پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی بحالی

تحریر : رفیع صحرائی
بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری ہوتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی جمہوریت کی مضبوطی کا اندازہ لگانا ہو تو اس ملک کے بلدیاتی نظام اور بلدیاتی اداروں کو حاصل اختیارات سے لگایا جاتا ہے۔ یہ ادارے جمہوری معاشرے کی شان، جان، پہچان اور آن ہوتے ہیں۔ ان اداروں کے ذریعے عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کئے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہمیں جمہوریت اوجِ ثریا پر نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں باقاعدگی پائی جاتی ہے۔ ان کے جمہوری ادارے مکمل طور پر فعال اور بااختیار ہیں اور یہ ادارے مقامی سطح پر عوام کے مسائل حل کرنے میں سنجیدگی سے کوشاں رہتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر شعبہ زندگی میں الٹی گنگا بہانے کا رواج ہے۔’’ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ کے مصداق بلدیاتی اداروں کو سب سے زیادہ نقصان ہمارے سیاست دانوں اور جمہوری حکومتوں نے ہی پہنچایا ہے۔ وہ جنہیں ہم آمر کہتے ہیں ان کے ادوار میں جمہوری ادارے پھلے پھولے بھی اور فعال بھی رہے۔ اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی بھی ہوئی اور ان سیاسی نرسریوں نے ملکی سیاست کو بہت سے سیاستدان بھی عطا کئے جن میں ایک بہت بڑا نام میاں منظور احمد وٹو کابھی ہے جنہوں نے بی ڈی کونسلر کی حیثیت سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے منصبِ جلیلہ تک پہنچ گئے۔ ایوب خان کا بی ڈی نظام ہو یا جنرل ضیائالحق اور جنرل پرویز مشرف کے بلدیاتی سسٹم ہوں۔ سبھی نے بلدیاتی اداروں کو فعال اور مضبوط کیا۔ ہمارے سیاست دانوں کے لئے بلدیاتی نظام ایک ناپسندیدہ سسٹم ہے۔ آپ مشہور سیاسی خانوادوں پر نظر ڈال لیں۔ وہ کسی نہ کسی طور ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ جاگیرداروں اور وڈیروں کو وراثت میں زمین اور جائیداد کے ساتھ ساتھ سیاست بھی ملتی ہے۔ ان موروثی سیاست دانوں اور وڈیروں، جاگیرداروں کو بلدیاتی نظام وارا نہیں کھاتا۔ بلدیاتی نظام میں عام آدمی کو بھی آگے آنے کا موقع مل جاتا ہے جو اقتدار اور اختیارات پر قابض ان موروثی سیاست دانوں کو کسی صورت گوارا نہیں ہے۔
گزشتہ دو ہفتے سے یہ خبر تواتر کے ساتھ گردش کر رہی ہے کہ پنجاب کے صوبائی وزیر بلدیات ذیشان رفیق کی طرف سے ایک سمری تیار کر لی گئی ہے جو رواں ماہِ جون میں ہی اسمبلی سے پاس کرا لی جائے گی۔ اس سمری کے مطابق پنجاب میں یکم جولائی 2024سے 31دسمبر 2025تک اٹھارہ ماہ کے لئے بلدیاتی اداروں کو جنہیں عمران خان کے دور میں معطل کیا گیا تھا اپنی مدت پوری کرنے کے لئے بحال کر دیا جائے گا۔ عوام کی طرف سے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا گیا تھا۔ کیونکہ صرف صوبہ پنجاب میں ہی بلدیاتی ادارے معطل ہیں اور پی ڈی ایم کی حکومت، نگران حکومت یا موجودہ جمہوری حکومت نے بلدیاتی اداروں کی بحالی یا نئے بلدیاتی انتخابات کروانے کی طرف پیش رفت نہیں کی تھی۔ یہاں تک کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال جنہوں نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد ان دو صوبوں میں انتخابات کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا وہ بھی بلدیاتی اداروں کی طرف سے غافل ہی رہے۔ ایسے میں ان اداروں کی بحالی اور فعالیت کی خبر ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تھی مگر اس خبر کی بازگشت بھی ابھی ختم نہ ہوئی تھی کہ گزشتہ روز گورنر پنجاب کی منظوری کے بعد محکمہ بلدیات اور محکمہ قانون کی طرف سے بلدیاتی اداروں کے ایڈمنسٹریٹرز کی ذمہ داریوں کے حوالے سے ایک نیا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے جس کے مطابق پنجاب کی واحد میٹرو پولیٹن کارپوریشن لاہور کے ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ ڈپٹی کمشنر، ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کی میونسپل کارپوریشنز کے ایڈمنسٹریٹرز کے عہدہ پر کمشنرز، میونسپل کارپوریشنز کے ایڈمنسٹریٹرز سنیئرز جبکہ ایم سی ایل جونیئر آفیسرز کے حوالے کردی گئی ہیں۔ ایڈمنسٹریٹرز کو میئرز، ڈپٹی میئرز، چیئرمین اور وائس چیئرمین کے اختیارات بھی سونپ دیئے گئے ہیں۔ جو منتخب بلدیاتی نمائندوں کی عدم موجودگی میں ان کی ذمہ داریاں ادا کریں گے اور اختیارات استعمال کریں گے۔ گزٹ نوٹیفکیشن کے مطابق پنجاب کی 35ضلع کونسلوں کے ایڈمنسٹریٹر ان اضلاع کے ڈپٹی کمشنر ہوں گے جبکہ تحصیل کونسلوں کے ایڈمنسٹریٹر اسسٹنٹ کمشنر اور 4015یونین کونسلوں کے ایڈمنسٹریٹر اسسٹنٹ ڈائریکٹرز لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ ہوں گے۔
سوچنے کی بات ہے کہ اگر پنجاب میں یکم جولائی سے بلدیاتی اداروں کے سابق چیئرمین اور ممبران کی بحالی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے تو اس نئے نوٹیفکیشن کے اجراء کی کیا ضرورت تھی؟۔ جو صرف چند روز تک ہی موثر ہو گا۔ یوں لگ رہا ہے جیسے حکومت پنجاب بلدیاتی اداروں کی بحالی کے منصوبے سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ اگر حقیقتاً ایسا ہے تو یہ پنجاب کی بہت بڑی بدقسمتی اور صوبے کے عوام کے ساتھ سخت زیادتی ہو گی۔





