Uncategorized

سستے ایندھن کیلئے اقدامات کی ضرورت 

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پٹرولیم سبسڈی پر فیصلے میں تاخیر سے قومی خزانے کو 135ارب روپے کا نقصان ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے روس سے کوئی معاہدہ نہیں کیا ، ماسکو سے خط کا کوئی جواب نہیں آیا تاہم نئی حکومت روس سے گندم لینے کی کوشش کرے گی اور روس نے کوئی راستہ نکالا تو سستا تیل بھی خریدا جائے گا۔
تجویز تھی کہ موٹرسائیکل سواروں کو ریلیف دیا جائے تاہم نہیں دیا، یہ درست ہے مڈل کلاس کے لیے مشکل حالات ہیں، ہمارا فوکس معاشی حالات کو درست کرنے پر ہے، 40 فیصد امیر ترین گھرانے پٹرول اور ڈیزل استعمال کرتے ہیں، غریب افراد کو امپاور کر رہے ہیں، اتنے پیسے نہیں ہیں کہ سب کو دے دیں۔ وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا سبسڈی دینے کا فیصلہ صحیح نہیں تھا، تمام اقتصادی ماہرین بھی یہی کہتے ہیں کہ سبسڈی نہیں دینی چاہیے تھی اِس لیے عمران خان بارودی سرنگ بچھاکر گئے ہیں۔
مارچ اور اپریل کی ملا کر 100 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی اور مئی میں 103 ارب کی سبسڈی دی گئی، لیکن سبسڈی دینے کا فیصلہ صحیح نہیں تھا۔وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کے انٹرویو کے چیدہ چیدہ نکات پیش کرنے کا مقصد جہاں معاشی صورتحال کی عکاسی کرنا اور مزید مہنگائی کے لیے ذہن سازی ہے وہیں موٹرسائیکل استعمال کرنے والے پاکستانیوں کوریلیف کی تجویز موجود ہونے کے باوجود سستا پٹرول فراہم نہ کرنا ہے لیکن یہ تجویز ہم پہلے بھی پیش کرچکے ہیں کہ اس طرح متوسط طبقے پر پڑنے والا بوجھ کسی حد تک کم کیا جاسکتا ہے،
یہ تجویز رد کرنے کی اگرچہ وجہ نہیں بتائی گئی مگر بدقسمتی سے ہر دور میں اِس کو رد کیا جاتا رہا ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی عام متوسط طبقہ کے پاکستانیوں کو اسی طریقے سے سبسڈی دینے کی تجویز پیش ہوئی مگر مسترد کردی گئی اسی طرح پچھلی حکومت میں بھی یہ بات اُٹھی تھی لیکن اُس پر عمل نہ ہوا اور اب موجودہ حکومت کے دور میں ایک بار پھر یہ تجویز رد کردی گئی ہے مگر ہم ایک بار پھر کہنے کی جسارت چاہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں جب بھی پٹرولیم مصنوعات یا کسی دوسری مد میں سبسڈی کم یا ختم کرنے کا فیصلہ کیا جائے تو اِس میں طبقات کی تقسیم کو ضرور مدنظر رکھا جائے اگرچہ موجودہ معاشی صورتحال میں کسی طبقے کو سبسڈی دینے ممکن نہیں لیکن اگر طبقات کو معاشی لحاظ سے تقسیم کرلیں تو یقیناً کم آمدن افراد کو ٹارگٹڈ سبسڈی دی جاسکتی ہے خواہ وہ آٹا، چینی، گھی ، پٹرول یا کسی بھی مد میں ہو، کیونکہ کم آمدن اور کم وسیلہ طبقات پر مکمل معاشی بوجھ لادنا کسی بھی طور پر مناسب نہیں ۔ جہاں تک روس سے تیل اور گندم کی خریداری کا معاملہ ہے،
