ColumnQadir Khan

برکس گروپ میں پاکستان کی شمولیت سے بھارت خوفزدہ ؟

قادر خان یوسف زئی
ایک ایسی دنیا میں جس میں طاقت کے توازن کو اپنے حق میں کرنے کے لئے مختلف ممالک کوشاں ہیں وہاں، برکس گروپ کثیر جہتی اہمیت کے ساتھ ایک اہم کھلاڑی کے طور پر ابھر کر سامنے آرہا ہے ۔ اقتصادی طور پر، یہ تعاون، تجارتی تنوع اور پائیدار ترقی کو فروغ دیتا ہے۔BRICS ( برازیل، روس، بھارت، چین، اور جنوبی افریقہ) گروپ 2006میں ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے ایک فورم کے طور پر قائم کیا گیا تھا تاکہ وہ اپنی ترقی کی حکمت عملیوں پر بات چیت اور ہم آہنگی کر سکیں۔ حالیہ برسوں میں، دیگر ممالک کو شامل کرنے کے لیے برکس کو وسعت دینے میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ جوہانسبرگ میں برکس کے15ویں اجلاس میں اعلان ہواکہ ارجنٹائن، مصر، ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ایتھوپیا کو نئے اراکین کے طور پر شامل کیا جائے گا۔ بین الاقوامی تعلقات اور اقتصادی تعاون کے دائرے میں، برکس گروپ میں چھ نئے ممالک کو رکنیت دینے کے فیصلی نے خاصی توجہ حاصل کی ہے۔ ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کی شرکت سے برکس خصوصی اہمیت کا حامل گروپ بن سکتا ہے، جب کہ روس ، چین کی موجودگی کے ساتھ یہ گروپ مغربی نظام کو بھی چیلنج دیتا نظر آئے گا۔ برکس نے ابھرتی ہوئی معیشتوں میں بنیادی ڈھانچے اور پائیدار ترقیاتی منصوبوں کی مالی اعانت کے لیے نیا ترقیاتی بینک (NDB)شروع کیا ہوا جو رکن ممالک میں منصوبوں کو فنڈز فراہم کرکے ان کی اقتصادی ترقی اور بنیادی ڈھانچے کے خسارے کو بہتر بنانے میں معاون ہے۔ برکس رکن ممالک کو ماحولیاتی تبدیلی، دہشت گردی اور سائبر سیکیورٹی جیسے عالمی مسائل پر اسٹریٹجک بات چیت میں مشغول ہونے کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔ ان کی اجتماعی آواز عالمی پالیسیوں کی تشکیل میں ان کے اثر و رسوخ کو بڑھاتی ہے۔ برکس ابھرتی ہوئی معیشتوں کے مفادات کی بہتر نمائندگی کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں میں اصلاحات کی کوشش کرتا ہے، جن کی اہمیت گزشتہ برسوں میں بڑھی ہے۔ برکس کے اراکین موجودہ عالمی معاشی حقائق کی عکاسی کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں اصلاحات کی وکالت کرتے ہیں۔ وہ ترقی پذیر معیشتوں کے لیے ووٹنگ کی طاقت اور نمائندگی پر زور دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ برکس ممالک کی مجموعی آبادی 3.24 ارب ہے اور ان کی مشترکہ قومی آمدنی 26ٹرلین ڈالر ہے۔ یہ عالمی معیشت کا 26فیصد ہے۔ برکس میں پاکستان کی شمولیت کے حوالے سے بھارتی پراپیگنڈا مہم پر ترجمان پاکستان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے تردید کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ عالمی سطح پر ابھرتی ہوئی معیشتوں پر مشتمل بلاک ’ برکس‘ میں شمولیت کے لیے پاکستان نے تاحال کوئی باضابطہ درخواست نہیں کی۔ ترجمان دفتر خارجہ کے وضاحتی بیان سے محض ایک روز قبل برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل اس بلاک میں سعودی عرب، ایران، ایتھوپیا، مصر، ارجنٹائن اور متحدہ عرب امارات کو شامل کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ واضح رہے کہ بھارت برکس میں پاکستان کی رکنیت کا سب سے زیادہ مخالف ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعات کی ایک طویل تاریخ ہے جبکہ بھارت اس امر سے خوفزدہ ہے کہ اگر پاکستان برکس میں شامل ہوگیا تو چین کو خطے میں سٹریٹجک فائدہ ملے گا۔ پاکستان اور چین کے تعلقات اس قدر مضبوط ہیں کہ چین مخالف قوتیں اس اتحاد کو خراب کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں ، چین کی برکس میں موجودگی پاکستان کے اثر رسوخ کو بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوگی اور بھارت یہ نہیں چاہتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے اندر اقلیتوں کے خلاف بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے جو اس کی ہندو توا کی پالیسیوں کو متاثر کریں گی اور برکس میں پاکستان ہی واحد ایسا ملک ہوگا جو بھارت کو سیاسی سطح پر دنیا کے سامنے شرمندہ کر سکتا ہے ۔ برکس ممالک ایک دوسرے کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہے ہیں اور بھارت یہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان اپنے اقتصادی بحران سے باہر نکل سکے۔ دوسرے ممالک جن کو برکس میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے ان کی رکنیت حاصل کرنے کے اپنے محرکات ہیں۔ ارجنٹائن دیگر برکس ممالک کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایتھوپیا نئی منڈیوں اور سرمایہ کاری تک رسائی حاصل کرنے کی امید کر رہا ہے۔ ایران بین الاقوامی سطح پر اپنی حیثیت کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو مشرق وسطیٰ میں چین اور روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش رہی ہے تاہم چین کی عالمی سطح پر مثبت کردار نے تنائو میں کمی کا اشارہ دیا ہے۔ بھارت کا موقف ہے کہ پاکستان برکس کی رکنیت کے معاشی اور سیاسی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ لیکن اس کا موقف کمزور ہے، برکس نے ایتھوپیا کو بھی رکنیت کی دعوت دی ہے ، پاکستان کی طرح فی الحال اقتصادی طور پر ایتھوپیا بھی ایک کم درمیانی آمدنی والا ملک ہی۔ ایتھوپیا میں سیاسی عدم استحکام کی طویل تاریخ ہے جبکہ پاکستان ایتھوپیا کے مقابلے میں زیادہ مستحکم رہا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کو دہشت گردی اور سلامتی کے چیلنجز کا سامنا ہے اور دونوں ممالک اس پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان برکس ممالک کے لیے ایتھوپیا سے زیادہ اہم اقتصادی اور سٹریٹجک پارٹنر ہے۔ برکس کی توسیع ایک اہم پیشرفت ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ نئے ممبران گروپ کے ایجنڈے اور ترجیحات کو کس طرح تشکیل دیتے ہیں۔ برکس عالمی معیشت اور سیاست میں زیادہ طاقتور قوت بن سکتا ہے، یا یہ زیادہ منقسم اور کم موثر ہو سکتا ہے۔ صرف وقت ہی بتائے گا۔ پاکستان نے تاحال برکس میں رکنیت کے لئے درخواست نہیں دی اس لئے فی الوقت بلاک کی توسیع میں نظر انداز کئے جانے کا سوال بے معنی ہوجاتا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button