چاہ بہار: ایران، بھارت تجارتی معاہدہ

تحریر : ضیاء الحق سرحدی
بھارت نے پاکستان دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے افغانستان کو گوادر کی بجائے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کا راستہ دکھا دیا ۔ چاہ بہار پورٹ کو گوادر کے مقابلے میں گہرے پانیوں کی بندرگاہ بنانے کیلئے تمام وسائل خرچ کرنے کا باضابطہ عندیہ دے دیا ہے۔ پاکستان اور ایران آپس میں جغرافیائی، معاشی، سماجی ، تاریخی، سیاسی و ثقافتی اور لسانی بندھن میں بھی بندھے ہوئے ہیں۔ یہ بندھن فارسی زبان کی آمیزش سے اور بھی مستحکم ہوا جس نے مغلیہ دور میں برصغیر پر برسوں راج کیا۔ پاکستان کا اس وقت کا یہ مخصوص جھکائو اور رویہ ایران اور ہندوستان کے قریب ہونے کی وجہ سمجھا جاتا ہے۔ دورِ شاہ ایران مختلف شعبہ ہائے زندگی میں پاکستان ایران قربت کی نشاندہی کرتا ہے۔ پاکستان، ایران اور ترکی کا مرکزی معاہدہ (CENTO)کے تحت اکٹھے ہونا بھی بھرپور اتحاد کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک طرف اگر پاک چائنہ راہداری منصوبہ اور گوادر بندرگاہ ہے تو دوسری جانب بھارت نے ایران کی بندرگاہ ’’ چاہ بہار‘‘ پر قدم جما رکھے ہیں جو ایران کے صوبے سیستان میں واقع ہے۔ سرزمین ’’ چاہ بہار‘‘ کو چاروں موسموں کی آماجگاہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ بندرگاہ ایران کو بحر ہند تک رسائی فراہم کرتی ہے جسے ایرانی حکومت نے فری ٹریڈ زون قرار دیا ہوا ہے۔ چاہ بہار میں پہنچ کر بھارت اقتصادی لحاظ سے اہم آبنائے ہرمز تک پہنچ جائے گا کیونکہ یہ دنیا بھر میں تیل کی ترسیل کی ایک بڑی گزر گاہ ہے۔ اس طرح وہ گوادر بندرگاہ کی عالمی اہمیت کو نقصان پہنچا کر سی پیک میں کوئی رخنہ ڈال سکتا ہے، حالانکہ چین اس علاقے میں پہلے سے موجود ہے۔ گوادر پاک چین اقتصادی راہداری کا مرکز ہے جہاں 40سال تک چین کی موجودگی یقینی ہے۔ بھارت یہ بھی سمجھتا ہے کہ وہ چابہار میں موجود صرف 72کلو میٹر کے فاصلے پرگوادر میں چین کی ہر سرگرمی پر گہری نظر رکھ سکتا ہے لیکن امریکا کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ بھارت کے ذریعے ایران کی سرگرمیوں پر مکمل نظر رکھ سکتا ہے۔ بھارت اپنے مربی امریکہ اور اسرائیل کے تعاون سے چاہ بہار کی بندرگاہ پر سرمایہ کاری اور ترقیاتی کام سے ایران کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے میں مصروف ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ چاہ بہار دنیا کی تیسری بڑی تیل مہیا کرنے والی بندرگاہ بننے کے ساتھ افغانستان کا اہم تجارتی اقتصادی راستہ بھی ہے۔ چاہ بہار کے ذریعے بھارت افغانستان میں تعمیری منصوبوں میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، جو چاہ بہار کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ پاکستان بھارت کو افغانستان تک پہنچنے کے لیے کبھی اپنی سر زمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا جبکہ پاکستان اور چین کئی مرتبہ بھارت اور ایران کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت دے چکے ہیں اور بھارت اس معاملے میں دنیا کو دھوکا دینے کی کھلی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ وہ چاہ بہار کی بندرگاہ کو وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارتی تعلقات کے لیے استعمال کرنے کا خواہشمند ہے۔ اس وقت بھارت کی ان ریاستوں کے ساتھ کل تجارت محض 1.5ارب ڈالر ہے جبکہ بھارت چاہ بہار کے بین الاقوامی شمالی جنوبی ترسیلی راہداری کے ساتھ رابطہ ہونے کے بعد اس بندرگاہ سے یوریشیا کی طرف سے ایک گیٹ وے کا کام لینا چاہتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق بین الاقوامی شمالی جنوبی ترسیلی راہداری کے ذریعے تجارت کا حجم 170ارب ڈالر تک لے جانا چاہتا ہے۔ بھارت چاہ بہار پر شاہد بہشتی ٹرمینل تعمیر کر رہا ہے جبکہ ایران اور بھارت نے گزشتہ چاہ بہار پورٹ کو جدید طرز پر بنانے کے سلسلے میں ایک دس سالہ معاہدہ کیا ہے۔ یہ ایک طرح کا نیا کوریڈور ثابت ہوگا۔ اس معاہدہ سے براہ راست سی پیک متاثر ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت اور ایران کے درمیان چاہ بہار پورٹ کے درمیان پہلا معاہدہ 2003ء میں ہوا تھا۔ بعد میں 2016ء میں اس میں افغانستان بھی شامل ہوگیا تھا۔ بھارت نے افغانستان کو چاہ بہار پورٹ سے ملانے کے سلسلے میں ایک لمبی سڑک بھی تعمیر کی ہے، جوا س وقت بھی فعال ہے۔ ایران اور بھارت کے درمیان دس سالہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب بھارت میں عام انتخابات تقریباً ختم ہونے والے ہیں، اس معاہدے کو نریندر مودی اپنے حق میں استعمال کرکے بھارت کے انتہا پسند ہندوئوں کے ووٹ خاصی تعداد میں حاصل کر سکتا ہے، ویسے بھی یہاں اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بھارت سی پیک کے شروع سے ہی خلاف تھا اور اس نے گمراہ بلوچوں کی مدد سے اس اہم پروجیکٹ کیلئے سیکورٹی سے متعلق اہم مسائل پیدا کئے تھے۔ چنانچہ ایران اور بھارت کے درمیان چاہ بہار پورٹ سے متعلق دس سالہ معاہدہ ہر لحاظ سے سی پیک کے لئے مسائل کھڑے کر سکتا ہے ہرچند کہ ایران سی پیک کی سلسلے میں کچھ تحفظات ضرور رکھتا ہے، لیکن وہ پاکستان اور چین کے درمیان اس اہم منصوبے کو کسی بھی طرح سبوتاژ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے۔ بلکہ ایران کی قیادت نے اس ضمن میں وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ چاہ بہار پورٹ اور گوادر پورٹ تجارت کے پس منظر میں ایک دوسرے کے complimentaryثابت ہونگے۔ تاہم بھارت کا رویہ سی پیک کے سلسلے میں اتنا خوش آئند نہیں ہے جیسا کہ ایران کا ہے تاہم اس سلسلے میں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایرانی صدر مرحوم رئیسی نے پاکستان میں گزشتہ دنوں اپنے تین روزہ قیام کے دوران اس اہم مسئلہ پر پاکستانی احکام کے ساتھ گفت و شنید کی ہے، اگر کی ہے تو پاکستانی عوام کو اس سلسلے میں کسی قسم کی اطلاع نہیں
ہے۔ نیز ایک اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ، بھارت اور ایران کے درمیان اس معاہدے کو تسلیم کرتا ہے جبکہ ایران پر امریکہ کی جانب سے معاشی پابندیاں عائد ہیں، کیا اس کا اطلاق اس معاہدے پر نہیں ہوگا؟ اس ضمن میں امریکہ نے کھل کر کوئی بیان نہیں دیا ہے، لیکن باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ امریکہ بھارت کی وجہ سے اس معاہدے کا حامی نظر آتا ہے کیونکہ بھارت اور امریکہ باہم مل کر سی پیک کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ چین بھارت اور امریکہ کا دوست نہیں ہے، لیکن دشمنی بھی نہیں ہے۔ کیونکہ چین کی بھارت اور امریکہ کے درمیان تجارت کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اور آئندہ بھی ایسا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ بھارت کی اکانومی بھی مسلسل بڑھ رہی ہے اور اب یہ دنیا کی پانچویں بڑی اکانومی بن چکی ہے۔ تاہم چین کیلئے چاہ بہار پورٹ پر بھارت کی جانب بڑی تعداد میں سرمایہ کاری کی وجہ سے چاہ بہار پورٹ سے افریقہ، سینٹرل ایشیا، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے لئے تجارتی راہداری کھل جائے گی۔ جس کے سی پیک پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ بھارت اور ایران کے درمیان چاہ بہار پورٹ سے متعلق معاہدے کے بعد چین بھی سوچ رہاہے کہ کسی تیسرے ملک کو سی پیک میں شامل کرکے اس کو زیادہ فعال اور طاقتور بنایا جا سکے۔ پاکستان کو ایران اور بھارت کے درمیان چاہ بہار پورٹ سے متعلق معاہدے پر تشویش ضرور ہے لیکن ابھی تک پاکستان کی جانب سے کوئی فوری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ ناقابل تردید ہے کہ پاکستان اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتا ہے ماسوائے اس کے کہ سی پیک کے سیکنڈ فیز کو زیادہ تیز کرکے وہاں غیر ملکی سرمایہ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ دوسری طرف پاکستان کے فارن آفس کو ایران سے اپنے سفارتی ذرائع سے اس معاہدے سے متعلق معلومات حاصل کرنی چاہیے تاکہ پاکستان سی پیک سے متعلق اپنے آئندہ پروگرام کو حتمی شکل دیتے ہوئے اس کی فعالیت کو ہر طرح سے یقینی بنا سکے، ایسا کرنا پاکستان کیلئے بہت ضروری ہے، کیونکہ پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات میں ایرانی صدر کے دورے کے بعد بہتری آئی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی، تاریخی اور ثقاقتی تعلقات کو مزید مستحکم بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ اگر چاہ بہار پورٹ اور گوادر پورٹ کے ذریعے ہونے والی تجارت سے ان دونوں ملکوں کے مفادات پر کوئی ضرب نہیں پڑتی ہے اور اس خطی کے دیگر ممالک بھی مستفید ہوسکیں گے تو پاکستان کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ لیکن ماضی میں بھارت نے سی پیک پراجیکٹ کو ناکام بنانے کیلئے جو کچھ بھی کیا ہے۔ اس کو بھولنا نہیں چاہیے۔ بلکہ اب زیادہ محتاط ہوکر اس کے سیکنڈ فیز پر تیزی سے کام شروع کر دینا چاہیی اور اپنی سفارت کاری کو بھی زیادہ موثر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔





