پنجاب حکومت نے فرانزک سائنس ایجنسی کو سیاسی کنٹرول میں دے دیا

پنجاب حکومت نے قانون میں تبدیلی کرکے فرانزک سائنس ایجنسی کو براہ راست سیاسی کنٹرول میں دے دیا۔
گزشتہ ہفتے پنجاب حکومت نے ایک متنازعہ قانون منظور کیا جس کے تحت پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی (PFSA) کو تحلیل کر دیا گیا اور ایک نئی باڈی قائم کی گئی جو براہ راست وزیر اعلیٰ کے زیر نگرانی ہوگی اور اس میں بنیادی طور پر بیوروکریٹس کی تعیناتی کی جائے گی۔
2007 کے قانون کے تحت ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کا فرانزک سائنسز میں ماہر ہونا ضروری تھا لیکن 2025 کے قانون نے اس ضرورت کو ختم کردیا گیا ہے۔
اس اقدام کو صوبائی حکومت کی جانب سے صوبے میں فرانزک سائنس کی خدمات پر مزید کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
پنجاب فرانزک سائنس اتھارٹی ایکٹ 2025 کو 12 فروری کو پنجاب اسمبلی میں صوبائی وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمان نے پیش کیا تھا یہ ایکٹ 12 مارچ کو منظور کر لیا گیا۔
نئے قانون میں کیا شامل کیا گیا ؟
یہ قانون ایک نیا فرانزک باڈی قائم کرتا ہے جسے پنجاب فرانزک سائنس اتھارٹی کہا جائے گا جو موجودہ PFSA کی جگہ لے گا اور ساتھ ہی پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی ایکٹ 2007 کو منسوخ کر دے گا جو پہلے ایجنسی کے ڈھانچے اور آپریشنز کو کنٹرول کرتا تھا۔
لاہور میں مرکزی دفتر رکھنے والی PFSA ایک خصوصی ایجنسی تھی جس کا مقصد قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو فرانزک سائنس کی خدمات فراہم کرنا اور فوجداری عدالتوں میں ماہرانہ گواہی پیش کرنا تھا۔
2007 کے قانون کے تحت PFSA کی قیادت ایک ڈائریکٹر جنرل کے پاس تھی تاہم، نئے قانون کے تحت پنجاب فرانزک سائنس اتھارٹی کو وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے براہ راست کنٹرول میں دے دیا گیا ہے جو اس ادارے کی چیئرپرسن ہوں گی اور اس کے آپریشنز کی نگرانی کے لیے 13 اضافی ارکان کی تقرری کی جائے گی۔
13 ممبران میں ایک وائس چیئرپرسن ہوں گے جس کا تقرر خود وزیر اعلیٰ کریں گے، ساتھ ہی ساتھ مختلف صوبائی محکموں کے سیکرٹری داخلہ، خزانہ، قانون، منصوبہ بندی اور پبلک پراسیکیوشن ہوں گے جب کہ اضافی ممبران میں انسپکٹر جنرل آف پولیس یا اس کا نامزد کردہ، ایک ڈائریکٹر جنرل، اور کرمنالوجی، مالیکیولر سائنسز، پیتھالوجی اور سائبر کرائم تجزیہ کے شعبوں کے 5 ماہرین شامل ہوں گے۔
سب سے نمایاں تبدیلیوں میں سے ایک یہ ہے کہ 2007 کے قانون میں ڈائریکٹر جنرل کے لیے فرانزک سائنسز میں ماہر ہونا ضروری تھا لیکن 2025 کے قانون میں اس ضرورت کو ختم کردیا گیا ہے۔
قانون میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل ”وزیر اعلیٰ کی خوشنودی“ سےکام کرے گا، اور ان کی تقرری کی شرائط وزیراعلیٰ کے ذریعہ طے کی جائیں گی جب کہ سابقہ قانون کے تحت ڈائریکٹر جنرل کو صرف بدانتظامی ثابت ہونے پر ہی ہٹایا جا سکتا تھا۔
نئے قانون میں کہا گیا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ خالی ہونے کی صورت میں وزیر اعلیٰ پنجاب،پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز (PAS) یا پراونشل مینجمنٹ سروسز (PMS) سے BS-20 کے رینک کے بیوروکریٹ کا تقرر کریں گے۔
نئے قانون میں ایک اور اہم شق یہ ہے کہ اتھارٹی کے اندر فیصلوں کے لیے اکثریتی ووٹنگ کا نظام متعارف کرایا گیا ہے اور یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اتھارٹی کے 14 ارکان میں سے کم از کم 9 ارکان یا تو صوبائی حکومت سے ہیں یا انہیں حکومت نے مقرر کیا ہے جب کہ یہ پچھلے سیٹ اپ سے مختلف ہے، جہاں ایسا کوئی ووٹنگ کا نظام موجود نہیں تھا۔
اس کے علاوہ نئے قانون میں ”فرانزک مواد“ کی تعریف کو وسعت دی گئی ہے تاکہ اس میں مزید قسم کے ثبوت شامل کیے جا سکیں جیسے کہ حیاتیاتی نمونے، دستاویزات، سائبر کرائم مواد، اور آڈیو و ویڈیو ریکارڈنگز۔
قانون کے اعتراضات کے بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سابقہ ایجنسی کام کے بوجھ اور زیر التوا کیسز سے بھر چکی تھی۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے، ”کیسز کے فوری تصفیے کے لیے اور غیر جانبدار سائنسی رائے فراہم کرنے کے لیے اتھارٹی کا قیام اور تشکیل وقت کی شدید ضرورت ہے۔“
تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ نئی اتھارٹی، جو زیادہ تر بیوروکریٹس پر مشتمل ہوگی، کس طرح کیسز کی پراسیسنگ کو زیادہ مؤثر بنا سکے گی۔
اس حوالے سے پنجاب کے وزیر خزانہ، مجتبیٰ شجاع الرحمان سے رابطہ کیا گیا، جنہوں نے ابتدائی طور پر یہ بل پیش کیا تھا، لیکن انہوں نے تبصرے کے لیے کی گئی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