بلاگ

بلوچ یکجہتی کمیٹی، بلوچ نوجوانوں کی ہمدرد یاقاتل؟

تحریر: کنول زہرا

صوبہ بلوچستان کے امن کو تباہ کرنے کے لئے پاکستان کی سلامتی کے دشمن بلوچ نوجوانوں کواپنے ناپاک مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ یہ صورتِ حال نہ صرف صوبے کے امن و امان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے بلکہ ملک کے مستقبل کے حوالے سے بھی تشویش کا باعث ہے ۔ بلوچستان میں ہونے والی حالیہ دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث زیادہ تر افراد جدید تعلیم یافتہ نوجوان ہیں۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت نوجوانوں کی برین واشنگ کر کے انہیں ریاست کے مخالف کھڑا کرتی ہیں۔
سوشل میڈیا کے ذریعے یہ تنظیمیں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ہدفف بناتی ہیں۔ نوجوان ان تنظیموں کے جھوٹے وعدوں کا شکار ہو کر ان کی سازشوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان کے اندر ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پیدا کی جاتی ہے، اور انہیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ اپنے اعمال کے ذریعے اپنی قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔
دہشت گرد تنظیموں نے اپنی حکمت عملی کو مزید مضبوط بنانے کے لیے خواتین کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ شاری بلوچ ، سمیعہ قلندرانی جیسی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کو ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف استعمال کیا جاچکا ہے جبکہ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
بلوچ طالب علموں کا کہنا ہے کہ وہ شدت پسند تنظیموں کا حصہ نہیں بننا چاہتے، لیکن انہیں مختلف طریقوں سے بلیک میل کیا جاتا ہے۔ دہشت گردوں کے سہولت کار انہیں بلیک میل کرکے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگر وہ انکار کرتے ہیں تو انہیں اغوا کر لیا جاتا ہے اور پھر مار کر ان کی لاشوں کو پہاڑوں پر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہ ”مسنگ پرسن” ہیں اور ان کی گمشدگی کا الزام ریاستی اداروں پر ڈال دیا جاتا ہے۔
صوبہ بلوچستان کے حقوق کی نام نہاد دعوی دار پارٹی بلوچ یکجہتی کمیٹی بلوچ قوم کو گمراہ کرنے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے ،یہ بات ریکاڈر کا حصہ ہے کہ بی وائی سی کی روح رواں ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ نے نومبر 2024 میں ناروے کی شہر اوسلومیں ایک کانفرنس میں شرکت کی تھی ، جس میں شرکت کرنے کی بنا انہیں ایک ملین ڈالرز فراہم کیے گئے تھے، کہا جاتا ہے کہ اس رقم کے 2.5لاکھ ڈالرز بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے لئے استعمال کیے گئے ہیں، اس صورتحال سے واضح ہے کہ ماہ رنگ بلوچ نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے بلوچ قوم کو استعمال کیا،اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے خونی سیاست کرتی ہیں۔
ماہرنگ بلوچ کے والد عبدالغفار لانگوواپڈا میں ملازمت کیساتھ کالعدم تنظیم بلوچ لبیریشن آرمی کے رکن تھا ۔ جو 2011 میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کیخلاف کارروائی میں مارا گیا تھا، ڈاکٹر ماہ رنگ لانگوکے والد بی ایل کا سرغنہ اور ریاست کا باغی تھا، جو ریاستی اداروں پر ہونے والے ان گنت حملوں میں ملوث تھا۔
ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ سرکاری وظیفے پر پلی بڑھی ہیں اور ابھی بھی سرکاری ڈاکٹر کے عہدے پر فائز ہیں پھر بھی ریاست کے خلاف پیش پیش ہیں، نوجوانوں کو سوچنا چائیے ، جس کے خون میں وفا نہیں ہے ، وہ کیسے کسی کی خیرخواہ ہوسکتی ہے ؟

9 نومبر 2024 کو کالعدم تنظیم کے دہشت گردپنجاب یونیورسٹی کے طکے طالب علم طلعت عزیز نے بی ایل اے چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تنظیم کی جانب سے پہاڑوں پر تعلیم یافتہ نوجوانوں کو گمراہ کرکے انہیں پنجابیوں اور نہتے لوگوں کو مارنے پر آمادہ کیا جارہا تھا۔ پہاڑوں پر ایسے نوجوان بھی موجود ہیں جنہیں لاپتہ افراد ظاہر کیا جا رہا ہے بلوچ نوجوان ایسے لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں جو ان کا مستقبل خراب کر رہے ہیں۔ طلعت عزیز کہا کہ پہاڑوں پر ایسے نوجوان بھی موجود ہیں جن کی تصویریں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاجی دھرنے میں دیکھی تھیں جنہیں لاپتہ ظاہر کیا گیا ہے ۔میں بلوچ نوجوان کوکہتا ہوںکہ وہ ایسے لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں جو ان کا مستقبل خراب کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے 5 اگست 2024 کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی تخریب کاروں کی پراکسی ہے، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی نام نہادد لیڈرشپ کرمنل مافیا کی پراکسی ہے، اس پراکسی کو ایجنسیز کو بدنام کرنے کا کام دیا گیا ہے، بیرونی فنڈنگ اور بیانیے پر جتھا جمع کرنا ان کا کام ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے حرکات و سکنات سے صاف واضح ہے کہ وہ پاکستان کے استحکام کے مخالف ہیں، ان تخریبوں سے اپنے نوجوانوں کو بچانا ہر صورت ضروری ہے کیونکہ یہ عناصر نہ صرف ملک کے لئے بھی زہر قاتل ہیں بلکہ نسل بھی برباد کر رہے ہیں۔
یہاں یہ سوال بھی بنتا ہے کہ بلوچستان کے نوجوانوں کو گمراہ ہ کرنا خوارج تنظیموں کے لئے آسان کیوں ہے؟ کیا وہاں کے لوگوں کو تعلیمی، معاشی اور بنیادی سہولیات کا حصول آسانی سے ممکن ہے، اگر صوبہ بلوچستان سمیت پاکستان بھر کے نوجوانوں کو فوری مناسب روزگار ملے، مہنگائی قابو میں ہو تو کوئی بھی نوجوان کسی تخریبی سوچ کا آلہ کار نہیں بنے گا، بہرحال یہ کام حکومت نے کرنا ہے، امید ہے کہ وہ اس نکتے کو سنجیدہ لے اور نوجوانوں کے مستقبل کو روشن کرکے پاکستان کو محفوظ اور مضبوط بنائے۔
نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کی ذمے داری ریاست کے ساتھ ساتھ والدین پر بھی عائد ہوتی ہے، والدین کو چاہئے کہنوجوانوں کے روزمرہ کے معمولات پر نظر رکھیں،ان کی دلچسپی ، دوستوں سے میل جول پر کڑی نظر رکھیں، والدین اوراساتذہ انہیں یہ اورننس دیں کہ وہ کبھی بھی ریاست مخالف بیانیے کا حصہ نہ بنیں ، اس کے ساتھ نوجوانوں کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کی توانائیاں قوم کی ترقی کے لیے استعمال ہونی چائیے۔
بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں ایک سنگین مسئلہ ہیں جس کا سدباب ضروری ہے۔ بلوچستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ اس قوم کا سرمایہ ہیں، اور انہیں اس سرزمین کی حفاظت اور ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

جواب دیں

Back to top button