تازہ ترینتحریکخبریں

ایم کیو ایم کا پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد ہوا یا نہیں؟

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت سے اتحاد کی تردید کردی۔ کہتے ہیں کہ پيپلزپارٹی سے کوئی اتحاد یا معاہدہ نہيں ہوا، انہیں اپنے مطالبات کی يادداشت پيش کردی، خطرے کا نشان لال ہوگیا، سب نے ذمہ داری پوری نہيں کی تو جمہوريت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت سے نہ کوئی معاہدہ ہوا ہے اور نہ کوئی اتحاد، ہم اپوزیشن کے کردار کو مضبوط اور مثبت کرنا چاہتے ہیں، ہم شہری علاقوں کے مطالبات پر احتجاج کررہے ہیں۔

ایم کیو ایم سربراہ نے مزید کہا کہ ہم چاہتے تھے سندھ حکومت مطالبات سنے، تسلیم کرے اور عمل کرے، صوبائی حکومت ہمیں سننے کو تیار ہوئی ہے اور ہم نے مطالبات پیش کردیئے ہیں، ہم نے پی پی کو اپنے مطالبات کی یادداشت پیش کردی ہے، مطالبات پر عملدرآمد کیلئے میکنزم تیار کرنے کیلئے پھر بیٹھیں گے۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ 2 فیصد لوگ ملک کے مالک بنے بیٹھے ہیں، وہ کروڑوں کی قسمت کا فیصلہ کررہے ہیں، ملک میں دو فرقے ہیں حاکم اور محکوم، دو ہی مسالک ظالم اور مظلوم ہیں، آپ کا اور ہمارا اتحاد اس ظالم نظام کو نیست و نابود کردے گا، پاکستان کو ایک نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت ہے۔

ایم کیو ایم سربراہ نے مزید کہا کہ کراچی کے بلدیاتی ایوان میں 75 فیصد سے زائد ایم کیو ایم تھی اور قائد ایوان پشتون تھا، ایک پشتون بھائی کو ہم نے سینیٹر بناکر ایم کیو ایم کا پارلیمانی لیڈر بنوایا، اقتدار میں غریب کی اتنی ہی نمائندگی ہونی چاہئے جتنا ان کا تناسب ہے، ہمارے 100 لوگ اب بھی لاپتہ ہیں۔

خالد مقبول صدیقی کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں ان لوگوں سے بھی مخاطب ہوں جو ہر اچھے برے وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے رہے، آپ وعدہ کریں کہ ظلم کے خلاف مل کر جدوجہد کریں گے، شہری سندھ میں قومیتوں کے مابین کوئی جھگڑا نہیں، جب تک تمام قومیتوں کو برابر کا وفادار نہیں سمجھا جائے گا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نہ ہی حکومت سے اتحاد میں گئے ہیں نہ ہی کوئی وزارت حاصل کرنا مقصود ہے، انہوں نے نہ حکومت کی پیشکش کی ہے نہ ہی ہمارا ارادہ ہے، جمہوریت کیلئے جتنی ضرورت حکومت کی ہے اتنی ہی اپوزیشن کی، ملک ایسے اقتصادی اور سیاسی حالات میں پہنچا ہے جہاں جمہوریت کو خطرہ ہے، بردباری سے حکومت کے بجائے جمہوریت کو بچانا ہے، اگر وہ مطالبات سن کر بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو ہم ہر گھڑی تیار ہیں۔

خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ اگر دباؤ لے رہے ہوتے تو ہمارے دفاتر کھل جاتے، دباؤ لے رہے ہوتے تو سياسی اسپيس نہ چھنتی، زیادہ کارکنان گھر پر ہوتے، مطالبات پورے کرنے کا موقع دیں گے، دھوکے کا وقت بعد میں آئے گا، پیپلزپارٹی نے تسلیم کیا ہمارے مطالبات جائز ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button