Editorial

معیشت کی بہتری، وزیراعظم کا عزم

پاکستان پچھلے برسوں میں پیدا ہونے والی مشکلات اور مصائب سے تیزی کے ساتھ اُبھر رہا ہے۔ معیشت کی صورت حال رفتہ رفتہ بہتری کی جانب گامزن ہے۔ صنعتوں کا پہیہ چلنے لگا ہے، لیکن ابھی بھی بہت سے مسائل درپیش ہیں، جن کا صائب حل نکالنے کے لیے سنجیدہ اقدامات یقینی بنانے ہوں گے۔ برآمدات کو مزید وسعت دینی اور درآمدات میں کمی لانی ہوگی۔ اصلاحات کے سلسلے دراز رکھنے ہوں گے کہ یہی کامیابی کی کلید قرار پائیں گے۔ شب و روز محنتیں اور ریاضتوں کی ضرورت اب بھی ہے۔ موجودہ اتحادی حکومت کو اس بات کا کریڈٹ نہ دینا ناانصافی ہوگی کہ اس نے ڈوبتی معیشت کو ناصرف سہارا دیا، بلکہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے قابل بھی بنایا۔ سال قبل مایوسی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ پچھلے برس فروری میں عام انتخابات ہوئے۔ شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ اقتدار نئی حکومت کے لیے کانٹوں کی سیج سے کم نہ تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے منصب سنبھالنے کے بعد ناصرف بڑے پیمانے پر اصلاحات کا آغاز کیا بلکہ بیرونی سرمایہ کاریاں لانے کے لیے دوست ممالک کے دورے کیے اور سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات، قطر اور دیگر ملکوں کو پاکستان میں عظیم سرمایہ کاریوں پر رضامند کیا۔ ٹیکس اصلاحات کی جانب قدم بڑھائے گئے، جس کا مثبت نتیجہ نکلا۔ اس میں اب بھی خاصی خامیاں ہیں، جو جہدِ مسلسل کی صورت درست ہوسکتی اور حکومتی آمدن میں معقول اضافے کی وجہ بن سکتی ہیں۔ مختلف شعبہ جات میں بہتری کیلئے انقلابی اقدامات کیے گئے۔ حکومتی اقدامات کے طفیل گرانی میں خاصی کمی آئی۔ شرح سود میں واضح کمی ممکن ہوسکی اور وزیراعظم اس میں مزید کمی کے لیے خاصے پُرامید ہیں۔ کئی سال بعد غریب عوام کی حقیقی اشک شوئی کا بندوبست ہوسکا۔ حکومتی اقدامات کو بین الاقوامی ادارے بھی سراہ رہے ہیں۔ گو حالات اب بھی بہت سے اقدامات کے متقاضی ہیں، کڑی محنتوں کا تقاضا کرتے ہیں، خودانحصاری کی راہ پر چلنے اور ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات پر عمل پیرا رہنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے دورہ کراچی کے موقع پر دنیا کی دوسری بہترین کارکردگی کی حامل اسٹاک ایکسچینج کا اعزاز حاصل کرنے پر پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معاشی ترقی کا آغاز ہوچکا، ملک میں معاشی استحکام آنے پر تمام لوگ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ انہوں نے ’’اڑان پاکستان’’ کے حوالے سے کہا کہ ماضی میں بھی اس طرح کے خوش نما پروگرام دیکھے اور سنے گئے، مذکورہ پروگرام سے ملک کو معاشی ترقی ملے گی اور سماجی خوشحالی آئے گی، اب ہمیں ترقی کی طرف بڑھنا ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑی ہورہی ہے، ہمارا ہدف معاشی نمو ہے، ملک کو ترقی کے راستے پر لے جانے کے لیے تیار ہوں، معیشت میں مزید ترقی کے لیے ماہر معیشت ہماری رہنمائی فرمائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی روشنیوں کا شہر ہے، ایک زمانے میں اس کی رونقیں ختم ہوچکی تھیں لیکن شکر ہے امن بحال ہوا، صوبائی دارالحکومت ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر کہا جائے کہ ہر چیز اچھی ہے تو ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، اگر ہم حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اعداد و شمار دکھائیں گے، اچھی چیزوں کو سراہیں گے اور برے کو ٹھیک کرنے کا مشورہ دیں گے تو ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ آگے بڑھنے کے لیے تمام تجربہ کار لوگوں کے مشورے درکار ہوں گے، ٹیکس کے حوالے سے معاملات روز روشن کی طرح عیاں ہیں، ہمارا ٹیکس سلیب کا نظام معیاری نہیں جو کاروبار کے چلنے میں رکاوٹ ہے، ہم عالمی مالیاتی پروگرام ( آئی ایم ایف) پروگرام کے مرحلے میں ہیں، ہمیں ان کی شرائط کو پورا کرنا ہے، وقت آنے پر اس پروگرام سے چھٹکارا حاصل کریں گے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ گزشتہ 6ماہ میں ٹیکس محصولات کا ریکارڈ ہمارے سامنے ہے، جی ڈی پی کے حساب سے ٹیکس ہدف حاصل کیا، لیکن یہ اختتام نہیں صرف آغاز ہے، اسے آگے لے جانے کے لیے سرمایہ چاہیے، پالیسی ریٹ 22فیصد پر تھا جو آج 13پر آگیا ہے، چاہتا ہوں کہ یہ مزید کم ہوکر 6فیصد پر آجائے۔ شہباز شریف نے مزید کہا، ہمیں صبر و تحمل اور دانش مندی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا، کہا جاتا ہے کہ برآمدات پر مبنی معیشت کو فروغ دیا جائے لیکن مجھے اس حوالے سے عملی تجاویز درکار ہیں، وسائل کے حوالے سے پاکستان خودکفیل ہے، ہمارے پاس اربوں ڈالرز کے خزانے مدفن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دلخراش ماضی میں نہیں جانا چاہتا، جو ہوا اس پر رونے کا کوئی فائدہ نہیں، ہمیں اپنا سبق سیکھنا ہوگا اور آگے بڑھنا ہے، ملکی ترقی کے لیے معیشت کے ماہرین اپنے وسیع تجربے سے ہماری رہنمائی فرمائیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ دُنیا کے بعض ملکوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جو انتہائی مشکل صورت حال سے اُبھرے، اپنے ملکوں کو دُنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل کرایا۔ کچھ بھی ناممکن نہیں۔ کفایت شعاری، اصلاحات پر مبنی اقدامات اور خودانحصاری کی راہ ملک و قوم کی ترقی و خوش حالی کا باعث بن سکتی ہے۔ ماہرین کی مفید آرا اس ضمن میں اہم ثابت ہوں گی۔
پولیو وائرس کا نیا کیس
دُنیا بھر کو پولیو سے پاک کیا جا چکا ہے، پاکستان اُن بدقسمت ترین ملکوں میں سے ایک ہے، جہاں یہ خطرناک وائرس آج بھی موجود ہے اور اس کے وار بھی جاری ہے۔ گزشتہ برس تو پولیو نے ملک بھر میں ہمارے 69بچوں کو عمر بھر کی معذوری سے دوچار کیا تھا۔ یہ وائرس سالہا سال سے بڑے پیمانے پر تباہیاں مچاتا چلا آرہا ہے۔ ماضی تو اس حوالے سے خاصا تشویش ناک رہا ہے، مسلسل ہونے والی پولیو مہمات کے ثمرات البتہ ضرور ظاہر ہوئے، پہلے بڑے پیمانے پر بچے پولیو کی زد میں آتے تھے، پولیو مہمات کے طفیل شرح خاصی گری، لیکن اس وائرس پر مکمل قابو پانے کے ہدف سے ہم اب بھی دُور ہیں۔ پولیو وائرس ہمارے بے شمار بچوں کو زندگی بھر کے لیے معذور بنا چکا ہے۔ پولیو وائرس کا مکمل خاتمہ نہ ہو پانے کی اہم وجوہ میں پولیو مہمات کے دوران بعض والدین کی جانب سے اپنے بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے سے اجتناب بھی رہا ہے۔ ملک کے بعض حصوں میں پولیو ٹیموں اور ان کی سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں پر متواتر حملوں کے سلسلے بھی دراز رہے۔ پولیو سے بچائو کی ویکسین سے متعلق طرح طرح کے جھوٹ گھڑے گئے۔ اس کے حوالے سے منفی مہمات چلائی گئیں، جس سے متاثر ہوکر والدین کی جانب سے اپنے بچوں کو پولیو سے بچائو کی ویکسین پلوانے سے گریز کی روش اختیار کی گئی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ حالانکہ پولیو سے بچائو کی ویکسین تمام شک و شبہات سے پاک اور خالص اطفال کو اس موذی وائرس سے بچانے کا ذریعہ ہے۔ حکومت کی جانب سے پوری کوشش ہوتی ہے کہ پولیو مہم میں پانچ سال سے کم عمر تمام بچے پولیو وائرس سے بچائو کی ویکسین کے قطرے پئیں، لیکن والدین کے گریز کی وجہ سے کافی سارے بچے پولیو سے بچائو کے قطرے پینے سے رہ جاتے ہیں۔ سال 2025کا آغاز ہے اور اس کے ابتدائی دس یوم پورے ہونے سے قبل ہی پولیو کا نیا کیس سامنے آگیا ہے۔
’’ جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ملک میں سال 2025کا پولیو وائرس کا نیا کیس سامنے آگیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں پولیو کے ایک اور کیس کی تصدیق ہوئی ہے، محکمہ صحت نے ٹانک کی 13ماہ کی بچی میں پولیو وائرس کی تصدیق کی ہے، 2024سے اب تک ٹانک سے پولیو کا پانچواں کیس سامنے آیا ہے۔ قومی ادارہ صحت نے بھی نئے پولیو کیس کی تصدیق کردی، گزشتہ سال سے اب تک بلوچستان میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد 27ہے، سندھ میں پولیو متاثرہ مریضوں کی تعداد 19، خیبر پختونخوا میں 21ہوگئی۔ اسلام آباد اور پنجاب میں بھی ایک ایک بچے کو پولیو نے متاثر کیا، گزشتہ سال ملک بھر میں پولیو وائرس کے کیسز کی مجموعی تعداد 69رہی۔ پولیو کا نیا کیس تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر ہے۔ پولیو وائرس دُنیا بھر میں ہماری جگ ہنسائی کا سبب بھی ہے۔ ہمارے شہریوں کو بیرونِ ممالک سفر کے دوران پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پولیو وائرس کا خاتمہ ممکن ہے، اس کے لیے تمام والدین کو اپنے پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے پر ہر صورت راضی کرنا پڑے گا۔ اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ پولیو ویکسین سے متعلق آگہی کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ میڈیا بھی اپنی ذمے داری پوری کرے۔

جواب دیں

Back to top button