عافیہ رہائی۔ قیدیوں کا تبادلہ

کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ
ڈاکٹر عافیہ کیس کے وکیل
مترجم: محمد ایوب کوآرڈینیٹر عافیہ موومنٹ، پاکستان
یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے بدنام زمانہ ہیپاٹائٹس بی کی ایک جعلی مہم چلا کر اسامہ بن لادن کو قتل کرنے میں امریکہ کی مدد کی، اس مہم کے دوران اس نے بن لادن کے بچوں کے خون کے نمونے حاصل کئے جس سے یہ ثابت ہوا کہ القاعدہ رہنما کہاں چھپا ہوا ہے۔ جس کے بدلے میں امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان ڈاکٹر آفریدی کو رہا کر دے، وہ امریکہ کے نزدیک ہیرو کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔
چودھری ڈپلومیٹک فوٹ پرنٹس (Diplomatic Footprints)میں بتاتے ہیں کہ 2015ء میں کس طرح صدر براک اوباما نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا تھا۔ جبکہ بعد میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ بھی اٹھایا گیا تھا۔ ہر فریق کے لیے دوسرا بہت اہم تھا ۔
میں نے حال ہی میں واشنگٹن میں کانگریس کے نمائندے بریڈ شرمین ( ڈی۔ کیلیفورنیا) کے عملے سے ملاقات کی، جنہوں نے دوبارہ ( قیدیوں کے) تبادلے کی تجویز پیش کی ہے۔ درحقیقت، جب یہ واضح ہو گیا کہ ڈاکٹر آفریدی کو خیبر پختونخوا میں ایک اور مقدمے کا سامنا ہے، جس میں اسے ممکنہ طور پر سزائے موت ہو سکتی ہے تو امریکی تشویش مزید بڑھ گئی۔
اب وقت آگیا ہے کہ اس معاملے کو دوبارہ دیکھا جائے، لیکن میری تشویش یہ ہے کہ پاکستانی حکام ( ایک مرتبہ پھر) ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی پر اصرار کیے بغیر امریکہ کو وہی کچھ دینے جا رہے ہیں جو کہ وہ چاہتا ہے، ( یعنی پاکستانی حکام) ریمنڈ ڈیوس والی غلطی کو دہرانے والے ہیں۔ پھر امریکہ نے موقف اختیار کیا ہے کہ معاملات بہت مختلف ہیں۔ درحقیقت معاملات مختلف ضرور تھے لیکن اس طرح نہیں جیسا امریکہ کہتا ہے۔ ریمنڈڈیوس نے تین پاکستانی شہریوں کو لاہور کی سڑکوں پر قتل کر دیا تھا۔ جبکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے کسی کو قتل نہیںکیا، بلکہ اسے ہی غزنی، افغانستان میں ایک امریکی فوجی کے پستول سے پیٹ میں کم از کم دو گولیاں ماری گئیں۔ اس کے باوجود اس وقت کی پاکستانی حکومت نے پسپائی اختیار کرلی۔ مجھے یقین ہے کہ زیادہ تر پاکستانی شہریوں نے اسے ( حکومت کی) کمزوری تسلیم کیا۔
میں مذاکرات میں پاکستان کا ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے کام کر رہا ہوں۔ میں حال ہی میں افغانستان گیا تھا جہاں میں نے کئی گواہوں کا سراغ لگایا جنہوں نے غزنی میں ہونے والے واقعات کے بارے میں عافیہ کے موقف کی تصدیق کی کہ اس نے کسی کو گولی مارنے کی کوشش نہیں کی تھی بلکہ ایک خوفزدہ امریکی فوجی نے اسے گولی ماری تھی۔ اسی دوران امریکہ نے بگرام ایئر فورس بیس میں عافیہ صدیقی کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے معصوم بچوں کے ساتھ بے پناہ زیادتی کی گئی۔ ایک بیٹا سلیمان، جس کی عمر چھ ماہ تھی، کو بظاہر اغوا کے دوران گرا کر قتل کر دیا گیا تھا۔ باقی دو بچوں کو افغانستان لے جایا گیا جہاں ایک ( بیٹی مریم) کو زبردستی ایک امریکی عیسائی خاندان کو گود دے دیا گیا اور دوسرے ( بیٹے احمد) جس کی عمر اس وقت صرف چھ سال تھی، کو افغان جیل میں ڈال دیا گیا۔
اب وقت آگیا ہے کہ عافیہ صدیقی کے کیس پر نظرثانی کی جائے۔
