ColumnFayyaz Malik

پولیس ڈاکٹرائن … فیاض ملک

پولیس لاطینی زبان کے لفظ Politia سے نکلا اور اس کامطلب شہریت یا شہری ایڈمنسٹریشن ہے ، یہ لفظ بذات خود Polis سے نکلا، جس کا مطلب ہے شہر، پولیس کا تصور قریباً رومن، یونانی یا قدیم چینی بادشاہت میں کسی نہ کسی صورت میں موجود تھا۔ جس میں میئر یا مجسٹریٹ مقامی لوگوں کو ساتھ ملاکر چلاتے تھے۔ یونانی دور میں زیادہ تر مقامی لوگو ں کے غلاموں کی مدد لی جاتی تھی یہی غلام ہجوم کو منتشر کرنے اور لوگوں کے اجتماعات کی حفاظت پر مامور ہوتے تھے۔ رومی سلطنت جدید تھی، اس نے یہ کام اپنی فوج سے لیا جبکہ قدیم ترین چین میں پولیس کے لیے مخصوص لوگ بھرتی کیے جاتے تھے، جنہیں مجسٹریٹ کے نیچے رہ کر کام کرنا ہوتا تھا۔دنیا بھر میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں محکمہ پولیس کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، آج بھی امریکہ اور سپین میں پولیس لوکل ممبرز کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے،جاپان میں احتساب کا نظام خودمختار ہے اور کرائم ریٹ قریباً صفر،یورپ کے علاوہ ایشیا میں بھی پولیس ٹریننگ سکو ل موجود ہیں، جیسے سنگاپور، چائنہ، ملائیشیا اور متحدہ عرب امارات میں نہایت اچھے سکولز موجود ہیں جہاں پولیس کو جدید خطوط پر ٹرنینگ دی جاتی ہیں،ان ممالک میں پولیس کا کام صرف مجرم پکڑنا نہیں بلکہ عوام کو جرم سے بچانا ہے۔
انگریز سرکار کے اپنے ملک کی مثال لیں تو شاید ہر ایریا کا پولیس چیف اس پر فوکس کرتا ہے کہ میرے ایریا میں فلاں جرم کتنی بار اور کیوں ہورہا ہے؟ اور اس سے عام لوگو ں کو کیسے بچایا جاسکتا ہے؟ اب اس بات پر بحث اور کانفرنسز ہورہی ہیں کہ کیا سائنس پولیس کے لیے استعمال کی جائے؟ یا پولیس کے لیے الگ سائنس بنائی جائے؟ پھر یہ بحث ہے کہ ریاضی، شماریات، بیالوجی، کیمسٹری اور میڈیکل سائنسز کو پولیس سائنس کے اندر کیسے ضم کیا جائے؟ تاکہ جرائم میں کمی آسکے۔یہ پولیس سائنس تب تک نہیں بن سکتی، جب تک پولیس خود نہ بنانا چاہے اور جب تک پولیس یہ نہ سمجھ لے کہ اس کا فرض چور کو پکڑنا نہیں بلکہ چوری ہونے سے عوام کو بچانا ہے۔ کوئی بھی پولیس فورس تب تک کام نہیں کرسکتی، جب تک وہ عوام کو اور اس کے رویوں کو نہیں سمجھے گی۔ پولیس یہ سمجھ لے کہ وہ عوام ہی ہے، بس فرق صرف اتنا ہی ہے کہ وہ باوردی عوام ہے، جو بغیر وردی عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے آئی ہے اور اس کے لیے ان کو تنخواہ اور مراعات ملتی ہیں۔
اس مختصرتجزیے کے بعد ہم واپس آتے ہیں،پاکستانی پولیس کام کیسے کرتی ہے؟ کیا ہماری پولیس کے اندر وردی کے علاوہ کوئی تبدیلی آئی؟ کیا ہماری پولیس ہر قسم کی سیاسی مداخلت سے پاک ہے ؟یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب ارض پاک میں ہر خاص و عام کو بخوبی معلوم ہیں،کسی سے بھی پوچھ لیں، یقینا جواب نفی میں ہوگا۔ ہمارے ملک کے سیاسی نظام نے سارے پولیس سسٹم کو ہائی جیک کیا ہوا ہے، سیاسی اشرافیہ پولیس کو اپنے پروٹوکول، سکیورٹی، سلیوٹ مروانے، سیاسی مخالفین پر پرچے کروانے اور انکو بلیک میل کرنے کے لیے بھی استعمال کرتی ہے۔