سپیشل رپورٹ

فلسطین نواز مظاہرین احتجاج کے بھوکے تھے، ماہرین کی انوکھی منطق

امریکا میں ماہرینِ عمرانیات اور ماہرینِ نفسیات نے کہا ہے کہ امریکا کی بیشتر بڑی جامعات میں فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت میں ہونے والے حالیہ مظاہرے دراصل یہ ظاہر کرتے ہیں کہ طلبہ احتجاج کے بھوکے تھے۔

روزنامہ نیو یارک پوسٹ کی ایک خبر کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا اور اس وبا کے دوران نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن کے بعد سے اب تک نئی نسل کو کھل کر جذبات کا اظہار کرنے کا معقول موقع نہیں ملا تھا۔

غزہ کا معاملہ جب شدت اختیار کرگیا تو طلبہ کے جذبات میں بھی ابال اور جوش آیا اور وہ فلسطینیوں کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔

سائیکیاٹرسٹ کیرول لبرمین نے بتایا کہ طلبہ ایک مدت سے ترس رہے تھے کہ کسی نہ کسی طور جذبات کا کھل کر اظہار کرنے کا موقع ملے۔ غزہ کی صورتِ حال نے انہیں یہ موقع بخوبی فراہم کردیا۔ اسرائیل کے اقدامات پر دنیا بھر میں تنقید کی جارہی ہے۔ امریکا میں یہ معاملہ باضابطہ احتجاج تک جا پہنچا۔
کیرول لبرمین کا کہنا تھا کہ امریکا کی متعدد ریاستوں میں طلبہ فلسطینیوں کی حمایت میں نکل تو آئے ہیں مگر اُنہیں خود بھی معلوم نہیں کہ وہ کسی تحریک کا حصہ ہیں یا نہیں اور یہ کہ اُن کے احتجاج کا بنیادی مقصد کیا ہے۔

نیو یارک پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے کرنے والے نوجوانوں کی اکثریت کو اُن نعروں کا مفہوم بھی معلوم نہ تھا جو وہ لگارہے تھے۔ ان کے احتجاج میں صرف جذباتیت نمایاں تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button