کیا یہ واقعی غلطی ہے?

امریکی صحافی اٹلانٹک میگزین کے ایڈیٹر ان چیف جیفری گولڈ برگ نے اپنے ایک آرٹیکل میں وائٹ ہاؤس سے سرزد ہوئی غلطی کا انکشاف کیا ہے، جسے وائٹ ہاؤس نے تسلیم بھی کیا ہے.
وائٹ ہاؤس نے کی جانب سے تصدیق کی گئی ہے کہ ایک امریکی صحافی کو غلطی سے ایک گروپ چیٹ میں شامل کر لیا گیا تھا، جس میں امریکی وزیرِ دفاع پیٹ ہیگستھ، نائب صدر جے ڈی وینس اور دیگر اعلیٰ حکام نے یمن کے حوثی باغیوں پر ہونے والے آئندہ حملوں پر بات چیت ہو رہی تھی.
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 15 مارچ کو ان حملوں کا اعلان کیا تھا، لیکن دی اٹلانٹک میگزین کے ایڈیٹر اِن چیف جیفری گولڈبرگ نے لکھا کہ انہیں اس گروپ چیٹ کے ذریعے کئی گھنٹے قبل ہی اس منصوبے کی اطلاع مل گئی تھی۔ یہ بات چیت سگنل نامی ایپ پر جاری تھی.
صحافی کا کہنا ہے کہ وہ اس اہلکار کا نام اس لیے ظاہر نہیں کر رہے کیونکہ وہ حاضر سروس انٹیلی جنس افسر ہے، مجموعی طور پر 18 افراد فہرست میں شامل کیے گئے، جن میں قومی سلامتی اہلکار، صدر کی مشرق وسطیٰ سے متعلق مذاکرات کار، وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف ایس ایم یعنی شاید اسٹیفن ملر شامل تھے.
لیک ہونے والے پیغامات کے مطابق، جب امریکی فضائی حملے کے نتیجے میں ایک عمارت تباہ ہوئی جہاں مبینہ طور پر ایک حوثی کمانڈر موجود تھا، تو قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والٹز نے اسے ”حیرت انگیز“ قرار دیا۔
والٹز نے کہا، ’ہمارا پہلا ہدف، ان کا اہم میزائل ماہر، ہمیں اس کی تصدیق ہو گئی تھی کہ وہ اپنی محبوبہ کی عمارت میں داخل ہو رہا تھا اور اب وہ عمارت ملبے کا ڈھیر بن چکی ہے۔‘
اس پر امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے جواب دیا، ’بہت عمدہ‘۔
سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان ریٹکلف نے کہا، ’اچھا آغاز ہے‘۔
اس کے بعد والٹز نے مکا، امریکی پرچم اور آگ کے ایموجیز بھیجے۔
یمن ڈیٹا پروجیکٹ کے مطابق، اس پہلے فضائی حملے میں کم از کم 13 شہری جاں بحق اور 9 زخمی ہوئے۔ یہ حملہ 15 مارچ کی رات دارالحکومت صنعاء کے شمال میں کیا گیا تھا۔ یہی وہ حملہ تھا جسے امریکی نائب صدر نے ”بہت عمدہ“ اور والٹز نے ”حیرت انگیز“ کہا تھا۔
رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی پالیسی مرکز کے نائب صدر ڈیلن ولیمز نے سوشل میڈیا پر لکھا، ’یہ پیغامات کم از کم ایک جنگی جرم کے واضح ثبوت ہیں، جسے انجام دینے والے خود اس پر خوش ہو رہے ہیں۔‘
بین الاقوامی قانون کے مطابق، کسی بھی جنگ میں شہریوں کو براہ راست نشانہ بنانا ممنوع ہے، اور فوجی ہدف کو نشانہ بناتے ہوئے شہری انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز کرنا لازم ہے۔
حوثی حکام نے حالیہ امریکی حملوں کو کھلی جارحیت اور جنگی جرم قرار دیا ہے، جبکہ ترقی پسند امریکی قانون سازوں نے نشاندہی کی ہے کہ کانگریس کی منظوری کے بغیر یمن پر امریکی حملے غیر آئینی ہیں۔
حالیہ حملوں میں حوثیوں نے امریکی حملوں میں پندرہ فوجی افسران سمیت سولہ جنگجوؤں کی شہادت کا اعتراف کیا ہے، دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حوثیوں پر حملے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