یہ درست ہے کہ اب پولیس کا نظام بھی اپنے اندر بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں چاہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران پانچ معصوم بچوں کے باپ کانسٹیبل کمال کی شہادت کا تمسخرآمیز بیان پر پولیس افسران اور کانسٹیبلری کی جانب سے سوشل میڈیا پر شدید ردعمل سامنے آیا تھا ، جس کو دیکھتے ہوئے واضح طور پر محسوس ہورہا تھا کہ کئی تبدیلی آئے یا نہ آئے البتہ اب محکمہ پولیس میں تبدیلی کا عمل شروع ہوگیا،اور یہ بھی سچ ہے کہ یہ تبدیلی کا عمل معمول کے فیصلوں سے ممکن نہیں بلکہ یہ سمجھنا ہوگا کہ حالات بھی غیر معمولی ہیں اور اقدامات کی کڑوی گولی کھا کر ہمیں غیر معمولی اقدامات کی طرف ہی پیش رفت کرنی ہوگی کیونکہ جب پولیس نظام کو عملی طور پر سازگار ماحول ، عدم مداخلت، خوداحتسابی، جوابدہی، احتساب کا عمل ، نگرانی کا نظام ، تربیتی عمل میں نئے پہلوئوں کو متعارف کروانا ، اچھے کام کرنیوالے افسران اور اہلکار کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی یہ مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔
دنیا بھر میں جرائم سے نمٹنے کے لیے بہت سے ممالک نے کمیونٹی پولیس کا نظام متعارف کروایا ہے ہماری حکومتوں نے بھی کئی بار تھانہ کلچر کی تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہوئے ماڈل پولیس اسٹیشن جیسے تجربات کیے،لیکن یہ سب کچھ مصنوعی عمل ثابت ہوا کیونکہ مجموعی طور پر تھانے کلچر عوام دوست نہیں بن سکا ،آج بھی ہمارے ہاں آئی جی سے لیکر تھانیدار
اور محرر تک کی پوسٹنگ کا عمل پارلیمان اور پارلیمانیوں سے پوچھ کر ہوتا ہے اور یہی عمل اس محکمے کی تباہی کا سبب بنا ہے۔ اب پولیس کو غیر سیاسی اور ادارے میں احتساب کے عمل کو فعال کرنا وقت کی ضرورت ہے کہ پولیس ہر قسم کی سیاسی مداخلت سے مکمل آزاد رہ کر کام کریں۔ پوسٹنگ کا نظام شفاف ہو، اندرونی ہو اور کوئی بھی پوسٹنگ کسی لوکل ممبر، پارلیمانی ممبر یا پارلیمان سے پوچھ کر نہ ہو۔ چاہے آفیسر لیول کی ہو یا نچلے لیول کی۔پولیس کو اس وقت سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ نفسیاتی تربیت ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایک پولیس ڈاکٹرائن بنایا جائے، جس میں آسان الفاظ میں پولیسنگ پالیسی وضع ہو، جس تک عوام کی رسائی ہو، پولیس کو تمام سہولتیں مہیا ہوں۔ اچھی تنخواہ، سوشل سکیورٹی، بچوں کی تعلیم میں سہولتیں شامل ہوں، تاکہ ملازم رشوت کی طرف مائل نہ ہوسکیں۔ اس کے علاوہ ہر موسم کے مطابق یونیفارم، ڈیوٹی کے دوران گاڑیاں، آلات اور مطلوبہ دیگر اشیا کی بروقت فراہمی ہو۔ سی آئی ڈی کا موثر نظام کیونکہ علاقے کے جرائم پیشہ افراد کا ڈیٹا جرائم میں کمی کا سبب بنتا ہے، جس کی بہت ضرورت ہے۔ احتساب کا عمل سخت ہو، عوامی شکایات اور مسائل ضلعی اور صوبائی لیول کے افسروں تک پہنچانے کا موثر انتظام ہو، جس کے لیے آئی ٹی اور ویب کی سہولیات سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ جس محکمے یا ادارے میں احتساب جتنا موثر ہوگا اتنا ہی اس کی پرفارمنس اچھی ہوگی۔ احتساب اندرونی ہو، کسی بھی ایم این اے، ایم پی اے کے اثر سے آزاد ہو۔ اندرونی طور پر لوکل اور مرکز کے لیول پر ہوسکتا ہے۔ پولیس میں احتساب کا ایک ادارہ موجود بھی ہے، جس کو مزید موثر کرنے کی ضرورت ہے، احتساب کو فرد کے حساب سے بجٹ کے ساتھ منسلک کیا جائے۔ ایک فرد کے لیے بجٹ اس کی تنخواہ کے ساتھ متوازی ہو۔ اگر کارکردگی بہتر نہ ہو تو وہی بجٹ ملازم کی تنخواہ سے کاٹا جائے۔ کیونکہ اسے تنخواہ کام اور کارکردگی کی ہی ملتی ہے۔ حکومت قانون سازی کی مدد سے پولیس کو ایک کار آمد محکمہ بنائےجو کہ اس وقت ملک کی ضرورت بھی ہے اور عالمی معیار بھی۔ پولیس کے ٹھیک ہونے سے ہمارا معاشرہ انصاف، ترقی اور امن پسندی کے راستے پر گامزن ہوسکتا ہے اور سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے، جو ہر کسی کو نظر آئے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button