Columnمحمد مبشر انوار

افرادی قوت کےلئے متوقع مشکلات …. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

آبادی کے اعتبار سے پاکستان اس وقت دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اور کل آبادی کا قریباً تین فیصد پاکستانیوں کا حصہ ہے۔ دنیا میں وسائل اور مسائل کے اعتبار سے موازنہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ معدنی وسائل تو قدرت کی طرف سے زمین میں پنہاں ہیںلیکن ان معدنی وسائل کے حصول کی صلاحیت اکثر ممالک کے پاس موجود ہی نہیں۔ ان وسائل کو حاصل کرنے کے لیے ان ممالک کی نگاہیں لامحالہ ترقی یافتہ ممالک کی جانب اٹھتی ہیں یا ان معدنی وسائل کے حصول میں یہ ممالک دوسروں پر انحصار کرتے نظر آتے ہیں۔ اس صورت میں مقامی آبادی جو پہلے ہی مسائل کا شکار ہے،ان معدنیات کے حصول میں جو شرائط یہ ممالک عائد کرتے ہیں،اس سے مزید مسائل کا شکار ہو جاتی ہے اور ان معدنی وسائل سے کماحقہ ثمرات حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ دوسری طرف ان معدنی وسائل کو حاصل کرنے والے ممالک اور اقوام میں وسائل کی بہتات ہوتی چلی جاتی ہے اور یوں ترقی یافتہ اقوام اپنی پیشہ ورانہ مہارت کی بنیاد پر ان ممالک کا استحصال کرتے ہوئے ،انہیں مزید مسائل کی دلدل میں دھکیل کر اپنی خوشحالی و حکمرانی کو دوام دینے میں کامیاب نظر آتی ہیں۔بنیادی طور پر پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن اللہ کریم نے اسے بیش بہا معدنیات سے بھی نواز رکھا ہے لیکن ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی،ناقص منصوبہ بندی، حکمرانوں کی بدنیتی اور مسائل کی بہتات نے ان وسائل کے حصول میں مشکلات پیدا کر رکھی ہیں اور پاکستان ابھی تک ان سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس کے برعکس پاکستان کے زرعی ملک ہونے کا تاثر بھی دن بدن ختم ہو جاتا رہا ہے اور پاکستا ن کو اپنی غذائی ضروریات کے لیے بے شمار اجناس بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتی ہے جس سے قیمتی زرمبادلہ کے ذخائر اس مد میں استعمال ہوتے ہیں۔پاکستان ماضی میں کپاس کا بڑا برآمد کنندہ رہا ہے لیکن فی الوقت پاکستان میں شوگر انڈسٹری کی بہتات نے ،کپاس کی جنس کو بہت کم کر دیا ہے اور کاشتکاروں کی اکثریت گنے کی کاشت میں مشغول نظر آتی ہے،جس سے پانی کی کمیابی کے علاوہ اور بہت سے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔

آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہونے کے باعث پاکستان دیگر اجناس کے علاوہ افرادی قوت برآمدکرنے میں بڑا حصہ دار رہا ہے اور خلیج میں پاکستانی افرادی قوت کی آج بھی بہت زیادہ طلب ہے۔ خلیج بالخصوص سعودی عرب میں پاکستانی افرادی قوت کا ایک معتد بہ حصہ آج بھی موجود ہے اور نہ صرف مملکت سعودی عربیہ کے لیے اپنی خدمات مہیا کر رہا ہے بلکہ وطن عزیز کے لیے زرمبادلہ بھی کما رہا ہے۔ آج کے دن اگرپاکستان کی بیلنس شیٹ پر ایک نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت بھی واضح نظر آتی ہے کہ پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر میں تارکین وطن کی ترسیلات زر اور پاکستانی برآمدات کا حجم قریباً برابر ہے اور صرف سعودی عرب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر کا حجم قریباً 7بلین ڈالر سالانہ ہے،جبکہ تارکین وطن کی ترسیلات زر کا مجموعی حجم قریباً 23-24بلین ڈالر ہے،پاکستان کی برآمدات کا حجم بھی کم و بیش اتنا ہی بنتا ہے۔ سعودی عرب بالخصوص اور دیگر خلیجی ممالک کی تعمیر و ترقی میں پاکستانی افرادی قوت کی کاوشیں شامل ہے اور ریگستان کی تپتی ریت پر آج جو گل و گلزار نمایاں ہیں،ان کی تزئین میں پاکستانیوں کا خون و پسینہ بھی شامل ہے۔پاکستانیوں نے صرف ریگستانوں میں اپنی خدمات مہیا نہیں کی بلکہ پس پردہ ٹھنڈے دفتروں میں ،اپنے عزیز و اقارب و خاندانوں کی جدائی برداشت کر کے پیٹروڈالر کما نے کے لیے سعودی قوانین کی پاسداری اور حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے ، نہ صرف اپنے خاندانوں کی کفالت کی ہے، بلکہ مملکت پاکستان کے لیے قیمتی ترین زرمبادلہ حاصل کیا ہے۔ خلیجی ممالک کی نسبت دیگر ممالک کے تارکین وطن کی صورتحال قدرے مختلف ہے کہ انہیں جلد یا بدیر ان ممالک کی شہریت حاصل ہو جاتی ہے اور جن عزیزواقارب کے لیے وہ ہجرت کرتے ہیں،بتدریج انہیں بھی اپنے پاس بلانے کے قابل ہو جاتے ہیںاور یوں ان کا تعلق پاکستان سے قائم تو رہتا ہے لیکن ان کی طرف سے ترسیلات زر میں بتدریج کمی آ جاتی ہے۔
آج دنیا ٹیکنالوجی پر منتقل ہو رہی ہے اور بیشتر ممالک میں کاروبار آئی ٹی پر منتقل ہو رہا ہے،ایسی ہی کچھ صورتحال سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی بھی ہے کہ مشینیں مسلسل افرادی قوت کی ضرورت کو کم کرتی جا رہی ہیں اور جہاں دس افراد کی ضرورت تھی،آج صرف ایک شخص مشین کی مدد سے وہ تمام کام اکیلا سرانجام دے رہا ہے۔ سعودی عرب میں آج بھی تعمیراتی کام مسلسل جاری و ساری ہیں لیکن ان کی نوعیت اب بہت حد تک بدل چکی ہے اور یہاں جس افرادی قوت کی ضرورت اس وقت ہے،وہ کسی بھی صورت غیر ہنر مند افراد کے لیے نہیں ہے بلکہ یہاں ایسی افرادی قوت درکار ہے،جو دور جدید کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے،مشینوں کے استعمال سے غیر معمولی طور پر بہرہ مند ہو۔ ایسے ہنرمند افراد کے لیے سعودی عرب کے دروازے کھلے ہیں اور ان کے لیے پیٹرو ڈالر کی موٹی اُجرت بھی یہاں میسر ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ جو افرادی قوت یہاں درآمد کی جا رہی ہے وہ اپنے ہنر میں طاق ہے یا نہیں؟اب وہ زمانے لد گئے کہ پاکستان سے غیر ہنرمند افراد کو جہازوں میں لاد کر بھیج دیا اور وہ یہاں کسی نہ کسی جگہ خود کو کھپانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ اب یہاں اقامتی اخراجات بے قابو ہو چکے ہیں اور کوئی بھی اپنی جیب کاٹ کر کسی دوسرے کے اقامتی اخراجات برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔پاکستان سے افرادی قوت درآمد کرنے والے نجی مالکان نے ماضی میں بہت کمایا ہے لیکن موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے،سعودی عرب یا دیگر خلیجی ممالک کی افرادی قوت کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے،پاکستانی افرادی قوت کی مستقبل کے حوالے سے تربیت میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ بظاہر ایسا کوئی ادارہ ،جو پاکستانی افرادی قوت کو مستقبل کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ان محنت کشوں کی تربیت کر سکے، ان پروموٹرز کی طرف سے نہیں بنایا گیااور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے پروموٹرز ماضی میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ ممکنہ طور پر جن پروموٹرز کو اس کا ادراک ہے بھی،وہ تن تنہا اتنا بڑا کام کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں یا اکیلے اس دردسر کو پالنا نہیں چاہتے،بہرکیف جو بھی صورت ہے،مستقبل میں سعودی عرب او ردیگر خلیجی ممالک میں ہنر مند افرادی قوت ہی کی ضرورت ہو گی۔اس حقیقت کا فلپائن نے کوئی چالیس سال قبل ادراک کر لیا تھا اور سرکاری سطح پر ایسے ووکیشنل ادارے بنائے گئے تھے کہ جہاں افرادی قوت کو مکمل تربیت دے کر خلیجی ممالک بھیجا جاتا ہے اور اسی تناسب سے فلپائنی افرادی قوت کی کم سے کم اجرت بھی طے کی جاتی ہے،اسی ماڈل کو بعد ازاں بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی اپنایا گیا لیکن ہنوز اس کے وہ نتائج حاصل نہیں ہوئے ،جو فلپائن کر چکا ہے۔
سفارتخانہ پاکستان ریاض اور قونصلیٹ جدہ اس معاملے پر خاصے سرگرم دکھائی دیتے ہیں اور اپنی تجاویز پر نہ صرف کام کر رہے ہیں بلکہ حکومت پاکستان کو بھی اس تبدیلی سے آگاہ کر چکے ہیں۔ حکومت پاکستان خود بھی بوجوہ افرادی قوت درآمد کرنے میں خاصی دلچسپی رکھتی ہے،دیکھنا یہ ہے کہ حکومت پاکستان ،جس کو قریباً دس لاکھ افرادی قوت مہیا کرنے کا ایم او یو بھی سائن ہو چکا ہے،اس ضمن میں کیا اقدامات اٹھاتی ہے اور کس طرح نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ نجی پروموٹرز کاتعاون بھی حاصل کر پاتی ہے کیونکہ یہ طے ہے کہ آنے والے وقت میں سعودی عرب میں ہنر مند افراد ہی کی ضرورت ہے۔دوسری طرف یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ 2000سے شروع ہونے والی سعودائزیشن کی مہم اس وقت اپنے عروج پر ہے اور سعودی حکومت اپنے اہداف بڑی کامیابی کے ساتھ حاصل کر رہی ہے،دفاتر میں تارکین کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے اور سعودی افرادی قوت ان امور پر مہارت حاصل کررہے ہیں۔پاکستانی اور کسی بھی دوسری افرادی قوت کے لیے مستقبل میں یہ مشکلات سامنے کھڑی ہیں،پاکستان کو ان پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button