زرداری جی ! پنجابی جیالا جاگے گا، جب قیادت جاگے گی توجہ دے گی

زرداری جی ! پنجابی جیالا جاگے گا، جب قیادت جاگے گی توجہ دے گی
تحریر : راجہ شاہد رشید
کسی کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ہی اس کی اہمیت و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے، شہید بے نظیر بی بی رانی کے جانے کے بعد ملک و قوم کو اُس طرز و لیول کا لیڈر ملا ہی نہیں اور شاید ہمیں اس چیز کی بھی پہچان اور قدر نہیں کہ مفاہمت کا کنگ، صدر آصف علی زرداری اس طرح سب پہ بھاری ہے کہ وہ عصرِ حاضر کی سیاست کا بہت تجربہ کار، وضعدار اور لجپال لیڈر ہے جو جمہوریت کے استحکام اور ملک و قوم کی ترقی کی خاطر سب کے ساتھ بیٹھ سکتا ہے حالانکہ اس سے زیادہ مشکل حالات و معاملات اور مصائب و سانحات پاکستان کی سیاست میں کسی اور نے نہیں دیکھے، عہدِ موجود کی سیاست کا یہ سردار ستم رسیدہ ہے اور نمدیدہ بھی ہے۔
میرا اپنا ہی ایک شعر ہے کہ
چین چاہتا ہوں وفا اور پیار کی بات کرتا ہوں
میں پت جھڑ خزاں میں بھی بہار کی بات کرتا ہوں
یہ کیسے "محب وطن” پاکستانی ہیں جو پاک فوج کے ہیڈ کوارٹر (GHQ)پر حملہ کر کے بھی "مقبول” ٹھہرتے ہیں۔ یہ کیسے مسلم ہیں اور مسلم لیگی ہیں جو اپنے جلسوں میں یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے جیسے نعرے لگانے کے باوجود بھی "قبول” قرار پاتے ہیں۔ یہ ووٹ کو عزت دو کی آڑ میں سب حدیں سرحدیں چھوڑ دیتے ہیں اور کبھی 9مئی کے وار میں کور کمانڈر ہائوس کے گیٹ پھلانگ جاتے ہیں اور شہداء کی شمعیں توڑ دیتے ہیں۔ میرے پاکستان میں سب سے طویل ترین جیل کاٹنے والا ایک سیاسی لیڈر ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور میری رائے میں وہ شخص سب سے بڑا پاکستانی ہے، اسی مردِ حُر کو ہی یہ کریڈٹ جاتا ہے جس نے کبھی بھی سندھ کارڈ نہیں کھیلا اور ہمیشہ یہی کہا کہ "پاکستان کھپے” جی ہاں وہ واحد سردار آصف علی زرداری ہے جس نے ہمیشہ اپنے وطن سے، وفاق سے وفاداری فرمائی اور پاک فوج سمیت سب اداروں سے محبت اور رواداری نبھائی۔ میں صدر زرداری سے بصورت اشعار کہتا ہوں کہ
اب تو ہی قائد پی پی کا
اور تو ہی وارث بی بی کا
کوئی دکھا دو رنگ نیارے
ہم سب ہیں سنگ تمہارے
عدل اور علم عام کر دو
دیس عوام کے نام کر دو
سینئر صحافی و کالم نگار اور بے بدل اینکر پرسن اور تجزیہ کار مرشد سہیل وڑائچ نے ایک سیمینار میں بڑے ہی دبنگ انداز میں یہ صد فیصد درست سوال اُٹھایا تھا کہ "وہ جج جنہوں نے پاکستان کے منتخب PMکی جان لے لی، ان کی تصاویر سپریم کورٹ میں کیوں لگی ہیں، وہ تصاویر ہٹائی جائیں، ان کے ناموں پر سیاہی پھیری جائے، انہیں علامتی سزا دی جائے، جب تک یہ نہیں ہوگا پاکستان کی سمت ہی درست نہیں ہو سکتی۔ باتیں کرنا بڑا آسان ہے جبکہ جان دینا مشکل کام ہے، برائے کرم پی پی اور دیگر پارٹیوں میں یہ فرق ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے کہ کس نے خون دیا ہے اور کون صرف باتیں کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ 45سال بعد یہ فیصلہ ہوا کہ پھانسی غلط تھی، وہ فیصلہ ہی غلط تھا بلکہ ایک عدالتی قتل تھا لیکن فیصلہ کرنے والے کیا کسی کے ٹاٹ تھے۔؟ اصل مجرم کا کیا بنا، وہ جنرل ضیاء الحق جو پیچھے تھا، جس نے پھانسی دلوائی، اس کے بارے میں کیا فیصلہ ہوا، اس کی قبر کیوں فیصل مسجد میں ہے اور اس کی قبر وہاں سے اُٹھا کر عام قبرستان میں کیوں نہیں بنائی جاتی۔۔؟” صاحبان سیاست کے خیالات و بیانات نے اور حالات نے پوری قوم پر یہ واضح کر دیا ہے کہ نہ صرف "نونی” بلکہ "انصافی” بھی عوامی نہیں بلکہ خلائی اور آسمانی راستے سے ہی کُرسی نشین ہوتے رہے جبکہ پیپلز پارٹی ہمیشہ بغیر کسی بیساکھی کے یعنی بذریعہ ووٹ ہی حکومت میں آتی رہی۔ آج پنجاب میں پیپلز پارٹی کی کہانی، بے نظیر بیانیہ اور بھٹو کی فکر و فلسفہ و نشانی بھی آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے اور ذمہ دار اس کی پی پی کی موجودہ مرکزی و مقامی قیادت ہے۔ نچلی سطح پہ عوام آج بھی قائد عوام اور شہیدِ جمہوریت و دُخترِ مشرق کو ہی اصل جمہوری لیڈر جانتے مانتے ہیں لیکن لوگ سوچتے ہیں کہ پارٹی قائدین اپنے تکبر دائروں کو توڑ کر اور سٹیٹس کُو سے نکل کر کب ہمیں پہچانتے ہیں، وہ جمہوریت کی جنگ لڑنے والے غریب عوام پہ مرنے والے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو اب ہم کہاں ڈھونڈیں لہٰذا بے بہتر یہی ہے کہ گھر ہی بیٹھے رہیں یا پھر سمجھوتوں کی بانسری بجائیں اور سُکھ کے سانس پائیں۔
میں نے شہید بے نظیر رانی کو کہا تھا کہ
اپنے خون سے امر کیا ہے حق کی تاریخ کو تُو نے
ضیاء ظُلمت کٹی کیسے راستہ پایا خوشبو نے
عورت کی تو عظمت تھی حُرمت تھی سیاست کی
تُو نے سچ کی راہ چل کر سچ پوچھو عبادت کی
ستمگر ستمبر گزرا اور اکتوبر بھی مگر اس بار تو مجھے نومبر میں ہی 27دسمبر اور شہید رانی کی یاد آنے لگی تھی اور رُلانے لگی تھی۔ اب تو بس بے نظیر یادیں ہی رہ گئی ہیں۔ 27دسمبر کے ان سرد موسموں میں نہ جانے کیوں ہر سال ان تاریخوں میں بے نظیر پارٹی میں شامل ہونے کا سوچتا ہوں، اکیلے ہی بولتا ہوں اور پر تولتا ہوں کہ PPمیں شامل ہو کر کام کروں پھر یہ سوچ کر رک جاتا ہوں کہ پہلے سے موجود "پِپلیوں” کو تو کوئی پوچھتا نہیں ہمیں کون پوچھے پہچانے گا۔
میں نے شہید بی بی بارے کہا تھا کہ
کون کہتا ہے کہ صرف سیاست و اقتدار کی بات کرتی تھی
وہ ندائے قلندر تھی خلقِ خدا سے پیار کی بات کرتی تھی
لوگوں کو مبارک ہوں تخت و تاج و حکومت کی باتیں
وہ شہید کی بیٹی پھانسی کی اور دار کی بات کرتی تھی
ان شاء اللہ ان موضوعات پر مزید بھی بات ہوگی اور ضرور ہوگی، میں آدھا اور ادھورا نہیں بلکہ پورا سچ لکھوں گا لیکن کالم میں نہیں عنقریب آنے والی اپنی بارہویں کتاب میں، جس کا نام ہے "بھٹو سے بے نظیر تک” یہ ہمیں پہچانیں نہ پوچھیں لیکن جب تک میری زندگی ہے اقتدار کے مزے لینے والے ان "پِپلیوں” سے بصورت شعر میں یہ ضرور پوچھتا رہوں گا کہ
کون ہے حق ، باطل کون ہے۔؟
بے نظیر کا قاتل کون ہے۔۔۔۔۔؟





