ColumnImtiaz Ahmad Shad

پیغام مصطفیٰؐ

امتیازاحمد شاد
ربیع الاول کا مہینہ عاشقان مصطفی ٔ کے لئے کائنات کی سب سے بڑی عید ہے۔ بلاشبہ کائنات کی تاریخ میں انسانیت کی خزاں رسیدہ چمن کے لئے آقائے نامدارؐ کی آمد سے بڑھ کر کوئی بہار نو نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مومن کا دل آپ ٔ کی محبت کے چراغ ہی سے روشن رہتا اور اس کا باغ آرزو، عقیدت رسول کی خوشبووں ہی سے مہکتا اور لہلہاتا ہے۔ آپؐ ہی کی یاد سے مسلمانوں کے دل کی کلیاں کھلتیں، مسکراتیں اور ذکر رسولؐ کی شادابی سے ان کے دل کی دنیا سرسبز و شاداب اور آباد رہتی ہے۔ امت اسلامیہ کا ایک گنہگار سے گنہگار شخص بھی آپؐ پر قربان ہونے کو سعادت سمجھتا ہے۔ لیکن کبھی ہم نے اس حقیقت پر بھی غور کیا کہ آپؐ کی ولادت با سعادت سے صدیوں کی جہالت کے اندھیرے جس علم کی روشنی سے ختم ہوئے آج ہم اس تعلیم سے کوسوں دور ہیں۔ کبھی ہم نے اس بات پر غور کیا کہ امت مسلمہ کے زوال کے اسباب میں تعلیم سے دوری ایک بنیادی سبب ہے۔آپؐ نے فرمایا: ’’ بلاشبہ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘۔ اس کا مطلب ہمارے آقاؐ کو اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو تعلیم دینے اور کائنات میں تعلیم عام کرنے کے لیئے بھیجا تاکہ جہالت دور اور انسان کائنات کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہوں۔ تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ علم کی طلب کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے‘‘۔ ( مشکوٰۃ شریف) ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ علم کا سیکھنا ہر مومن پر فرض ہے اس سے مراد روزہ، نماز، حلال و حرام اور حدود و احکام کی معرفت حاصل کرنا ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا : ’’ جو شخص علم کی طلب میں نکلا وہ گویا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے وطن واپس لوٹے‘‘۔ مشکوٰۃ شریف) ۔ افسوس صد افسوس ہم نے پیغام مصطفیؐ کو سمجھا ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ زوال کا شکار ہوئی اور پاکستان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مالا مال ملک ہونے کے باوجود تباہی کی کشتی میں ہچکولے لے رہا ہے ۔ ربیع الاول کے اس بابرکت مہینے میں ہمیں جائزہ لینا ہو گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔ اقتصادی سروے 21۔2020 کے مطابق پاکستان میں خواندگی کی شرح 62.8فیصد ہے۔ جو جنوبی ایشیائی ممالک میں کم ترین ہے۔ اقتصادی سروے 2022 ء کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران ملکی جی ڈی پی کا صرف 1.7فیصد تعلیم پر خرچ ہوا۔ پاکستان میں دو کروڑ 30لاکھ بچے سکول جانے سے محروم ہیں۔ پاکستان کی آبادی میں اضافے کی شرح 1.9فیصد سالانہ ہے۔ جبکہ شرح خواندگی میں اضافہ تقریباً ایک فیصد سالانہ کے حساب سے ہورہا ہے۔ یہاں شرح خواندگی میں کمی کی بہت ساری دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ طلبہ و طالبات کی معاشی صورتحال ہے۔ والدین کی ایک کثیر تعداد ایسی ہے جو اپنے مالی وسائل کے باعث ذہین اور ہونہار بچوں کو مزید تعلیم نہیں دلا سکتے نتیجتا اچھے گریڈز کے باوجود بچوں کو تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑتی ہے۔ یہ کام چونکہ ریاست کی ذمہ داری تھی کہ وہ نسل نو کو تعلیم ایسے زیور سے آراستہ کرتی جس کا واضح ذکر آئین پاکستان میں ہے مگر ریاست کو اس نہج تک پہنچا دیا گیا کہ وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس کے باوجود اسلام کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ درد دل رکھنے والے مخیر حضرات کو احساس دلاتا ہے کہ انسانیت کی خدمت میں نجات ہے، تاہم بہت سے افراد، انفرادی اور اجتماعی طور پر خدمت خلق کرتے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کو عام کرنے کے لئے الخدمت فائونڈیشن اپنے الفلاح سکالر شپس پروگرام کے ذریعے ہونہار نوجوانوں کے لئے امید کی ایک کرن ہے۔ الخدمت الفلاح سکالر شپس الخدمت فائونڈیشن کے شعبہ تعلیم کاہی ایک حصہ ہے۔ جس کے تحت گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے مالی دشواریوں کا شکار ہزاروں ذہین طلبہ و طالبات کو حصول تعلیم میں مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ میرے لئے ربیع الاول کے اس مہینے میں پیغام مصطفیؐ کو عملی جامہ پہنانے والے افراد سے ملنا کسی انعام سے کم نہیں، جنہوں نے ماہ ربیع الاول کو تعلیم عام کرنے کے ماہ کے طور پر منانے کا عزم کر رکھا ہے۔ اس مشن کا آغاز الخدمت فائونڈیشن کے نائب صدر محمد عبدالشکور نے اپنے چند علم دوست اور خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ساتھیوں کے ساتھ ملکر ایک مثبت اور تعمیری سوچ کے ساتھ 1998ء میں کھاریاں سے کیا۔ ذہین اور مالی مشکلات کے شکار طلبہ و طالبات کا میرٹ پر انتخاب کیا جاتا ہے اور پھر انہیں ہائر ایجوکیشن کے لئے وظائف فراہم کئے جاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر الفلاح سکالر شپس نے وظائف کا سلسلہ اتنا باوقار بنا رکھا ہے کہ کسی مرحلے پر طالب علم کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی۔ اس وقت الفلاح اسکالر شپ اسکیم کے تحت وطن عزیز کے چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے 936ہونہار اور مستحق طلبہ و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے بلاتفریق رنگ و نسل، مذہب و ذات اور سیاسی وابستگی تعلیمی وظائف کی فراہم کیے جارہے ہیں۔ اب تک جن سکالرز نے الفلاح سکالر شپ سکیم کی مدد سے اپنی تعلیم مکمل کی ان میں 604ڈاکٹر،710انجینئر، 1150بی ایس آنرز/ماسٹرز، 256ایسوسی ایٹ انجینئرنگ،528 گریجوایشن اور2021انٹر شامل ہیں۔ اس طرح آج تک مجموعی طور پر5269ذہین اور ہونہار طلبہ و طالبات کو وظائف فراہم کئے جا چکے ہیں۔ یہ کامیاب سکالرز اس وقت نہ صرف اپنے خاندان کی کفالت کر رہے بلکہ مختلف انتظامی اداروں اور دیگر شعبہ جات زندگی میں بھی احسن طریقے سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ سال 23۔2022 میں 1336سکالرز کو 7کروڑ 44لاکھ کے وظائف مہیا کئے گئے جبکہ اب تک مجموعی طورپر 43کروڑ 69 لاکھ کے وظائف 5269سکالرز کو مہیا کئے جا چکے ہیں۔ الفلاح سکالر شپ وظیفہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ پورا سال طالب علم کی کارکردگی کا جائزہ لیتی اور راہنمائی بھی فراہم کرتی ہے۔ ان تفصیلات کو جاننے کے بعد اطمینان قلب ہوا کہ وطن عزیز کے اندر ایسے افراد اور ادارے موجود ہیں جو پیغام مصطفیؐ کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ایک اعزاز سمجھتے ہیں۔ یقینا اور بھی بہت سے ایسے ادارے کا م کر رہے ہیں، جن کا مقصد تعلیم کو عام کر کے پاکستان کو اقوام عالم کی صف میں لاکھڑا کرنا ہے۔ ریاست پاکستان اگر اس ماہ ربیع الاول کو تعلیم کا سال قرار دے کر تعلیم عام کرنے کا اعلان کر دے تو یقینا پاکستان کو جن مشکلات کا سامنا ہے وہ ختم ہو سکتی ہیں۔ خوش قسمتی ہے کہ وطن عزیز کا شمار ان اقوام میں ہوتا ہے جہاں نوجوان آبادی کا سب سے زیادہ حصہ ہیں۔ قوم کو علم و ہنر سے آگاہ کرنا ریاست کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ ماہ ربیع الاول کا پیغام آج کے مسلمان کے لئے اگر کوئی ہو سکتا ہے تو یہ کہ وہ اپنے معاملات اور طرز حیات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن زندگی کو داخل کر کے جنت کا حقدار بن جائے، اور علم سے مستفید ہو کر انسانیت کی خدمت کرے۔ موجودہ مشکلات سے نکلنے کا واحد حل نبی اکرمؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہے۔ کامیابی فقط ان کے نصیب میں ہے جو سنت نبویؐ کو اپنی زندگی پر نافذ کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button