بلوچستان میں ظلم پر مہرنگ خاموش کیوں?

بلوچ لبریشن آرمی کے رہنما غفار لانگہو کی بیٹی اور بلوچ یکجہتی کونسل کی سربراہ مہرنگ غفار لانگہو کا کہنا ہے کہ وہ بلوچ خواتین کی ہی نہیں بلکہ پاکستانی خواتین کے لیے بھی آواز اٹھاتی ہیں بلکہ دنیا میں کہیں بھی ظلم و جبر ہوگا وہ بطور انسانی حقوق کے کارکن ہر قسم کے جبر کے خلاف آواز بلند کرنا اپنا فرض سمجھتی ہیں.
بین الاقوامی خاص طور پر ہندوستان کا میڈیا اکثر مہرنگ کے حوالے سے خبریں نشر اور شائع کرتا ہے، جس کی ایک خبر نشر و اشاعت کے مراکز پر بہت زیادہ گردش میں رہی ہے، جو مہرنگ لانگہو کے نوبیل پرائز کیٹگری میں نامزدگی کے حوالے سے ہے.
بلوچ یکجہتی کونسل کی سربراہ مہرنگ لانگہو کا کہنا ہے کہ انہیں 2025 کے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا ہے، دوسری جانب دلچسپ بات یہ ہے کہ
نوبیل کمیٹی نامزد کردہ افراد کے نام منظر عام پر نہیں لاتی اور نامزد کرنے والوں کو بھی ایسا کرنے سے منع کیا جاتا ہے، نوبل کمیٹی 50 سال تک نامزدگیوں کو خفیہ رکھتی ہے، اس کے باوجود مہرنگ غفار لانگہو اور ہندوستان بضد ہیں کہ انہیں نوبیل پرائز کے لئے نامزذ کیا گیا ہے، خاتون بلوچ رہنما کی نوبیل پرائز نامزدگی کی خبر کو بھارت نے جشن کے طور پر نشر کی جس سے مہرنگ کا بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ اس کے گہرے تعلقات کی وابستگی نظر آئی.
سب سے پہلے تو یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر مہرنگ لانگہو بلوچ ہیں ہیں، بلوچ قوم بی ایل اے کے باغیوں کو بلوچ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں اور ماہ رنگ سمیت بی ایل اے کو ’’لانگہو‘‘ قوم کا گروہ قرار دیتے ہیں، ماہ رنگ کے بارے میں بھی بلوچوں کا یہی خیال ہے کہ اسےبلوچ کہنا یا ماننا بلوچوں کی شان کے خلاف ہے، کیونکہ اس کا باپ عبدالغفار جو بی۔ایل۔اے کا دہشتگرد تھا، وہ اپنے نام کے ساتھ بلوچ نہیں بلکہ لانگہو لگاتا تھا، جو لیڈرشپ کے حوالے سے بی ایل اے کی اندرونی لڑائی میں مارا گیا تھا، لیکن ماہ رنگ نے اپنی ذات اور قومیت تبدیل کرلی اور اب ’’ماہ رنگ لانگہو‘‘ بلوچوں کی شناخت استعمال کر کے پاکستان دشمنوں خصوصاً بھارت کے ایجنڈے کی تکمیل کر کے پاکستان کی تقسیم کے خواب دیکھ رہی ہے۔
ماہرنگ لانگہو اگر انسانی حقوق کی کارکن ہوتیں تو انہیں بھارت میں ہونے والا اقلیتوں پر ستم ضرور نظر آتا، انہیں معصوم کشمیریوں پر بھارتی تسلط ضرور دیکھائی دیتا، مہرنگ بلوچ بطور انسانی حقوق کے کارکن آج تک بھارتی جبر کی مذمت نہیں ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی ڈوریں ہندوستانی ایجنسیوں کے ہاتھوں میں ہیں، اس کے علاوہ آج تک بلوچ یکجہتی کونسل کی سربراہ نے بلوچ لبریشن آرمی کی مذمت نہیں کی ہے، بی ایل اے نے خواتین کو خود کش بمبار کی صورت میں استعمال کیا مہرنگ لانگو کی جانب سے اس حوالے سے بھی کوئی مذمتی بیان سامنے نہیں آیا، بی ایل اے آئے دن دوسرے صوبوں سے آئے مزدوروں کا قتل عام کرتی ہے، خاتون بلوچ رہنما اور خود ساختہ انسانی حقوق کی علمبردار نے اس کے خلاف بھی لب کشائی نہیں کی.