15 اور 16 مارچ کے درمیان، امریکہ نے یمن میں 47 سے زائد فضائی حملے کیے۔ یمنیوں نے متعدد رہائشی عمارتوں پر حملوں کی اطلاع دی۔ الجزیرہ کے مطابق، امریکی حملے میں صوبہ اِب میں دو رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا، جس میں کم از کم 15 افراد ہلاک ہوئے، جبکہ صنعاء میں ایک اور حملے میں مزید 15 جاں بحق ہوئے۔
ان حملوں میں مجموعی طور پر 53 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں کم از کم 25 شہری شامل تھے۔ یمنی حکام نے تصدیق کی ہے کہ ان میں چار بچے بھی شامل ہیں، جبکہ مجموعی شہری ہلاکتوں کی تعداد 30 سے زائد ہو سکتی ہے۔
یمن ڈیٹا پروجیکٹ کے مطابق، زیادہ تر امریکی حملے شہری علاقوں پر کیے گئے۔ ایک حملہ حال ہی میں تعمیر کیے گئے کینسر اسپتال پر کیا گیا، جسے رواں ہفتے دوبارہ نشانہ بنایا گیا۔
”ڈراپ سائٹ“ نامی تحقیقاتی صحافتی ادارے نے رپورٹ کیا کہ اسپتال پر بمباری کے بعد وہاں افراتفری پھیل گئی، بچے چیخ و پکار کر رہے تھے، جبکہ کچھ معصوم متاثرین کی لاشیں اس حد تک جھلس گئی تھیں کہ انہیں پہچاننا مشکل تھا۔
لیک ہونے والی گفتگو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ
ٹرمپ انتظامیہ کے عہدیداروں نے رواں ماہ یمن پر امریکی فضائی حملوں کے حوالے سے نہ صرف جنگی جرائم کا اعتراف کیا بلکہ اس پر خوشی کا اظہار بھی کیا ہے.
ڈیموکریٹک ارکانِ کانگریس نے اس غلطی پر شدید تنقید کی اور اسے امریکی قومی سلامتی کی خلاف ورزی اور قانون کی پامالی قرار دیا، جس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ مزید برآں، ڈیموکریٹک رہنماؤں نے سگنل ایپ کے ذریعے حساس معلومات کا تبادلہ غیر قانونی قرار دیا۔
سینیٹ کے اقلیتی رہنما چک شومر نے اسے فوجی انٹیلی جنس کی سب سے حیران کن خلاف ورزیوں میں سے ایک قرار دیا اور اس پر مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
سینیٹر جیک ریڈ نے بھی اس لیک کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ’صدر ٹرمپ کی کابینہ کی لاپرواہی حیران کن اور خطرناک ہے۔‘
سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن — جن پر صدر ٹرمپ نے ان کے دورِ وزارت میں ذاتی ای میل سرور استعمال کرنے پر بارہا تنقید کی تھی، نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا "یہ مذاق ہوگا، ہے ناں?!
دلچسپ بات یہ ہے کہ صحافی کا کہنا ہے کہ پورے واقعہ کےبعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ سگنل چیٹ گروپ حقیقی تھا۔جس پر انہوں نے خود کو گروپ سے نکال لیا۔یہ سوچ کر گروپ قائم کرنے والے ایڈمن مائیکل والز کو پیغام ملے گا کہ میں یہ گروپ چھوڑ چکا ہوں، تاہم صحافی کے بقول ان کے نکلنے پر بھی کسی نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ اس میں شامل کیوں کیے گئے تھے اور نکلے کیوں؟
صحافی کے نزدیک مائیکل والز کا انہیں گروپ میں شامل کرنا غلطی نہیں بلکہ جان بوجھ کی حرکت ہے.
حیرت کی بات یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس سے ایسی حرکت کیسے ہوگئی، بہرحال اس حرکت سے امریکی کا خونی چہرہ تو آشکار ہوا، جس کا اعتراف وہ خود کر رہے ہیں کہ وہ یمن کے قاتل ہیں.