مجھے لوگوں کو پریشانی میں ڈالنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، لیکن اس طرح معاملہ آگے بڑھے گا: اگر امریکہ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ڈاکٹر آفریدی کے تبادلے میں دینے کی معقول درخواست پر عمل نہیں کیا تو میں اپنی تحقیقات جاری رکھنے پر مجبور ہو جائوں گا تاکہ اس بات کو بے نقاب کیا جا سکے کہ امریکہ نے اپنے بچوں ( احمد اور مریم امریکہ میں پیدا ہوئے ہیں) کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ اگر وہ رہا ہو جاتی ہے تو پھر مجھے ایسا نہیں کرنا پڑے گا ( جس سے مجھے بہت خوشی ہوگی، کیونکہ پھر میں دوسرے معاملات پر توجہ مبذول کر سکتا ہوں)۔
اس دوران کسی کو ( میری ان کوششوں) کے لئے ( عافیہ کی فیملی) کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہئے۔ کیونکہ میں اس ( عافیہ) کا وکیل ہوں اور فیصلے اس کا خاندان نہیں بلکہ میں کرتا ہوں۔ یہ میرا فرض ہے کہ میں وہ کروں جو میرے موکل کے بہترین مفاد میں ہو۔
میں اس وقت واشنگٹن ڈی سی میں ہوں۔ میں نے پچھلے کچھ دن ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ہمراہ فورٹ ورتھ، ٹیکساس میں گزارے ہیں۔ وہاں رہتے ہوئے جب میں نے محسوس کیا کہ آخر کار وہ وقت آ گیا ہے کہ مجھے اس خوفناک حقیقت کا انکشاف کر دینا چاہئے کہ عافیہ صدیقی کی عصمت دری نہ صرف بگرام میں ہوئی، بلکہ اس جیل ایف ایم سی کارسویل میں بھی ہوئی ہے جہاں وہ اب قید ہے۔ میں نے یہ کام امریکی حکومت کی جانب سے بے عملی کی وجہ سے کیا ہے جب معاملہ فوری حل کرنے کا ہو، مقصد اسے ( عافیہ) کو کسی دوسری جیل میں منتقل کرنا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ میں نے ( عافیہ کے) مجرموں کے نام جاری نہیں کئے۔
جب ( ملاقات کے دوران) میں نے اس سے کہا کہ اب مجھے یہاں سے جانا ہے، تو یہ بات قابل فہم ہے کہ وہ مدد کے لیے کیوں چیخنے لگی، رونے لگی کہ وہ عصمت دری کرنے والوں سے گھری ہوئی اپنی جیل کی کوٹھری کے جہنم میں واپس جانا نہیں چاہتی تھی۔ اس کام ( وکالت) کے 39سالوں میں، میں امریکی جیل کے خوفناک نظام میں واپس چھوڑکر جانے سے اپنے ایک موکل کے اتنا زیادہ خوفزدہ ہو جانے پر زیادہ حیرت زدہ نہیں ہوا۔ تو آئیے ہم قیدیوں کا تبادلہ کریں۔
لیکن، 7دسمبر کو، نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے مبہم انداز میں کہا کہ حکومت امریکیوں کے ساتھ اس ( عافیہ) کی حالت زار کا معاملہ کیسے اٹھائے گی۔ انتہائی احترام کے ساتھ، پاکستان 231ملین آبادی کا جغرافیائی لحاظ سے ایک اہم ملک ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات میں مکمل طور پر بے قصور ہیں اگر بالفرض وہ ہزار جرائم کی مرتکب بھی ہوئی ہوتیں تو بھی انہیں کافی سزا مل چکی ہے۔
ڈاکٹر آفریدی کو امریکہ لانا صدر جو بائیڈن کے لیے قابل ذکر بڑی کامیابی ہوگی کیونکہ وہ اس وقت وائٹ ہائوس میں تھے جب بن لادن کی موت کی خبر آئی تھی۔ اس بات کے واقعاتی شواہد موجود ہیں کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے لیے کام جاری ہے۔
نومبر کے وسط میں، پشاور ہائیکورٹ نے حکم دیا تھا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے اہلخانہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دیا جائے، یعنی اگر شکیل آفریدی امریکہ جاتا ہے تو اسے اپنے اہلخانہ کو ساتھ لے جانے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ لیکن کیا اپنے واشنگٹن کے دورے میں آرمی چیف عاصم منیر عافیہ صدیقی کی بجائے ہتھیاروں کی ڈیل کا سوچ رہے ہیں؟پاکستان ایک مرتبہ پھر ہتھیار ڈالنے کا نہ سوچے۔ یقیناً یہ ملک یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ ایک کمزور، تنہا اور صدمے سے دوچار عورت کو کراچی واپس لے آئے؟
( مصنف ایک اینگلو۔ امریکن انسانی حقوق کے وکیل ہیں، جنہوں نے عافیہ صدیقی کی رہائی کا بیڑا اٹھایا ہے)۔