وزیرخزانہ نے پٹرولیم مصنوعات کے بارے میں تو واضح کردیا ہے کہ روس کی جانب سے سستے پٹرول پر کوئی جوابی خط نہیں ملا مگر روس نے کوئی راستہ نکالا تو سستا تیل بھی ضرور خریدا جائے گا، ہم سمجھتے ہیں کہ روس کب راستہ نکالتا ہے، ہمیں منتظر رہنے کی بجائے پچھلی حکومت کے خط کا فالواپ کرنا چاہیے تاکہ اِس معاملے پر جلد پیش رفت ہو اور عوام کو سستا روسی پٹرول دستیاب ہوسکے۔ ماضی میں روس کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری کی جو بھی وجوہات تھیں، ہم نے اِن کا خمیازہ بھی بھگت لیا ہے، اب ہمیں قومی مفاد میں فیصلے کرنے چاہئیں کیونکہ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف بھارت نے روس سے سستا پٹرول خرید کر اپنے عوام کو ریلیف دیا ہے،
بھارت نے روس کے ساتھ بھی ویسے ہی تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں جیسے اِس کے امریکہ کے ساتھ ہیں لیکن ماضی میں ہم روس سے دور لیکن امریکہ کے قریب ہونے کی کوشش میں امریکہ سے دوربھی ہوئے ہیں اور اِس کا ہر لحاظ سے خوب نقصان بھی اٹھایا ہے، بھارت روس سے سستا پٹرول اوردیگر مصنوعات خرید سکتا ہے تو ہمیں بھی قومی مفاد میں ایسے سودے کرنے چاہئیں خصوصاً پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو بھی تیزی سے مکمل کرنا چاہیے تاکہ ملک و قوم کو صحیح معنوں میں فائدہ پہنچ سکے۔ امریکہ کے انتہائی ناپسندیدہ اِس منصوبے کی وجہ سے ہم شدید نقصان کا سامناکررہے ہیں،
پڑوسی ملک سے سستی گیس لینے کی بجائے ہم دوسرے ملکوں سے مہنگی ترین گیس لینے پر مجبور ہیں کیونکہ ایران سے گیس لی تو امریکہ ناراض ہوجائے گا یہی وجہ ہے کہ آج تک یہ منصوبہ سرد خانے کی نذر ہے۔ امریکہ میں حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو اُنہوں نے کبھی پالیسیوں کا تسلسل نہیں بدلا یہی وجہ ہے کہ آج تک پاک ایران گیس منصوبہ بند پڑا ہے ، ہم اپنے قومی مفاد کے فیصلے کرنے میں بھی آزاد نہیں حالانکہ قومی سلامتی پالیسی میں جیو اکنامکس کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تجارتی روابط کو فروغ دے گا تاکہ قریبی منڈیوں کا فائدہ اٹھاسکے مگر نجانے کیوں ہم روس سے سستا پٹرول اور گندم جبکہ ایران سے سستی گیس حاصل کرنے سے قاصر ہیں حالانکہ پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ مکمل ہوجاتا تو آج ملک کو گیس بحران سے شاید نجات چکی ہوتی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے جب معاشی اصلاحات کا عمل شروع کرہی دیا ہے تو اب کہیں بھی بریک نہیں لگناچاہیے لیکن کم ازکم یہ ضرور مدنظر رکھا جائے کہ امرا اور سفید پوش طبقے کے لیے یکساں پالیسی نہ ہو کیونکہ سفید پوش طبقہ معاشی بوجھ اٹھانے کی بجائے ریلیف کا حقدار ہے، اسی طرح روس سے سستے پٹرول اور پاک ایران گیس منصوبے پر بھی پیش رفت کی جانی چاہیے کیونکہ اسی میں ہمارا مفاد ہے، سستا ایندھن دستیاب ہوگا تو بجلی بھی سستی ملے گی اور اس کا فائدہ گھریلو اور صنعتی صارفین کو بھی ہوگا، کم لاگت سے اشیاء تیار ہوں گی تو یقیناً مہنگائی میں بھی کمی آئے گی۔ ملک و قوم کے بہترین مفاد میں فیصلے کرنے کی ضرورت ہے تبھی ہم معاشی مشکلات سے چھٹکارا حاصل کرسکیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button