خبردار! کسی اجنبی کے لیے دروازہ مت کھولیں

رفیع صحرائی
وقت کے ساتھ ساتھ ڈاکوں نے بھی اپنے واردات کے طریقے تبدیل کر لیے ہیں۔ پہلے صرف رات کے اندھیرے میں ڈاکے ڈالے جاتے تھے۔ جس گھر میں واردات کرنے جانا ہوتا وہاں جانے سے پہلے مکمل منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔ اگر کسی بڑے زمیندار یا چودھری کے گھر ڈاکہ ڈالنا ہوتا تو اس گھر کے کسی ملازم کو ساتھ ملانے کی کوشش کی جاتی جو مقررہ وقت پر مین گیٹ کھول کر کام آسان کر دیتا تھا۔ اگر ایسا نہ ہو پاتا تو ڈاکوئوں کا اپنا کوئی پھرتیلا ساتھی دیوار پھلانگ کر گیٹ کھولتا۔ دیوار پھلانگنے کے لیے سیڑھی کا استعمال بھی کیا جاتا تھا۔ تب ڈاکو دلیر ہوا کرتے تھے اب دلیری کی جگہ مکاری نے لے لی ہے۔
اب رات کی بجائے دن کے وقت ڈاکہ ڈالنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ واردات کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا جاتا ہے جب گھر میں مرد حضرات موجود نہ ہوں۔ صرف خواتین کی موجودگی میں واردات کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ خواتین جلدی خوفزدہ ہو جاتی ہیں۔ گھر میں چھوٹے بچے ہوں تو ڈاکوں کو واردات کرنے میں زیادہ آسانی ہو جاتی ہے۔ بچے کو گن پوائنٹ پر رکھ کر اس کی ماں یا بہن سے گھر کی چابیاں، زیور، نقدی اور دیگر قیمتی چیزیں آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔
آج کل لاہور شہر میں ڈاکوئوں نے واردات کے لیے بالکل نیا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ پتا چلا ہے کہ ڈاکو محکمہ واپڈا کی وردی پہن کر وارداتیں کر رہے ہیں۔ یہ کل چار یا پانچ لوگ ہوتے ہیں جو جعلی سرکاری نمبر پلیٹ والی گاڑی پر سوار ہو کر دن کے گیارہ سے چار بجے کے درمیان وارداتیں کرتے ہیں۔ یہ وقت ایسا ہے جب مرد لوگ کام کاج اور ڈیوٹی کے سلسلہ میں گھر سے باہر ہوتے ہیں اور گھر میں عام طور پر صرف خواتین ہی موجود ہوتی ہیں۔
ان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ اپنے ٹارگٹ کیے ہوئے گھر کا گیٹ کھٹکھٹاتے ہیں یا کال بیل بجاتے ہیں۔ اندر سے پوچھنے پر یہ بتاتے ہیں کہ واپڈا کی طرف سے سولر سسٹم سکیم کا سروے کرنے کے لیے آئے ہیں۔ آپ کے گھر کا لوڈ چیک کرنا ہے۔ اگر آپ لوگ مطلوبہ معیار پر پورا اترتے ہیں تو آپ کے گھر میں پنجاب حکومت کی طرف سے سولر سسٹم پہنچا دیا جائے گا۔ بجلی کے بلوں نے ہر گھر کو پریشان کر رکھا ہے۔ سبھی بھاری بلوں سے نجات چاہتے ہیں۔ خواتین ان لوگوں کے جھانسے میں جلدی آ جاتی ہیں۔ یہ لوگ گھر سے باہر لگے بجلی کے میٹر کو چیک کرتے ہیں۔ اس کے بعد گھر کا لوڈ چیک کرنے، پنکھوں، بلب اور فریج وغیرہ کی تعداد دیکھنے کے بہانے گھر کے اندر آنے کی اجازت طلب کرتے ہیں جو انہیں آسانی سے مل جاتی ہے۔ یہ گھر کے اندر داخل ہوتے ہیں اور اسلحہ کے زور پر چند ہی منٹ میں واردات کرنے کے بعد اہلِ خانہ کو باندھ کر فرار ہو جاتے ہیں۔ گھر سے باہر گلی کے لوگوں کو واردات کی خبر تک نہیں ہو پاتی۔
کچھ نسبتاً چھوٹے واداتیے گھر گھر جا کر سولر سسٹم کا سروے کرنے کے نام پر فی گھر پانچ سو سے ایک ہزار روپے فیس کے نام پر اکٹھا کرتے پائے گئے ہیں۔ یہ پچاس سے ایک سو گھروں کا روزانہ ڈیٹا اکٹھا کر کے اپنی دیہاڑی کھری کر لیتے ہیں۔ یہ کام دیہاتی علاقوں میں ہونے کی اطلاعات ملی ہیں۔
پولیو کے قطرے پلانے والی جعلی ٹیم کے روپ میں گھروں میں گھس کر وارداتیں ہونے کی خبریں بھی گردش میں ہیں۔ شہریوں کو ان وارداتیوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ گھر کی خواتین کو بتا دیجئے کہ کوئی خود کو واپڈا، محکمہ صحت یا کسی بھی دوسرے محکمے کا نمائندہ ظاہر کرے یا پھر کسی قسم کا سروے کرنے کے لیے کوئی آئے یہاں تک کہ کوئی اجنبی خاتون دوائی کھانے کے لیے پانی پینے کے بہانے گھر کے اندر آنے کی کوشش کرے، کوئی بھکاری عورت بھیک مانگنے کے لیے گھر میں گھسنے کی کوشش کرے، آپ نے کسی صورت بھی کسی اجنبی کے لیے گھر کا دروازہ نہیں کھولنا۔ ان لوگوں کی آڑ میں وارداتیے سرگرم ہیں جو لوگوں کو ان کے مال و زر سے ہی محروم نہیں کرتے بلکہ معمولی خطرہ محسوس ہونے پر جان بھی لے لیتے ہیں۔





