیے گئے قرضوں کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کا اعلان کردیا۔ یہ اس وقت تک بڑی خبر تھی کہ عمران خان صاحب نے پوری الیکشن مہم میں سب کو یہ بتادیا تھا کہ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ تیس ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے اور اس کے ذمہ دار پچھلے دس سال کے حکمران ہیں۔مجھے یہ تو علم تھا کہ لیے گئے قرضوں میں کرپشن کا تو کچھ نہیں نکلے گا کیونکہ قرضے آتے ہیں تو اس کا پورا حساب کتاب اسٹیٹ بینک کے پاس ہوتا ہے۔مصرف بھی واضح کہ زیادہ ترتو یہ پیسا قرضوں اور سود کی واپسی میں ہی چلا جاتا ہے۔میری دلچسپی کا پہلو یہ تھا کہ خان صاحب کو احساس ہے کہ قرضے لینے سے ملک کا نقصان ہوتا ہے اس لیے تفتیش کروارہے ہیں تاکہ وہ مزید قرضوں کا راستہ اختیار نہیں کریں گے۔اس طرح ملک کا بھلا ہی ہوگا۔
اس اعلان کے بعد خوب ڈھول پیٹاگیا کہ اب نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی قرضہ کرپشن سامنے آجائے گی۔قرضوں پر کمیشن بنا۔تفتیش بھی ہوئی جب نتیجہ سامنے آیا تو معلوم پڑا کہ کوئی گھوٹالا نہیں ہوا۔سب کچھ کتاب کے مطابق ہوا۔یہ جاننے کی دیر تھی کہ اس کمیشن کی رپورٹ ہی دبا لی گئی۔اس کے بعد خان صاحب کے منہ سے بھی کبھی اس کا تذکرہ سنائی نہیں دیالیکن میری امید بھی ٹوٹ گئی کہ جب خان صاحب نے حکومت چھوڑی تو ساری پچھلی حکومتوں نے مل کر جو تیس ہزار ارب روپے قرض لیا تھا خان صاحب نے صرف تین سالوں میں ہی بیس ہزار ارب کے قرض کا اضافہ کرڈالا اور اب پچھلے سات ماہ میں اس میں مزید دس ہزار ارب کا اضافہ اس پی ڈی ایم حکومت نے کردیا ہے۔چار سال پہلے جو قرضہ تیس ہزارارب تھا آج وہ ساٹھ ہزار ارب تک جاپہنچا ہے۔
عمران خان صاحب نے اپنے دورحکومت کی بہت سی غلطیوں کا اعتراف کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس غلطی تھی۔ نوازشریف کو باہر جانے کی اجازت دینا غلطی تھی۔سکندر سلطان راجا کو چیف الیکشن کمشنر لگانا غلطی تھی۔ اتحادیوں کے ساتھ مل کرحکومت بنانا بھی غلطی تھی۔ جنرل باجوہ پر اعتماد کرنا غلطی تھی۔یہ سب غلطیاں اپنی جگہ بجا لیکن خان صاحب کی ایک خوبی ہے کہ جب وہ یہ غلطیاں کررہے تھے تو اس وقت ان کو غلطیاں نہیں کارنامے کہہ کر ان کا دفاع کررہے تھے۔ جنرل باجوہ ان کے نزدیک سب سے بڑا جمہوری آرمی چیف تھا۔اسٹیبلشمنٹ ان کی سب سے بڑی مددگار تھی۔یہ سب غلطیاں پیچھے رہ گئی ہیں۔امید ہے وہ ان سے سیکھیں گے لیکن ان کی سب سے بڑی غلطی میرے خیال میں وزارت عظمیٰ سے نکالے جانے کے بعد اپنا غصہ نکالنے کیلئے سازشی بیانیہ بنانا۔فوج کو برا بھلا کہنا اور اپنی اپوزیشن کو سٹیک ہولڈرہی نہ ماننا ہے۔عمران خان اس وقت ایک مقبول لیڈر ہیں اور سیاستدان کوئی بھی ہو اس کا بنیادی مقصد صرف اور صرف اقتدارکا حصول ہی نہیں ہونا چاہیے،جس ملک نے اس کو عزت دی ہے اس ملک کا قرض ہوتا ہے اس پر۔
ملک میں جمہوریت ہے تو الیکشن تو ہونے ہی ہیں لیکن انتخابات کو ایشوبناکر رکھنا۔فوری الیکشن کو زندگی موت کا مسئلہ بناناقطعاً جائز نہیں۔آج عمران خان چاہتے ہیں کہ فوری الیکشن ہوجائیں۔کل کو ان کی حکومت ہوگی تو ان کی اپوزیشن یہی کھیل کھیلنا شروع کردے۔اس وقت پی ٹی آئی کے احتجاج یا افراتفری ڈالنے سے پی ڈی ایم کا صر ف یہ نقصان ہوگا کہ شاید وہ الیکشن ہار جائیں لیکن اس کا اصل نقصان تو پاکستان کی معیشت کو ہورہا ہے۔پاکستان کی معیشت مٹھی سے ریت کی مانند پھسل رہی ہے۔ خسارے جان کو آچکے۔غریب مزید غریب ،مہنگائی اوپر سے اوپر۔دیوالیہ کے خدشات الگ۔اس حکومت کو ذمہ داری لینی پڑے گی اور نہیں لے گی تو گھر جاناپڑے گا۔حکومت،اقتدارصرف وقت گزاری، اپنے ریلیف یا مقدمات کو ختم کرنے کیلئے نہیں ہوتی۔حکومت ایک ذمہ داری ہے۔اس بائیس کروڑ عوام کی ذمہ داری۔معیشت کو ٹھیک کرنے کی ذمہ داری۔مہنگائی کو کم کرنے کی ذمہ داری۔حکومت اس وقت یہ سب کچھ نہ کرکے غلطیاں کررہی ہے۔ بات انفرادی اشخاص سے آگے نکل کراجتماعی طورپر حکومت اور اپوزیشن دونوں پر آچکی ہے۔
عمران خان سمجھتے ہیں کہ پنجاب اور خیبراسمبلی کو توڑنے سے انہیں فائدہ ملے گا تو انہیں انتظار کس بات کا ہے۔سب سے مشاورت تو وہ کرچکے ہیں پھر حکم دیں اور توڑدیں اسمبلیاں،لیکن کیا پرویز الٰہی ان کی بات مان کر فوری اسمبلی تحلیل کردیں گے ؟یہ سوال بہت اہم ہے۔ عمران خان صاحب اعلان کرچکے ہیں کہ وہ اسی ماہ اسمبلیاں برخاست کردیں گے۔یہ بھی ایک پاپولرنعرہ تھا جو انہوں نے لگایا۔کیا اس نعرے سے بھی وہ اسی طرح یوٹرن لیں گے جس طرح لانگ مارچ اور اسلام آباد پرچڑھائی کے نعرے سے لیا تھا؟یا پھر کل کو اس کا بھی اعتراف کرنا پڑے گا کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کا نعرہ بھی غلطی ہی تھی؟ویسے میری یہ پکی خبر نہیں ہے لیکن خان صاحب کو اسمبلیاں تو تحلیل کرنی پڑیں گی اب!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button