Columnمحمد مبشر انوار

خالصتان اور عالمی برادری

محمد مبشر انوار( ریاض)
انسان بنیادی طور پر آزاد پیدا کیا گیا ہے لیکن معاشرتی نظام، اسے کچھ حدود و قیود کا پابند کرتا ہے لیکن اس کے باوجود کوئی گروہ /قوم اجتماعی طور پر اپنی حیثیت غلام سمجھتی ہے، تو اس سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے کا حق رکھتی ہے۔ تاہم غلامی سے نجات کبھی بھی طشتری میں سجی سجائی نہیں ملتی بلکہ اس کے لئے سخت جدوجہد کرنا پڑتی ہے، قربانیاں دینا پڑتی ہیں، متحد ہو کر اپنے آقائوں کو آزادی دینے پر مجبور کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف حاکم کبھی بھی گوارا نہیں کرتا کہ اس کی محکوم، آزاد ی حاصل کر سکے، حیلوں بہانوں سے ایسی کسی بھی جدوجہد کا سر کچلا جاتا ہے تا کہ نہ صرف حاکمیت قائم رہے بلکہ کسی بھی دوسرے گروہ میں آزادی کی خو پیدا نہ ہو سکے۔ کہیں آزادی کا مطالبہ کرنے والوں میں اپنے جاسوس داخل کئے جاتے ہیں، تو کہیں سرکردہ باغی رہنماؤں کو خرید کر تحریک آزادی کا زور توڑ کیا جاتا ہے تو کہیں نہ بکنے، نہ جھکنے والوں کی جان لی جاتی ہے۔ البتہ یہ ایک ازلی حقیقت ہے کہ قوموں کی زندگی میں ایسے لمحے آتے ہیں کہ جب وہ آزاد ہو سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کے رہنماؤں کی چھوٹی سی غلطی، بعد ازاں ان کی قوم کے لئے سوہان روح بن جاتی ہے اور بسا اوقات وہ لمبے عرصے تک ایسا موقع ڈھونڈنے میں ناکام رہتے ہیں اور پوری قوم صدیوں تک اس ایک لمحے کی غلطی کی سزا بھگتتی ہے۔ ایسی ہی صورتحال آزادی ہند کے وقت دیکھنے کو ملی تھی کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر کی ایک بڑی سکھ قوم کو پاکستان کے ساتھ ملنے کی دعوت دی تھی لیکن تب کے سکھ رہنماؤں نے اس پیشکش پر بوجوہ فوری فیصلہ نہ کیا اور پس پردہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر رہنے کو ترجیح دی۔ بعد ازاں حالات نے ثابت کیا کہ قائد اعظمؒ کی پیشکش ٹھکرا کر سکھ قوم کے رہنماؤں ماسٹر تارا سنگھ و دیگر نے بہت بڑی غلطی کی تھی، جس کی سزا وہ آج تک بھگت رہے ہیں کہ خالصتان تحریک کئی دہائیوں سے جاری ہے لیکن ہندو بنیا کسی بھی صورت سکھوں کو الگ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ہندو بنئے کو معلوم ہے کہ اگر آج کے ہندوستان میں ایک قوم کو بھی آزادی دی، تو یہ ہندوستان کے حصے بخرے کرنے کے لئے کافی جواز ہو گا اور دیگر قومیتیں/اقلیتیںاس کی بنیاد پر آزادی کی طلبگار ہوں گی، جو ہندوستان کے موجودہ حکمرانوں کی کسی طور قبول نہیں۔ اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگانے والی موجودہ انتہا پسند حکومت، برصغیر کے تاریخی حقائق سے نظریں چراتے ہوئے، اس کوشش میں ہے کہ کسی بھی طرح ہندوستان کے طول و عرض میں صرف ایک قوم باقی رہے، وہ یہ بھی بھول چکے ہیں کہ تاریخی طور پر بھارت کے طول و عرض میں بالعموم چھوٹی بڑی ریاستیں قائم رہی ہیں اور یہ مختصر وقت کے لئے کسی ایک حکمران کے تحت رہا ہے۔ تاہم موجودہ دور اور نظام حکومت میں، صدیوں بعد ہندوئوں کو تاریخ میں پہلی بار یہ موقع ملا ہے کہ وہ وہاں کوئی مرکزی حکومت قائم ہے، جس کی رٹ پورے بھارت میں ہے اور بدقسمتی دیکھئے کہ اس نظام میں بھی، حکمرانوں کو اول روز سے ہی ایک طرف آزادی کشمیر کی تحریک کا سامنا ہے تو دوسری طرف نکسل باڑی بھارتی فیڈریشن سے آزادی کے طلبگار نظر آتے ہیں۔ تاحال بھارت نے ان میں کسی بھی قوم کو آزاد نہیں کیا بلکہ ان قومیتوں کو بزور اپنے ساتھ شامل رکھا ہے، کانگریسی حکومت نے بہرکیف کشمیر میں کچھ جمہوریہ انداز ضرور اپنایا اور اپنے ’’ ہم خیال/مراعات یافتہ‘‘ سیاستدانوں کے ذریعہ کشمیری عوام کو ایک عرصہ تک بیوقوف بناتے رہے البتہ پنجاب میں کانگریس کا انداز آمرانہ بلکہ دہشت گردانہ رہا اور اسی طرح نکسل باڑیوں کے ساتھ بھی ایس ہی سلوک روا رکھا گیا۔
1984میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی قیادت میں خالصتان تحریک اپنے عروج پر نظر آتی تھی اور اس وقت اندرا گاندھی اپنی تمام تر سیاسی کوششوں کے، اس تحریک کو دبانے میں ناکام رہی، لہذا ’’آپریشن گولڈن ٹمپل‘‘ کرکے سکھوں کے مقدس گوردوارے پر فوج کشی کردی۔ اس فوج کشی کے نتیجہ میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کے ساتھ ان کے کئی رفقاء کو قتل کر دیا گیا لیکن اس فوج کشی میں حکومت کا نقصان بھی اچھا خاصہ رہا تاہم اندراگاندھی فوری طور پر تحریک خالصتان کی کمر توڑنے میں کامیاب رہی۔ جاٹ سکھوں نے اس کا انتقام اندرا گاندھی سے خوب لیا کہ اندرا گاندھی کے اپنے ہی سکھ حفاظتی گارڈ نے اس کا کام تمام کر دیا لیکن جو نقصان اندرا گاندھی خالصتان تحریک کو پہنچا چکی تھی، وہ ناقابل تلافی تھا۔ خالصتان تحریک ایک لمبے عرصہ تک اٹھ نہیں سکی لیکن درپردہ اپنے زخموں کو بھرنے بھی نہیں دیا ، سکھ قیادت مسلسل اپنی صفوں کو متحد کرتی رہی اور آزادی کا پیغام نئی نسل تک پہنچتا رہا ہے البتہ اس کے انداز اب جدید ہو چکے ہیں کہ سکھ قوم دنیا بھر میں رہنے والے سکھوں کو آزادی کے لئے تیار کرتی رہی ہے۔ بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لئے، سکھوں نے ہر عالمی فورم پر رسائی حاصل کی، بھارتی حکومتوں کے ظلم و ستم سے آگاہ کیا، احتجاج کئے ہیں، عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے لیکن ہنوز اپنی آزادی سے کوسوں دور نظر آتے ہیں۔ آزادی قربانی مانگتی ہے اور سکھ قوم اس کے لئے تیار نظر ہی نہیں آتی بلکہ قربانیوں کی ایک تاریخ رقم کرتی نظر آتی ہے بعینہ جیسے کشمیری قوم قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کر چکی ہے، سکھ ابھی اس شاہراہ پر قدم رکھتے نظر آ رہے ہیں۔ کشمیری مائوں بہنوں نے آزادی کشمیر کے لئے جو قربانیاں دی ہیں، سکھ قوم اس سے ابھی دور ہے لیکن سکھ مردوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دینے سے کبھی بھی اور کہیں بھی گریز نہیں کیا، البتہ جو مصائب کشمیری خواتین اور بچے برداشت کر رہے ہیں، ان سے سکھ قوم کو ابھی واسطہ نہیں پڑا اور اللہ نہ کرے کہ انہیں اس سے واسطہ پڑے لیکن سکھوں کا مقابلہ بھی انہی سے ہے، جن سے دو بدو کشمیری قوم ہے۔ بھارت کی موجودہ حکومت، غیر متعصب مورخ کی نظر میں ایک انتہا پسند اور دہشت گرد حکومت گردانی جائے گی کہ جس کے راج میں اقلیتوں سے انسانیت سوز سلوک روا رکھا گیا، جس نے مذہبی منافرت میں کسی بھی دوسرے مذہب کی عزت و تکریم نہیں کی بلکہ انہیں جبرا ہندو بنانے کی کوششیں کی بصورت دیگر جان گنوانی پڑی۔