بلوچستان میں بی ایل اے اور بی ایل ایف کی جانب سے کتنے ہی فوجی اہلکاروں کی شہادت ہوجاتی ہے، مہرنگ غفار اس پر بھی لب نہیں ہلاتی ہیں، ان کی آواز لاپتہ افراد کے حق میں اٹھتی ہے، جو اکثر خود کش بم دھماکوں یا کوئی اور تخریب کاری کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں.
صوبہ بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے 11 مارچ 2025 کو جعفر ایکسپریس پر حملے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے، جس میں 400 کے قریب دوسرے صوبوں کے مسافر سفر کر رہے تھے، جس میں سے 31 مسافروں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا، مہرنگ غفار نے نہ تو ٹرین کے ہائی جیک ہونے پر مذمتی بیان دیا نہ ہی 31 یرغمالیوں کے ساتھ پیش آنے والے بیدردی کے واقعے پر کوئی لفظ بولا بلکہ منظر نامے سے غائب نظر آئیں، جعفر ایکسپریس پر حملے کے واقعے کو پاک فوج نے جس شاندار طریقے سے ڈیل کیا ہے، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ہے، پاکستان آرمی اور ائیر فورس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پھرپور ایکشن نے 33 خود کش بمباروں کو موقع پر ہلاک کرکے دہشتگردوں کی کمر توڑی اور مسافر یرغمالیوں کو بازیاب کرایا، الله کی مدد سے پاک فوج کی ضرار کمپنی کی جرات اور جوان مردی کی وجہ سے آپریشن میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور مسافر باخیریت اپنے گھروں کو روانہ ہوئے، سیکیورٹی فورسز کی کامیابی کو پوری دنیا نے سراہا مگر نام نہاد بلوچستان کی بیٹی کہیں نظر نہیں آئی، پھر 16 مارچ کو دالبندین شاہراہ پر نوشکی کے مقام پر مسافر بس کے نزدیک بم دھماکا ہوا، جس کے نتجے میں 7 مسافر موقع پر ہی جان بحق ہوگئے، بی ایل اے کے کارندے غفار لانگو کی بیٹی کی جانب سے کوئی مذمتی یا تعزیتی بیان جاری نہیں ہوا جبکہ دوسری جانب پاکستان آرمی اور فرنیٹر کور کی جانب سے بروقت اور پرزور جوابی کاروائی پر ایک خودکش بمبار سمیت 3 دہشتگرد واصل جہنم ہوئے جبکہ 2 قانون نافذ کرنے والوں کی گرفت میں بتائے جاتے ہیں.
مہرنگ لانگو سمیت حامد میر، اسد طور اور ایمان مزاری تک کی خاموشی حقائق کے سامنے آنکھ بند کی جانے والی مجرمانہ حرکت معلوم ہوتی ہے، یہ عناصر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبری گمشدگیوں کا ایسا بیانیہ گھڑتے ہیں جو زمینی حقائق سے زیادہ سی پیک مخالف قوتوں کے ایجنڈے سے ہم آہنگ ہوتا ہے، دراصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ریکوڈک، سی پیک اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے بلوچستان میں خوشحالی اور استحکام لانے کا خواہاں ہے، جس کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے، بلکہ سی پیک پروجیکٹ کا ایک فیز تو الحمد الله مکمل بھی ہوچکا ہے اور دیگر منصوبوں پر الله کے فضل سے کام جاری ہے.
بلوچستان کی ترقی کے منصوبوں پر عمل درآمد دیکھ کر دہشت گرد تنظیمیں بی ایل اے، بی ایل ایف، اور بی آر اے کو سخت غصہ اور ملال ہے لہذا ان کی جانب سے دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، بلوچ قوم کو سوچنا ہوگا ان کالعدم تنظیموں نے عوام کو خوف اور خونریزی کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔قابل غور بات ہے کہ بلوچستان میں ہونے والی کسی بھی دہشتگردی کو مہرنگ غفار لانگہو سمیت حامد میر، اسد طور اور ایمان مزاری کی جانب سے قابل افسوس نہیں گرداننا جاتا ہے جو کہ سلیکٹو ایکٹوزم کی واضح دلیل کے ساتھ سچ کو جھوٹ کے پردے میں چھپانے کی مسلسل کوشش بھی ہے.
سوال یہ ہے کہ دردندگی اور اس کی پشت پناہی کرنے والے کیا انسانی حقوق کے علمبردار ہوسکتے ہیں، کیا مہرنگ غفار لانگہو نوبیل پرائز کی حق دار ہوسکتی ہیں? کیا انہیں بلوچ قوم کا نقصان نظر نہیں آتا ہے، کیا انہیں بی ایل اے کے ہاتھوں دوسری قوم کا ہوتا خون نظر نہیں آتا ہے?