سحری کے ڈھول سے لے کر آن لائن ایپس تک: ایک پاکستانی خاندان کی تین نسلوں کا سفرِ رمضان

اس ہفتے کے شروع میں اسلام آباد میں 67 سالہ محمود احمد ہاشمی نے اپنے گھر پر فرش پر بچھے ایک بڑے رنگین دسترخوان کے گرد اپنے تین بیٹوں، بہوؤں اور پوتوں کے ساتھ روزہ افطار کیا۔ اس موقع پر فضا پلیٹوں، چمچوں اور کانٹوں کی آواز سے پُر تھی۔
رمضان کی روایات اور طور طریقے نسل در نسل تبدیلی کے عمل سے گذرے ہیں جس کے دوران روزے، نماز اور صدقہ کے بنیادی روحانی عناصر برقرار رہے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ آبادیاتی تبدیلیوں، میڈیا، طرزِ زندگی اور ڈیجیٹل ایپس سے متأثر بھی ہوئے ہیں۔ دنیا کے دیگر حصوں کی طرح ڈیجیٹل دور پاکستانی خاندانوں کے رمضان کے طریقوں پر بھی نمایاں طور پر اثرانداز ہوا ہے جو ایپس، سوشل میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے روحانی مشغولیت، کمیونٹی سے ربط اور وسائل تک رسائی کی نئی راہیں پیش کرتا ہے۔
ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہاشمی نے تفصیل سے بتایا کہ رمضان کس طرح ان کے خاندان میں نسل در نسل تبدیلی سے گذرا۔ ماضی میں روایت تھی کہ ڈھول بجانے والے سڑکوں پر اور گلیوں میں ڈھول بجا کر لوگوں کو سحری کے لیے جگایا کرتے تھے۔ یہ کبھی ماہِ مقدس کی ایک عام خصوصیت تھی جبکہ آج اس روایت کی افادیت کو ٹی وی، موبائل فون اور الارم والی گھڑیوں نے گرہن لگا دیا ہے۔
ہاشمی نے افطار کے وقت عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا، "ان دنوں بزرگ افراد لوگوں کو سحری کے لیے جگانے کی غرض سے محلے میں نکلتے تھے۔ وہ ڈھول بجاتے اور کچھ ایسا کرتے تھے کہ لوگ اٹھ جائیں لیکن اب سب کچھ آپ کے موبائل فون میں موجود ہے۔”
موبائل ایپس رمضان المبارک کے دوران تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک ناگزیر ذریعہ بن گئی ہیں جو درست وقت اور رسائی کو یقینی بناتے ہوئے وقتِ نماز کی یاد دہانی، قرآنی تلاوت اور روزے کے ٹریکرز جیسی خصوصیات پیش کرتی ہیں۔
پہلے کئی لوگ ہمسایہ گھروں یا کمیونٹی کے مذہبی اجتماعات میں جایا کرتے تھے لیکن اب یوٹیوب اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز علماء دین اور شخصیات کی میزبانی کرتے ہیں جو روزانہ خاص طور پر نوجوان مسلمانوں کے لیے رمضان کے حوالے سے گفتگو، قرآنی تفسیر اور روحانی نشوونما کے لیے تجاویز پیش کرتے ہیں جن سے اسلامی تعلیم مزید قابلِ رسائی ہو جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز رمضان کی مبارکبادیں دینے، پکوانوں کے تبادلے اور روحانی غور و فکر پر گفتگو کرنے کے بھی اہم ذرائع بن گئے ہیں۔
ہاشمی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہاتھ سے تحریر کردہ عید کارڈز جن کا کبھی عید الفطر کے تہوار سے پہلے احباب اور رشتہ داروں میں وسیع پیمانے پر تبادلہ ہوتا تھا، اب ایک نایاب چیز بن گئے ہیں اور اب واٹس ایپ اور دیگر میسجنگ پلیٹ فارمز پر اشتراک کردہ ڈیجیٹل کارڈز نے ان کی جگہ لے لی ہے۔
