ColumnTajamul Hussain Hashmi

قائد اعظمؒ ہوتے تو پاکستان کیسا ہوتا

تجمل حسین ہاشمی
25 دسمبر کو قائد کی پیدائش کا دن عزت و احترام سے منایا گیا۔ 15نومبر 1942ء کے خطاب میں ایسے الفاظ کہے جو اس وقت موجود معاشی و سیاسی حالات کے لیے سبق آموز ہیں ۔
قائد نے فرمایا: ’’ میں آپ کو مصروف عمل ہونے کی تاکید کرتا ہوں ۔ کام ، کام اور بس کام۔ سکون کی خاطر، صبر و برداشت اور انکساری کے ساتھ اپنی قوم کی سچی خدمت کرتے جائیں‘‘۔
ایک نجی اخبار نے قائد سے محبت کا خوب صورت اظہار کیا، موجودہ دور میں قائد حیات ہوتے تو ملک کیسا ہوتا، کے سوال پر مختلف لوگوں کے جذبات اور ان کے خیالات کو حصہ بنایا، میں نے ان خیالات کو پڑھا اور نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش میں تھا کہ اس وقت پاکستان کی کل آبادی 25کروڑ سے زیادہ ہے اور اس کا 63فیصد جوان ہے جس نے قیام پاکستان کے حالات کو صرف کتابوں یا پھر اپنے دادا کی زبانی سنا ہے، ایسے جوانوں کا اپنے قائد سے متعلق اظہار خیال پڑھ کر راحت محسوس ہوئی کہ جوان نسل کو اپنے لیڈر قائد اعظمؒ پر مکمل بھروسہ، کمال یقین ہے، ان کا خیال ہے اگر قائد اعظمؒ حیات ہوتے تو ملک کو ایسے حالات کبھی درپیش نہیں ہوتے، ان کے خیالات کو پڑھنے کے بعد لوگوں کا مثبت رویہ سامنے آیا۔ اس وقت لوگوں کو دو بڑی مشکلات کا سامنا ہے، پہلے نمبر پر خراب معاشی صورتحال، جس کی وجہ سے لوگ بے روزگار ہیں اور دوسرے درجے پر نا انصافی ہے، جس سے معاشرے کا ہر فرد متاثر ہو رہا ہے، لوگوں نے اپنے جذبات کے اظہار میں کہا کہ قائد اعظم محمد جناحؒ حیات ہوتے تو یقینا ملک کو ایسے معاشی اور معاشرتی مسائل درپیش نہیں ہوتے اور پاکستان کا نام پوری دنیا میں کامیاب ریاست کی فہرست میں ہوتا، یقینا اس میں کوئی دو رائے نہیں، قائد کے فرمان مشعل راہ ہیں، ان کو پڑھیں تو آپ کو بھی یقین آ جائے گا۔ قائد کے فرمان کا آدھا حصہ دوبارہ لکھ رہا ہوں:’’ سکون کی خاطر، صبر و برداشت اور انکساری کے ساتھ اپنی قوم کی سچی خدمت کرتے جائیں‘‘۔
گزرتے حالات کو سامنے رکھ کر تھوڑا غور کریں کہ ان الفاظ میں کتنی گہرائی ہے۔ آج 76سال ہو چکے ہیں، بنگلہ دیش ہم سے جدا ہوا، چار جنگوں کا سامنا کیا، ہزاروں سول اور عسکری نوجوانوں نے وطن کی سلامتی کے لیے قربانیاں دی۔ میں ماضی کی سیاست پر بات نہیں کرتا لیکن گزشتہ 40سالوں کے جمہوری بادشاہوں کے کارناموں کی سزا آج 25کروڑ لوگ بے روزگاری کی صورت میں برداشت کر رہے ہیں، لاقانونیت انتہا پر ہے، معاشرہ بگاڑ، عدم مساوات کا شکار ہو چکا، دولت کی تقسیم غیر منصفانہ ہے ، وسائل کی تقسیم کی جنگ جاری ہے ، طاقت وار گلی محلوں پر قابض ہیں ، سرکاری زمینوں پر قبضہ مافیا قابض ہے، وڈیرے، چودھری اپنے ڈیروں پر اپنی عدالتیں ہی لگا لیتے ہیں، مولویوں نے مذہب کو فرقوں میں تقسیم کر دیا، جھوٹی مفاہمت سے وسائل پر قبض ہو چکے ہیں، اربوں روپے کی منی لانڈرنگ، بیرون ملک اربوں ڈالر کے پلازوں کی کہانیاں۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے پہلے ہی فرمایا دیا تھا کہ مصروف عمل رہو، کام کرو صبر و برداشت اور انکساری کے ساتھ قوم کی خدمات کی تلقین کی، لیکن قائد کے سب فرمان اور دی گئی قربانیاں کسی کو یاد نہیں رہیں، صرف اقتدار کا حصول، ملک پر اپنے قبضے کو قائم رکھنے کے لیے آئینی تبدیلیاں کئی سالوں سے کی جا رہی ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی زندگی پانچ ادوار میں منقسم ہے، پہلا 20سالہ دور جو 1876ء سے1896ء کا ہے، جس میں تعلیم کا حصول تھا اور دس سالہ دور وکالت میں اپنا نام بنایا، باقی زندگی مفاہمت میں گزاری، جس کا نتیجہ ایک آزاد ریاست پاکستان کا قیام عمل میں آیا، قائد کا انتقال اور وراثتی اثاثہ دنیا کے سامنے ہے۔ آج خود کو لیڈر کہنے والوں نے پورے معاشی نظام، کاروبار کو جکڑ رکھا ہے ایسے لیڈروں سے تو سجھان سنکھ اچھا تھا جس نے ذاتی مال سے اپنے عوام کے لئے فلاحی کام کئے، جس نے اپنے ذاتی مال سے عوامی منصوبے بنائے۔ لیکن ہمارے ہاں کیا چلتا رہا، عوام کے ٹیکس اور قرضوں سے تعمیراتی منصوبوں کو اپنی ذات سے منسلک کیا جاتا رہا، پیلی ٹیکسی، موٹر ویز، بجلی کے منصوبے، عوامی ٹیکس اور بیرونی قرضوں کے مرہون منت تھے، لیکن باز رہنمائوں نے تو نعروں اور تبدیلی سے کام چلایا ، لیڈروں اور کاروباری شخصیات کی ذاتی جیب سے کوئی ایک فلاحی منصوبہ قوم کو نصیب نہیں ہوا لیکن اربوں روپوں کی سبسڈی حکومتی خزانوں سے مسلسل جاری ہے ، یہ 63فیصد کمزور اور باقی فیصد لوگ وسائل پر قبضہ ہیں۔ ہمارے لیڈر قائد اعظمؒ نے ساری زندگی اصولوں پر گزار دی لیکن ریاست کا ایک روپیہ بھی ذاتی استعمال نہیں کیا اور آج ریاست کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا شاید قائد کو انداز تھا اس لیے قائد اعظمؒ نے بار بار ایسی نصیحتیں کی ہیں، کئی کاموں سے منع کیا، جو اس وقت حقیقت بن ریاست کو معاشی کمزور کر چکے ہیں اور قوم مقروض ہو چکی ہیں لیکن پھر بھی بادشاہوں کو سکون نہیں اور باریوں کے لیے جوڑ توڑ جاری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button