Column

بھارت کے بعد ایران کا بھی خلائی سفر

تحریر : روہیل اکبر
بھارت نے چاند پر قدم رکھے تو ساتھ ہی ایران نے اسی سال تین سیٹیلائٹ خلا میں بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے اور ایک ہم ہیں کہ ایک دوسرے کو جھکانے، بھگانے اور مارنے پر لگے ہوئے ہیں۔ ملک کا صدر کسی کھاتے میں ہی نہیں، وہ کہتا ہے کہ میں نے دستخط نہیں کیے اور بل منظور ہو گئے۔ صدر پاکستان الیکشن کمیشن کو خط لکھتا ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جائے تو آگے سے الیکشن کمیشن جواب دیتا ہے کہ ہم اپنی مرضی سے کرائیں گے۔ صدر پاکستان ملاقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو الیکشن کمیشن والے ملنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اور وہ خبریں بھی سامنے آجاتی ہیں جن کا ٹیلی ویژن پر دور دور تک بھی نام و نشان نہیں ہوتا۔ خیر اب ہر باشعور شخص حالات سے مکمل واقفیت رکھتا ہے کہ ملکی حالات کو اس حد تک لیکر جانے والے کون ہیں، ہمارے پاس کیا کچھ ہے اور کیا کر سکتے ہیں۔ اس پر بعد میں لکھوں گا پہلے ایشین ترقیاتی بینک کی رپورٹ پڑھ لیں کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کے بحران نے ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے کے ممالک میں لاکھوں افراد کو انتہائی غربت میں دھکیل دیا ہے۔ کرونا وائرس کی عالمگیر وبا کے دیر پا اثرات اور اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کے بحران نے اس خطہ کے افراد کی مشکلات میں بے پنا اضافہ کیا ہے۔ 2022ء تک خطے کے ترقی پذیر ممالک میں ایک اندازے کے مطابق15کروڑ 52لاکھ افراد جو خطے کی 3.9فیصد آبادی کے برابر ہیں، انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے تھے، ترقی پذیر ایشیا میں جاپان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے علاوہ ایشیا پیسیفک کی 46معیشتیں شامل ہیں۔ 2017ء کی قیمتوں کی بنیاد پر 2.15امریکی ڈالر یومیہ سے کم آمدنی والے افراد کو انتہائی غربت میں زندگی گزارنے والا تصور کیا گیا ہے، لیکن 2017ء کے بعد سے اب تک اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے، جس سے تقریبا ہر شخص متاثر ہوا ہے، لیکن مہنگائی میں تیزی سے اضافے سے غریب افراد سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، کیونکہ وہ خوراک اور ایندھن جیسی ضروریات کی زیادہ قیمتیں ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اس بحران سے خواتین خاص طور پر زیادہ متاثر ہوئی ہیں، کیونکہ عمومی طور پر ان کی آمدنی مردوں کے مقابلے میں کم ہے۔ ان ممالک میں پاکستان کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے، عمومی طور پر سوا دو ڈالر روزانہ کمانے والے کو غربت کی لکیر سے نیچے تصور کیا جاتا اور ہمارے ہاں تو سیکڑوں نہیں
بلکہ لاکھوں افراد ایسے ہیں جو ایک ڈالر بھی نہیں کماتے۔ اس وقت پاکستان میں ڈالر تین سو کی سرحد کو عبور کر چکا ہے اور اب آپ اندازہ لگا لیں کہ ہمارے ہاں تین سو روپے روزانہ کمانا بھی کتنا مشکل ہو چکا ہے۔ لوگ فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں، مانگ کر روٹی کھاتے ہیں اور اگر بیمار ہوجائیں تو پھر سڑکوں پر مر جاتے ہیں اور لاوارث سمجھ کر دفنا دئیے جاتے ہیں۔ ہماری یہ تباہی اور بربادی ایک دن یا دو تین سال میں نہیں ہوئی، بلکہ ہمیں قیام پاکستان کے بعد سے بتدریج یہاں تک لایا گیا۔ اب اس کا انجام بھی سامنے نظر آرہا ہے اور اس پر آنکھیں بند کرکے بیٹھنے والوں کی جب آنکھیں کھلیں گی تو اس وقت تک وقت ریت کی طرح مٹھی سے نکل چکا ہوگا۔ جڑانوالہ کا واقعہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے، لوگ اب موقع کی تلاش میں ہیں کہ کراچی میں کے الیکٹرک کا عملہ جب عدم ادائیگی پر میٹر اتارنے آیا تو لوگوں نے اس کا کیا حشر کر دیا۔ ہم سبھی اس وقت بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ نوجوانوں میں مایوسی بڑھتی جارہی ہے۔60ہزار پاسپورٹ روزانہ بن رہے ہیں، ساڑھے 8لاکھ نوجوان گزشتہ 8ماہ میں ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں اور باہر جانے والی پروازوں میں جگہ نہیں مل رہی۔ بجلی کے بلوں کی وجہ سے گھروں میں لڑائی ہو رہی ہے۔ مہنگائی ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو تباہ کر رہی ہے، ہمارے 8بچے لفٹ میں پھنس جائیں تو 12گھنٹے انہیں ریسکیو نہیں کیا جا سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان، انجینئر اور سائنسدان اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک ہیں، مگر انفرا سٹرکچر اور مضبوط ادارے موجود نہیں ہیں۔ ہمارے نوجوانوں اور سائنسدانوں کی توانائیاں فرسودہ نظام کی وجہ سے ضائع ہو رہی ہیں۔ اقتداری طبقہ سات دہائیوں سے صرف اختیار اور طاقت کیلئے آپس میں لڑ رہا ہے۔ آدھا ملک گنوا دیا، باقی آدھے کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے۔ معیشت، ادارے اور تحقیق و تعلیم کو تباہ کر دیا گیا۔ اگر کسی کی قائدانہ صلاحیتیں نکھر کر خود بخود سامنے آجائیں تو ہمارے ادارے اسے ختم کرنے پر اپنی توانایاں لگا دیتے ہیں۔ پاکستان کا ہر نوجوان قابل اور ذہین ہے جبکہ ہماری زمین سونا اگل سکتی
ہے، لیکن نااہل، نکمے اور سفارشی افراد نے تباہی پھیلائی ہوئی ہے۔ ریکوڈیک کا معاملہ تو سب کے سامنے ہے، اب ایک تازہ رپورٹ بھی آپ لوگوں کے سامنے رکھوں گا اور پھر آپ نے اندازہ لگانا ہے کہ پاکستان کتنا امیر ملک ہے، جس کے لوگوں کو جان بوجھ کر غریب رکھا گیا ہے تاکہ وہ ان پیسے والوں کے نوکر بن کر اپنی زندگی گزارتے رہیں۔ وزارت خزانہ کی سیکٹرل کونسل برائے ماربل، گرینائٹ اور معدنیات کے قائم مقام رکن محمد یعقوب شاہ کا کہنا ہے کہ دو سو کلومیٹر طویل پٹی جو صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ سے افغان سرحد تک پھیلی ہوئی ہے، میں نیوڈیمیم ایک چاندی کی سفید، نرم اور ملائم دھات ہے، جو زیادہ تر آگنیس چٹان کی شکلوں میں پائی جاتی ہے، زمین کی پرت میں یہ سیسہ سے دگنا پایا جاتا ہے اور کم از کم نصف تانبے کی کل مقدار کے برابر ہوتا ہے، ایک نادر زمینی عنصر ہونے کے ناطے، اسے سب سے زیادہ رد عمل کرنے والا سمجھا جاتا ہے، مونازائٹ اور باسٹناسائٹ نیوڈیمیم سمیت زیادہ تر لینتھانائڈز کے بنیادی ذرائع ہیں، جو وسیع پیمانے پر صنعتی، گھریلو اور طبی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے، بوران اور لوہے کے ساتھ اس کا مرکب بہت سے الیکٹرانک آلات میں استعمال ہونے والے مستقل، مضبوط، سستے اور ہلکے میگنیٹ بنانے کے لیے قابل ذکر طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جن میں مائیکروفون، موبائل فون، لائوڈ سپیکر، ایئر فون، الیکٹرک کار، موسیقی کے آلات، طبی آلات ہڈیوں کی مرمت، مقناطیسی منحنی خطوط وحدانی، ہارڈ ڈرائیوز، بیٹری سے چلنے والے گیجٹس، سٹیل ویلڈنگ اور کرائیوکولرز شامل ہیں، نیوڈیمیم بڑے پیمانے پر شیشے کی تیاری کی صنعت میں استعمال ہوتا ہے، یہ فلکیاتی کام، آنکھوں کی سرجری، کینسر کے علاج، کاسمیٹک سرجری اور لیزر پوائنٹرز میں لیزر اور تیز بینڈ تیار کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ نیوڈیمیم آکسائیڈ کا استعمال مختلف صنعتی مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے، جبکہ نیوڈیمیم نمکیات کو کئی تامچینی کے رنگ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی نیوڈیمیم مارکیٹ 2023میں 5.52بلین سے 5.3فیصد کی کمپائونڈ سالانہ شرح نمو کے ساتھ 2030تک7.91بلین ڈالر تک بڑھنے کا امکان ہے۔ اس لیے پالیسی سازوں کو ملک کے اجتماعی فائدے کے لیے تمام معدنیات نکالنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم بھی پستی کی دلدل سے نکل کر آسمان پر چمکتے چاند پر قدم جما سکیں۔

جواب دیں

Back to top button