Column

او آئی سی کی تاریخی وزرائے خارجہ کانفرنس ….. حبیب اللہ قمر  

حبیب اللہ قمر

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کی 48ویں کانفرنس موجودہ حالات میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کانفرنس میں کشمیرو فلسطین سمیت مسلم دنیا کو درپیش دیگر مسائل پر تفصیل سے غوروخوض کیااور اعلامیہ کو اسلام آباد ڈیکلریشن کا نام دیا گیا ،جس میں بھارت کی طرف سے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعات ختم کرنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کو مستردکرتے ہوئے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا گیا ۔ کانفرنس کے شرکاءنے کشمیر و فلسطین کے مسائل کے منصفانہ حل پر زور دیا اور کہا کہ ہم کشمیری و فلسطینی عوام کے ساتھ غیر متزلزل یکجہتی کی تجدید کا اظہار کرتے ہیں۔ یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر ہونے والے حملوں کی بھی شدید مذمت کی گئی اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرارداد کا خیر مقدم کیا گیا۔ او آئی سی کانفرنس کے اعلامیہ میں بھارتی سپر سونک میزائل کے ذریعے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور انڈیا پر زور دیا گیا کہ وہ ایک ذمہ دار ریاست ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے بین الاقوامی قوانین و روایا ت کا احترام کرے اور پاکستان کے ساتھ مل کراس واقعہ کی تحقیقات کرے۔ اسلام آباد ڈیکلریشن میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے متفقہ فیصلے کے مطابق ہر سال پندرہ مارچ کو اسلامو فوبیاسے نمٹنے کے لیے عالمی دن کے طور پر منانے اور اس حوالے سے خصوصی ایلچی مقرر کرنے کے فیصلے کا بھی خیر مقدم کیا گیا ہے۔

