آنیاں جانیاں

تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض )
مشرق وسطیٰ کے معاملات مسلسل دگر گوں ہوتے جا رہے ہیں، اسرائیل کسی کی بات سننے کے لئے قطعی تیار نہیںاور حیرت اس امر پر ہے کہ اقوام عالم اس پر کسی بھی قسم کا دبائو ڈالنے میں قطعی طور پر ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسی جارحانہ صورتحال کسی مسلم ریاست کی جانب سے ہوتی تواقوام عالم کا رویہ کیا ہوتا،اس کے متعلق جاننے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ اس کا جواب اقوام عالم کی طرف سے بخوبی دیا جا چکا اور ہنوزدیا جا رہا ہے۔ کرہ ارض پر جس بربریت کا مظاہرہ فقط شکوک و شبہات کی بناء پر ،طاقتوروں نے گزشتہ دو دہائیوں میں کیا ہے،اس کی نظیر انسانی تاریخ میں ڈھونڈے سے نہیں ملے گی اور جو تاریخ اس وقت غزہ میں لکھی جا رہی ہے،اس پر مورخ یقینی طور پر ذمہ داروں کا بلاامتیاز احتساب کرے گا بشرطیکہ اسے اس کا موقع میسر ہوا۔ اس کی سادہ سی وجہ یہی ہے کہ عین ممکن ہے کہ اس قضیہ کے بعد کرہ ارض کی شکل ہی تبدیل ہو جائے کہ اس حوالے سے بیشتر پیش گوئیاں پوری ہوچکی ہیں اور بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ یہ معرکہ بالآخر فیصلہ کن ہو گا۔دنیا پر اس وقت بظاہر ایک عالمی طاقت اپنا بھرپور اثر و رسوخ رکھتی دکھائی دے رہی ہے اور اس کی منشاء کے مطابق ہی دیگرممالک متحرک ہوتے دکھائی دیتے ہیں البتہ یہ اس اکلوتی طاقت کی صوابدید ہے کہ وہ کب، کہاں اور کس ریاست کے خلاف بروئے کار آتی ہے۔ عراق و افغانستان پر اس کے متحرک و فعال ہونے میں چنداں وقت ضائع نہیں ہوا اور اس نے ایسے حالات پیدا کئے، دنیا کو ایسی منظر کشی کی کہ اس کے حلیف ،سرکشوں کی سرکوبی کے لئے، اس کے ہم رکاب دکھائی دئیے، اقوام متحدہ و سیکورٹی کونسل سے قراردادوں کی منظوری اور پیش قدمی دنوں میں ممکن ہو گئی۔ کل کے مجاہدین کہلوانے والوں کی شناخت دم بھر میں دہشت گردوں ؍ سرکشوں کی سی ہو گئی اور ان کی سرکشی کو کچلنے کے لئے ہر طرح کا اسلحہ استعمال کرنے کی کھلی چھٹی ازخود تصور کر لی گئی، ساتھ نہ دینے والی ریاستوں کو پتھر کے دور میں پہنچانے کی دھمکی ہی کارگر رہی اور دنیا کی بہترین فوج رکھنے والا ملک بھی اس جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ بن کر ،اپنے مفادات کی قربانی دینے پر تیار نظر آیا۔ بہرکیف یہ ماضی کی داستان سنانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اتنی بھیانک غلطی کے باوجود عالم اسلام نے اس سے کچھ نہیں سیکھا کہ اقوام عالم میں زندہ رہنے کے لئے،اپنی بات منوانے کے لئے،اپنی حیثیت کو تسلیم کروانے کے لئے صرف طاقتور فوج کا ہونا،بہترین انٹیلی جنس ایجنسی کا ہونا کافی نہیں بلکہ معاشی مستحکم حالت انتہائی ضروری ہے جبکہ ان سب سے بڑھ کر ریاستی مفادات کے تحفظ میں قیادت کا کردارو ساکھ اہم ہے۔