ColumnTajamul Hussain Hashmi

چہروں کی سیاست

تجمل حسین ہاشمی
گزشتہ چند روز سے اپنے والد کے آپریشن کیلئے فکرمند تھا۔ اللہ پاک کے فضل سے خیر سے آپریشن مکمل ہوا۔ ماں تو پہلے ہی دنیا سے چلی گئی تھی۔ اس وقت تو اپنی جیب میں کوئی پیسہ بھی نہیں تھا اور سچ پوچھیں تو مجھے سمجھ نہیں آئی کہ ماں اتنی جلدی دنیا سے چلی جائیگی، اللہ پاک سب کو آسانیاں عطا کرے۔ لیکن میں یہاں چند باتیں کرنا چاہوں گا۔ اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ کراچی میں صحت کے حوالہ سے مرکزی حکومت اور خاص کر حکومت سندھ نے شعبہ صحت میں کافی بہتر ہسپتال قائم کئے ہیں اور ان کا انتظام بھی کافی بہتر ہے، میں نے چند روز ڈائو ہسپتال میں اپنے والد کے ساتھ گزارے۔ یقین کریں انتہائی قابل تعریف اور بہترین انتظام دیکھا۔ جناب پروفیسر ڈاکٹر نوید جو کہ قابل سرجن ہیں، جناب کی فیس انتہائی مناسب تھی جو غریب آرام سے ادا کر سکتا ہے۔ پروفیسر صاحب اگر کسی پرائیویٹ ہسپتال کو وقت دیں تو یقیناً کئی ہزار روے فیس کما سکتے ہیں۔ نرسنگ سٹاف کی کمال تربیت کی گئی ہے، میں نے وہاں تجربہ کار سٹاف پایا۔ ڈائو ہسپتال کی اعلیٰ مینجمنٹ جیسے قابل افسر سرکاری اداروں میں بٹھا دیئے جائیں تو ملک کے حالات یکسر تبدیل ہو جائیں گے۔ میں میڈیا مالکان کے کردار کے حوالہ سے کافی مایوس ہوں کیوں کہ میڈیا نے ریٹنگ کے چکر میں اچھی خبروں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ اچھے کاموں کو کوئی پذیرائی نہیں دی جاتی۔ ہر وقت منفی مواد سکرین پر دکھایا جارہا ہے۔ ایک ٹائم تھا جب جناب محترم اشفاق احمد جیسے قابل لوگ ٹی وی پر بچوں کے سوالوں کے جوابات دیتے اور ان کی تربیت کرتے تھے۔ آج سب کچھ بریکنگ نیوز نے ختم کر دیا ہے۔ مجھے کئی دوست کہتے ہیں تم کیا آرٹیکل لکھنے میں پڑ گئے ہو، اتنی لمبی تحریریں کون پڑھتا ہوگا۔ آج لوگ بریکنگ نیوز سننا چاہتے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں الیکٹرانک میڈیا کو خوب پذیرائی دی گئی، انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی جگہ کو بریکنگ نیوز نے ختم کر دیا، میڈیا نے منفی خبروں، جھوٹی سچی کہانیاں دکھا کر معاشرہ کے چہرے کو مزید زخمی کر دیا ہے۔ منفی رویوں نے ایسا جکڑا ہے جس سے نجات بہت مشکل ہے، مشرف دور کے بعد تحریک انصاف کی حکومت میں یو ٹیوبر کی آزادی نے سچ اور جھوٹ کے فرق کو بھی ختم کر دیا۔ سوچوں کو تبدیل کرنے کا آلہ اب ہر فرد کے ہاتھ میں ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو کنٹرول کرنا آسان ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنا مشکل کام ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف کو اس بات کی سمجھ تھی کہ میڈیا کنٹرول ہو جائیگا لیکن سوشل میڈیا ہی اس کے نظریے، سوچ کی آبیاری کرے گا اور ایسا دیکھا بھی ہے۔ میڈیا کے یک طرفہ کردار نے معاشرہ میں تفریق اور اضطراب کو جنم دیا، اس اضطراب کی پاداش میں تحریک انصاف کی قیادت سے غلطی ہوئی۔ سارا دن دھماکے دار خبریں شائع ہوں گی تو معاشرہ میں برداشت، تحمل کیسے باقی رہ سکتے ہیں۔ اس وقت ملک کو کئی بنیادی مسائل کا سامنا ہے، مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما سابقہ گورنر محمد زبیر نے ٹی وی پروگرام میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں نے میاں نوازشریف کو کہا ہے کہ اس دفعہ الیکشن ماضی سے بہت مختلف ہوں گے، چینی 10روپے، آٹا سستا کرنے سے حالات بہتر نہیں ہوں گے، ہمیں معاشی پلان دینا ہوگا، سخت محنت کی ضرورت ہوگی۔ مرکزی رہنما کی باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ پچھلے 40سال سے ملک کی معاشی سمت کو درست نہیں کیا گیا بلکہ ایک دوسروں کیخلاف مقدمات بنائے گئے اور ایسے پروجیکٹ قائم کئے گئے جہاں ملکی مفاد سے زیادہ ذاتی مفادات اور عوام کو وقتی سہولیات دے کر اپنے اقتدار کے تسلسل کو جاری رکھا گیا۔ سیاسی حلقوں میں نوازشریف کی آمد کو نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں۔ سینئر صحافی مظہر عباس کا ایک پروگرام میں کہنا تھا کہ عوام 17ماہ کی حکومت کے چہرے دیکھنا نہیں چاہتے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے پارٹی منشور کو کتابوں تک محدود رکھا، اپنے ذاتی منشور کا نفاذ کئے رکھا۔ محب وطن اس وقت پریشان ہے کہ ملک کے حالات کیسے بہتر ہوں گے، اس کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ روزگار کے ساتھ ساتھ انصاف اور صحت جیسی بنیادی سہولتیں کب میسر ہوں گی۔ مجھے یاد ہے جب مصطفیٰ کمال کے پاس کراچی کی میئر شپ تھی، فنڈز کا صحیح استعمال تھا، انہوں نے کے ایم سی کے تمام بند ہسپتالوں کو عوام کیلئے چالو کیا، کئی پروجیکٹ تعمیر کئے۔ بات بندہ کی ایمان داری اور محنت پر ختم ہوتی ہے۔ منہ سے حب الوطنی اس وقت اچھی لگتی ہے جب آپ عوامی فنڈز کا صحیح استعمال اور قانون کی حکمرانی کی پاسداری کرتے ہیں۔
لیکن جب قربانی کی باری آتی ہے تو سیاست دانوں سے لیکر بیوروکریسی تک کو اپنے بچوں کا مستقبل اور اپنا پیٹ یاد آجاتا ہے۔ مصطفیٰ کمال نے لوگوں کو بہتر سہولیات مہیا کیں، لیکن پھر وہی چوری، لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے، اربوں روپے کی ادویات میں خرد برد جاری ہے۔ مقتدر حلقوں کو نظام کی بہتری کیلئے ایسے افراد کو آگے لانا ہوگا جو ایمان دار ہوں، جن کے کوئی ذاتی مفادات نہ ہوں۔ فرح گوگی جیسی شخصیات کیخلاف کارروائی بنتی ہے، جو ٹرانسفر پوسٹنگ پر کروڑوں کما گئے، جنہوں نے نااہل افراد کو سیٹوں پر بٹھایا وہ کیسے نظام بہتر کر سکتے ہیں۔ اس وقت ملک کو ایسے افسروں کی ضرورت ہے جو سیاسی دبائو کو خاطر میں نہ لائیں اور ملک کی خدمت میں بلا تفریق فیصلے کریں۔ اس وقت اداروں کی طرف سے سخت کارروائیاں جاری ہیں جن کا نتیجہ یہ نکلا کہ مہنگائی میں مزید اضافہ رک گیا ہے۔ ڈالر، اجناس کی سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی کرنے والے کی نیند پوری نہیں ہورہی۔ مہنگائی میں اضافہ یا تو انٹرنیشنل مارکیٹ کی وجہ سے ہوتا ہے یا پھر ملک میں موجود ان طاقتوروں کی ملی بھگت سے ممکن ہوتا ہے جو سٹاک کو ذخیرہ کرتے ہیں۔ کراچی سونے کی چڑیا ہے۔ سرکار کو ڈیری فارمنگ اور ہول سیلر، منڈی کیخلاف کارروائی کی ضرورت ہے۔ اس سیکٹر کا حکومتی محصولات میں کوئی خاص کردار نہیں۔ لیکن دودھ کی قیمتوں میں اضافہ سے لوٹ مار جاری ہے۔ اداروں کو سخت کارروائیوں کا تسلسل جاری رکھنا چاہئے۔ اگر تسلسل میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوئی یا سیاسی جماعتوں کی طرف سے کی گئی تو یقیناً ملک میں بہتری کی امید کی کرن میں روشنی نہیں رہے گی، محب وطنوں کیلئے سستی روٹی میسر نہیں رہے گی۔ میری طرف سے سب کو سلام، اللہ پاک سب انسانوں پر اپنا فضل کرم رکھے، امین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button