او آئی سی کانفرنس کے دوران پاکستان کو متفقہ طور پر ایک سال کے لیے وزرائے خارجہ کونسل کاچیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔ اسلامی ملکوں کی طرف سے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کو اس پر مبارک باد بھی پیش کی گئی ۔کانفرنس میں برادر ملک سعودی عرب سمیت چھیالیس سے زائد مسلمان ملکوں کے وزرائے خارجہ، خصوصی نمائندوں اور مبصرین نے شرکت کی جب کہ چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کشمیر پر او آئی سی کے موقف اور مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ چین مسلم دنیا کا انتہائی مخلص دوست ہے،خاص طور پر پاکستان سے دوستانہ تعلقات چین کی روایات کی بنیاد ہے ۔ فلسطینی مسلمانوں کے لیے چین کی حمایت ہمیشہ غیر متزلزل رہی ہے۔ چینی وزیرخارجہ نے او آئی سی اجلاس میں شرکت کی دعوت دینے پر پاکستان کابطور خاص شکریہ ادا کیا۔
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کو قائم ہوئے نصف صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے ۔ 1969ءسے لیکر 2016ءتک تیرہ اسلامی سربراہی کانفرنسیں منعقدکی گئیںجبکہ سات ہنگامی سربراہی اجلاس پاکستان، سعودی عرب، ترکی، مراکش، انڈونیشیا، کویت اور مصر کے دارالحکومتوں میں طلب کئے جاچکے ہیں۔ او آئی سی کی ان کانفرنسوں میں ہمیشہ کشمیر، فلسطین، روہنگیا اور دوسرے مسلم اور غیر مسلم ممالک میں مقیم مجبور و مقہور مسلمانوں کے حق میں قراردادیں منظور کی گئیں بلکہ اس سلسلہ میں سیاسی، سفارتی اور مالی امداد کے لیے بھی عملی اقدامات تجویز کئے جاتے رہے ہیں۔مکہ مکرمہ میں قریباً تین برس قبل ہونے و الا سربراہی اجلاس اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کا حامل تھا کہ اس میں اعلان مکہ کے نام سے جو اعلامیہ دیاگیا یقینی طور پر وہ پوری مسلم دنیاکا ترجمان تھا۔ اُس اعلامیہ میں کشمیر و فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی مددوحمایت،اسلاموفوبیا اور ہر قسم کی دہشت گردی سے متحد ہو کرنمٹنے کا خاص طور پر ذکر کیا گیا۔
او آئی سی کو شاہ فیصل شہید اور ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا تھا۔ اس کا دفتر اگرچہ جدہ میں ہے لیکن یہ اسلامی ملکوں کا ایک خودمختار ادارہ ہے۔ اسی ادارے کا ایک اجلاس کشمیر کے حوالہ سے گزشتہ برس بائیس جون کوبھی ہوا جس میں پاکستان، سعودی عرب، ترکی، نائیجیریا، آذر بائیجان کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے۔گزشتہ ایک سال میں تنظیم کی رابطہ کمیٹی نے کشمیر سے متعلق متعدد اجلاس کئے اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی مکمل حمایت کی۔اسی طرح او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے حالیہ اجلاس میں بھی بھارتی مظالم اور دہشت گردی کی شدید مذمت کی گئی ۔او آئی سی کی تنظیم سازی کے حوالے سے بات کی جائے تو مملکت سعودی عرب نے اسے ہمیشہ بہت زیادہ سپورٹ کیا جس کا واحد مقصد یہ رہا ہے کہ مذکورہ تنظیم مسلم دنیا کے مسائل کے حل کے لیے بہتر انداز سے اپنا کردار ادا کر سکے۔ دنیا میں ایک اہم ملک ہونے کے اعتبار اور حیثیت سے،برادر ملک کا اسلامی یکجہتی کے فروغ کے لیے ایک اہم اور با اثر تزویراتی کردار رہاہے۔ جب بھی امت مسلمہ سیاسی، معاشی، یا قدرتی آفات میں مبتلا ہوئی برادر اسلامی ملک نے ہر موقع پر اپنے بھائیوں کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ خادم الحرمین شریفین ہمیشہ عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان دوستی، اخوت اور یکجہتی کی فضا قائم رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، تاکہ مسلمانوں کی صفیں متحد رہیں اور ان کے درمیان اختلافات پیدانہ ہوں۔ مملکت سعودی عرب، بانی شاہ عبدالعزیز کے دور سے لیکر آج خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور تک، امت مسلمہ کی پریشانیوں کا بغور جائزہ لیتی رہی ہے اور اسلامی یکجہتی کو مضبوط بنانے کرنے کے لیے انتھک کاوشیں کی جاتی رہی ہیں۔
اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد 57 ہے اور یہ رکن ممالک 4 بر اعظم پر پھیلے ہوئے ہیں۔یہ ادارہ بلاشبہ عالم اسلام کی اجتماعی آواز اور رکن ممالک کے لیے چھتری ہے۔ اس تنظیم کا مقصد مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا، مسلمانوں کو یک آواز رکھنا اور قوموں کے تعلقات کو مضبوط کرنا ہے۔حال ہی میں اسلام آباد میں جس تاریخی او آئی سی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور امت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ایک مضبوط لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ہے یہ یقینا پوری مسلم دنیا کے لیے انتہائی خوش آئند ہے اور اس سے کشمیر و فلسطین سمیت دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ کانفرنس کے اعلامیہ میں پاکستان کی اس تجویز کا خیر مقدم کیا گیا ہے کہ اس سال کے آخر یا آئندہ سال تنازعات کو روکنے اور امن کو فروغ دینے کا طریقہ کار طے کرنے کے لیے وزارتی اجلاس بلایا جائے۔ اس موقع پر افغانستان کے لیے قائم کردہ خصوصی فنڈ کے فعال ہونے کابھی خیر مقدم کیا گیا۔کانفرنس کا اعلامیہ بلاشبہ رکن ممالک کے عزم کا واضح کرتا ہے جس میں مشترکہ مفادات کو فروغ دینے اور ان کے تحفظ، غیر او آئی سی ممالک میں مسلم اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ، مسلم دنیا کے اندر اور باہر کی سماجی، اقتصادی، سائنسی اور تکنیکی ترقی اور انضمام کے لیے مشترکہ ویژن پر عمل کرنا شامل ہے۔ اسی طرح ہم آہنگی، رواداری، پرامن بقائے باہم، زندگی کے بہتر معیار، انسانی وقار اور تمام لوگوں کے درمیان افہام و تفہیم کو فروغ دینے جیسے اقدامات سے متعلق بھی بات کی گئی ہے۔او آئی سی کانفرنس میں اسلامو فوبیاسے نمٹنے کے لیے مشترکہ کاوشوں پر زور دیا گیا اور اعلامیہ میں دہشت گردی کی تمام جہتوں اور زاویوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ رکن ممالک اس برائی کو کسی بھی ملک، مذہب، قومیت، نسل یا تہذیب کے خلاف استعمال کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔
او آئی سی کانفرنس سے وزیراعظم عمران خان کا خطاب جرا ¿ت مندانہ اور بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھاجس میں انہوںنے مسلم دنیا کو باہم متحد ہونے پر زور دیا اور اس بات کا کھل کر اعتراف کیا کہ کشمیر اور فلسطین جیسے مسائل پر مسلمان ملک اپنا اثر دکھانے میں ناکام ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان ہیں لیکن ان کے آپس میں تقسیم ہونے کے سبب عالمی سطح پر ان کی آواز نہیں سنی جاتی۔ان کا یہ کہنا درست تھا کہ کشمیر و فلسطین میں ظلم و دہشت گردی کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور غاصبانہ قبضے کر کے ان کی آزادی غصب کر لی گئی لیکن مسلم دنیا خاموش ہے ۔ کشمیریوں کی جغرافیائی ہیئت اور ان کا تشخص سب کچھ تبدیل کیا جارہا ہے مگر اس پر کوئی بات نہیں ہو رہی ، اگر مسلمان ملک اتحادویکجہتی کے ذریعے مسلم دنیا کو درپیش مسائل سے متعلق مضبوط آواز بلند نہیں کریں گے تو ان کی کوئی نہیں سنے گا۔ حقیقت ہے کہ وزیراعظم کا خطاب پوری مسلم دنیا کے جذبوں کا ترجمان تھا اور ان کی اس گفتگو کو بہت سراہا جارہا ہے۔ کشمیر ، فلسطین اور روہنگیاسمیت دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے امت مسلمہ کو متحد ہو کر مضبوط کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس کے بغیر مسلم دنیا کو درپیش مسائل کسی طور حل نہیں ہوں گے، بہرحال او آئی سی کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی بھی بلاشبہ بہت زیادہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔امید کی جاتی ہے کہ ا س کانفرنس کے مستقبل میں ان شاءاللہ دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور مسلم دنیا کو درپیش مسائل کے حل میں مدد ملے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button