بدقسمتی دیکھئے کہ عالم اسلام میں اس وقت کوئی ایک ریاست ایسی دکھائی نہیں دیتی کہ جو خم ٹھونک کر استحصالی طاقتوں کے سامنے کھڑی ہو سکے اور غزہ میں اپنے نہتے و بے بس و بے کس و مجبور مسلمان بہن بھائیوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی حمایت میں کھڑی ہو سکے حالانکہ یہ وہ قوم ہے کہ جس کے متعلق آقائے نامدار محمد مصطفیؐ کا فرمان ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہے،اس کے ایک حصے کی تکلیف پوری قوم محسوس کرتی ہے۔ قرآن مجید میں مظلوموں ، مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ کرہ ارض پر کہیں بھی مظلوم ہوں ،ان کے لئے جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ،گھوڑوں کو ہمہ وقت تیار رکھنے کا حکم دیا گیا ہے،اللہ کے نظام کو نافذ کرنے کے حکم دیا گیا ہے لیکن صد افسوس کہ عالم اسلام دنیا کی رنگینیوں میں گھرا،ان احکامات کو فراموش کر چکا ہے۔ قرآن واضح طور پر فرماتا ہے کہ یہود و نصاری قطعا تمہارے دوست نہیں ہو سکتے لیکن بد نصیبی دیکھئے کہ ہم اس وقت ہر معاملے میں ان کے سامنے دوزانوں بیٹھے ہیں، خواہ جدید علوم ہوں یا دفاعی صلاحیت،ہماری نظریں ان کی طرف ہی اٹھتی ہیں۔حد تو یہ ہے کہ جو دفاعی سازوسامان مسلم ممالک کو ملتا ہے،اس سے کہیں جدید ہتھیار یہ ممالک اپنے لئے تیار کر چکے ہوتے ہیں حتی کہ جو ہتھیار مسلم ممالک کو ملتے ہیں،ان کا کنٹرول بھی انہی ممالک کے ہاتھ میں رہتا ہے ،چاہیں تو بوقت ضرورت ہتھیار روبہ کار آئیں نہ چاہیں تو ٹھس۔
اس پس منظر میں غزہ کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیںتو ذمہ داران کی ماسوائے اچھل کود کے کچھ نظر نہیں آتا،یوں تو خودساختہ مہذب ملک ہونے کے باوجود،انسانی حقوق کے علمبردار کہلوانے کے باوجود،ان ممالک کے بااختیار ارباب کو غزہ میں انسانی خون اور نسل کشی دکھائی نہیں دے رہی۔ جنگ بندی قرارداد منظور ہوئے بھی دو ماہ ہو چکے لیکن اسرائیلی بربریت رکنے کا نام نہیں لے رہی بلکہ مسلسل اس میں اضافہ ہو رہا ہے اور اسرائیلی مذہبی اکابرین صیہونی افواج کو غزہ میں محصور مسلمانوں کو مکمل طور پر تہ تیغ کرنے کے لئے اکسا رہے ہیں۔ ان کی نظر میں یہ جواز کافی ہے کہ اگر ان میں کوئی ایک بھی شخص زندہ بچ گیا تو وہ اسرائیل سے انتقام لے گا لہذا یہاں کے کسی ایک فرد کو بھی زندہ رہنے کا حق نہیں ہے۔ دوسری طرف غزہ کے مسلمان دبتے دبتے رفح کی
دیوار سے جا لگے ہیں لیکن ان کی بدقسمتی کہ انہیں اس دیوار کو پھلانگنے کی بھی اجازت نہیں بلکہ ایسی جرآت رندانہ کا مظاہرہ کرنے والے کو مصری افواج تشدد کا نشانہ بنا کر دوبارہ غزہ میں دھکیل رہے ہیں یا انہیں پابند سلاسل کیا جا رہا ہے ۔غزہ کے مسلمانوں کو رفح تک دھکیلنے کے بعد،اسرائیلی فوج ان کا تعاقب کرتے ہوئے ،رفح پر دھاوا بولنے کے پر تول رہی ہے جبکہ جواب میںمصری حکام سوائے تنبیہ کرنے ،کوئی عملی اقدام اٹھانے سے گریزاں ہیں۔ امریکہ تاحال اسرائیل کو رفح پر حملہ کرنے سے روکنے میں اس وقت تک کامیاب ہوا ہے کہ جب تک امریکی نیشنل سیکیورٹی مشیر جیک سلیمان سعودی عرب و اسرائیل کا متوقع دورہ نہیں کر لیتے۔ سوال مگر یہ ہے کہ نیشنل سیکیورٹی مشیر کے دورے کے بعدکیا اسرائیل اپنی بربریت سے باز رہے گا ؟بالخصوص جب نیشنل سیکورٹی مشیر کا جھکائو واضح طور پر اسرائیل کے حق میںہے اور وہ اسرائیلی جارحیت کو حق بجانب سمجھتے ہیں،معاملات دن بدن انتہائی گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں لیکن اقوام عالم اپنا کردار ادا کرنے میں بری طرح ناکام دکھائی دے رہی ہے۔امریکہ،یورپ،برطانیہ و دیگر ممالک میں عوام و طلباء فلسطین میں جاری نسل کشی پر بھرپور احتجاج کرتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ ان ممالک کی حکومتوں کے کان پر جوں تک رینگے،حد تو یہ ہے کہ امریکہ کے متوقع صدر ٹرمپ اس معاملے پر انتہائی جارحانہ موڈ میں دکھائی دے رہے ہیں اور انہوں نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ان کے حکومت میں آتے ہی،ان طلباء سے سختی کے ساتھ نپٹا جائے گا۔لہذا یہ سمجھنا کہ امریکہ غزہ کے معاملے پر اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں سنجیدہ ہے،سراب میں رہنے کے مترادف ہے کہ ٹرمپ اپنے پہلے دور میں بھی،عرب ریاستوں کے بازو مروڑنے کی بھرپور کوشش کر چکے ہیں۔یہ ٹرمپ کی کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ دہائیوں سے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے والے مسلم ممالک بتدریج،ابراہم معاہدے کے تحت ،مسئلہ فلسطین کو فراموش کر کے، اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کر رہے تھے،ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آتے ہی،یہ عمل وہی سے شروع ہو گا جہاں سے منقطع ہوا تھا،تب مشرق وسطی کی کون سی ریاست اس سے منکر ہو سکے گی کہ تقریبا تمام ریاستوں کی حکمرانی براہ راست یا بلاواسطہ امریکی آشیرباد سے ہی ممکن ہے؟اولا عرب ریاستوں کی سفارتی کوششوں سے یہ امید تو تھی کہ عالمی برادری اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں کامیاب ہو جائیگی کہ اس وقت روس و چین کی حمایت بھی مسلم ریاستوں کو حاصل تھی لیکن افسوس کہ اس حمایت کے باوجود،غزہ میں نسل کشی ہنوز نہیں رک سکی۔یہاں یہ امر برمحل ہے کہ جنگ بندی کے حوالے سے حماس کے اکابرین نے، سخت شرائط ہونے کے باوجود یکطرفہ اس معاہدے کو تسلیم کر لیا ہے لیکن اسرائیل ،اس کو کمزوری سمجھتے ہوئے آخری حد تک جانے کی کوششوں میں مصروف ہے، اسے کسی عالمی دبائو کی کوئی پرواہ ہے نہ انسانیت،اس کے جوتے کی نوک پر۔ شنید ہے کہ آنے والے دنوں میں روس و چین مشرق وسطیٰ پر گفتگو کا ارادہ رکھتے ہیں،کیا صرف اس گفتگو سے ،غزہ میں بہنے والا خون اور نسل کشی رک جائے گی؟ یا اس کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اس گفتگو کی آڑ میں اسرائیل کو مسلسل وقت میسر رہے اور وہ غزہ میں جنگی جرائم جاری رکھے؟ بہرکیف بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ انسانی حقوق کی علمبردار، امن عالم کی خود ساختہ لیکن متعصب غیر مسلم طاقتیں، اسرائیلی ظلم و ستم پر سوائے اچھل کود اور آنیاں جانیاں کے عملی طور پر کچھ کرنے کے موڈ میںنہیں۔