انہوں نے کہا، "پہلے اپنے عزیزوں سے عید کارڈ حاصل کرنے کا احساس کتنا خوبصورت ہوتا تھا۔ آپ کے قریبی اور عزیز ان کا انتظار کرتے تھے۔ لوگ انہیں اپنے ڈرائنگ رومز یا بیڈ رومز میں آویزاں کرتے تھے۔ اب کارڈ کی ایک تصویر [موبائل فون پر] آ جاتی ہے۔”
ہاشمی نے مزید کہا، افطار اور سحری کا کھانا بھی مکمل طور پر گھر میں بنایا جاتا یا محلے کی دکانوں سے خرید کر ایک خاندان کے طور پر کھایا جاتا تھا جبکہ اب کھانا انفرادی پسند کے مطابق آن لائن ایپس سے منگوا لیا جاتا ہے۔
اگرچہ ریٹائرڈ اہلکار نے اپنی جوانی میں رمضان کے کئی رواجوں میں کمی پر افسوس کا اظہار کیا لیکن ان کے بیٹے اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کے پروفیسر معراج مصطفیٰ ہاشمی نے کہا، موبائل ایپس جیسی ڈیجیٹل ایجادات نے روزمرہ کی رسومات کو آسان بنا دیا ہے جبکہ رمضان کی روایات کو بدستور برقرار بھی رکھا ہے۔
معراج نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، "افطار کے لیے بازار کے روایتی چکروں کی جگہ فوڈ پانڈا جیسی ایپس نے لے لی ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے جن کے پاس ملازمتوں اور دیگر ذمہ داریوں کی وجہ سے وقت نہیں ہوتا۔ یہ ڈیجیٹل دور ہے، چیزیں اسی طرح ہو رہی ہیں اور لوگ اس میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بہت ہی مثبت تبدیلی ہے کیونکہ ہم جیسے لوگوں کو سارا دن دفتر میں رہنا اور کام کرنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے، ہم بازار جانا چاہتے ہیں لیکن کام کا دباؤ اور بوجھ ہوتا ہے۔”
معراج نے کہا، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور ایپس نے لوگوں کے لیے خیرات اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا آسان بنا دیا ہے جو مقدس مہینے کا ایک بنیادی پہلو ہے۔
ان کے 10 سالہ بیٹے اور پانچویں جماعت کے طالبِ علم ابراہیم نے سات سال کی عمر میں روزہ رکھنا شروع کیا۔ وہ رمضان میں اپنے پسندیدہ پکوان آن لائن آرڈر کرتا اور افطار اور سحری کے اوقات کے لیے انٹرنیٹ چیک کرتا ہے۔
ابراہیم نے افطار کے لیے پیزا کا ایک ٹکڑا لیتے ہوئے کہا، "مجھے افطاری کے لیے نوڈلز، پیزا، میکرونی، سموسے، پکوڑے اور جلیبیاں پسند ہیں۔”
لیکن جس طرح رمضان منایا جاتا تھا، کیا اب اس میں معراج کو کوئی کمی محسوس ہوتی ہے؟
انہوں نے کہا کہ رشتہ دار اور دوست رمضان کی تقریبات میں اکثر ایک دوسرے سے ملتے تھے جب ان کے پاس ویڈیو کالز کے ذریعے رابطہ قائم کرنے کی آسائش نہیں ہوتی تھی۔
پروفیسر نے کہا، "میں اپنے بچپن کے بارے میں سوچتا ہوں کہ ہم سماجی تقریبات میں جاتے، ہم اپنے دادا دادی کے ساتھ خریداری کرنے جاتے اور یہ تمام سرگرمیاں ہم کیا کرتے تھے۔ اگر دیکھیں تو ہمارے والدین نے محدود سہولیات کی وجہ سے بہت مشکل زندگی گذاری لیکن انہوں نے اسے ہمارے لیے تھوڑا آسان بنا دیا جبکہ ہمارے بچے بہت آسان زندگی گذار رہے ہیں اور انہیں ٹیکنالوجی کی مدد حاصل ہے۔”