مودی حکومت کے کارنامے ساری دنیا میں مشہور ہیں او ر ان کارناموں پر جس طرح مودی کو نوازا گیا ہے، اس نے مودی کے اعتماد میں مزید اضافہ ہی کیا ہے کہ اب مودی سرکار کا حوصلہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ خالصتان تحریک کے سرکردہ رہنماؤں کو غیر ممالک میں سزا دینے تک نوبت جا پہنچی ہے۔ خالصتان تحریک کے وہ کرتا دھرتا، جو بھارت میں جان بچا کر کسی نہ کسی طریقے سے غیر ممالک جا پہنچے، وہاں کی شہریت اختیار کی لیکن اپنے فلسفہ آزادی سے پیچھے نہیں ہٹے، مودی حکومت وہاں بھی ان کی جان نہیں بخش رہی، اور اپنے سفارتی عملہ کے بھیس میں را کے ذریعہ ایسے سرکردہ رہنماؤں کو ختم کر رہی ہے۔ گزشتہ چند مہینوں میں غیر ممالک میں بھارتی قاتلانہ کارروائیوں کے نتیجہ میں خالصتان تحریک کے سرکردہ رہنماؤں کو قتل کر دیا گیا ہے جبکہ صرف کینیڈا نے اپنے شہری ہرپریت سنگھ کے قتل کا نہ صرف سراغ لگالیا ہے بلکہ اس پر سخت ردعمل اور کارروائی بھی کر ڈالی ہے، بھارت کی اس حرکت پر نہ صرف بھارت کو مطلع کیا گیا ہے بلکہ کینیڈا میں متعین بھارتی سفارتی عملہ میں را کے ایجنٹ کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کا حکم بھی دے دیا ہے، جس کے جوا ب میں بھارت نے بھی ایک کینیڈین سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا کہہ دیا ہے۔ شنید ہے کہ دوسری طرف کینیڈا نے بھارتی نژاد کینیڈین شہری ہرپریت سنگھ کے ٹھوس ثبوت دیگر ممالک کو بھی فراہم کئے ہیں، جس کے بعد ان ممالک نے بھی بھارتی کارروائی کی مذمت کی ہے۔ مغربی ممالک نہ صرف انسانی حقوق کے علمبردار ہیں بلکہ اپنے شہریوں کو حقوق کے ضامن بھی ہیں قطع نظر کہ وہ شہری کس ملک یا قوم سے وہاں ہجرت کر کے آیا تھا، اگر وہ وہاں کا رہائشی ہے تو اس کے حقوق کی ضمانت اور ذمہ دار وہاں کی حکومت ہے، کسی بھی آبائی حکومت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ وہاں کے قانون کو پامال کرے، ان کے شہریوں کو قتل کرے ۔ مغربی ممالک تو اپنے شہری کو اس کے آبائی ملک میں بھی انسانی حقوق کی پامالی پر، کھڑی ہو جاتی ہے اور اپنے شہری کا بال بھی بیکا نہیں ہونے دیتی کجا کہ ان کے اپنے ملک میں، کسی دوسری ریاست کا کوئی اہلکار اس کی جان لے لے۔ عالمی برادری کو، بھارت میں ہونیوالی ناانصافیوں، انسانی حقوق کی پامالی اور بالخصوص آزادی کی تحریکوں ، کشمیر، مکتیز و خالصتان، پر اپنا واضح موقف سامنے رکھنا ہوگا تا کہ بھارتی سورما یوں کسی کو ناحق قتل کرنے سے باز رہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button