Ali HassanColumn

بجلی کے بل اور معاشی بحران

تحریر : علی حسن
پاکستان کی معیشت اتنی بہتر نہیں ہے جتنی نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ پیش کر رہے ہیں اور اتنی تو کسی طرح بھی بہتر نہیں ہے کہ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق وہ اپنی کابینہ میں اپنے جوان سال بیٹے کو وزیر کھیل مقرر کر دیں۔ ان کے صاحب زادے کی حلف اٹھاتے ہوئے تصویر سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے۔ پاکستان کا اس وقت اور طویل عرصہ کے لئے مسئلہ نمبر ایک اور اہم ترین مسئلہ معیشت کی بحالی ہے۔ اس حد تک کہ آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل ہی نہیں کیا جائے۔ نگران وزیر اعظم کی خیال میں معیشت افراط زر وغیرہ باعث تشویش نہیں ہیں۔ اسی لئے انہیں نے کہا ’’ ملکوں پر مشکل حالات آتے رہے ہیں، 1970ء میں اسرائیل میں افراط زر ہزار فیصد بڑھی تھی، دنیا نے معدنی وسائل سے اپنی معیشت کو ٹھیک کیا‘‘۔ ان ہی کی کابینہ میں وزیر خزانہ کے عہدے پر بیٹھی ہوئی شمشاد اختر صاحبہ کا بیان ہے’’ معاشی صورتحال اندازے سے زیادہ خراب ہے۔ ڈالر کی وجہ سے بے یقینی اور روپیہ دبائو میں ہے ۔ ہمارے پاس مالی گنجائش نہیں ہے جس کی وجہ سے سبسڈی نہیں دے سکتے۔ آئی ایم ایف معاہدہ ہمیں ورثے میں ملا ہے اس لیے اس پر دوبارہ بات چیت ممکن نہیں ہے۔ اگر آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد نہیں کرتے تو حالات مزید مشکل ہو سکتے ہیں‘‘۔
تمام غیر جانبدار معاشی ماہرین ملک کی صورت حال تشویش ناک اور خطر ناک قرار دیتے ہیں۔ اگر ماہرین تشویش کا اظہار کر رہے ہیں تو پھر جن لوگوں لو گوں کو معیشت سمجھ میں نہیں آتی ہے وہ کیوں کر تبصرہ کر سکیں گے یا ان کے تبصرہ کی کیا وقعت ہو گی۔ نگران وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ بجلی کے بلوں پر جہاں بجلی کے بل جلائے جا رہے تھے اسی شہر میں بجلی 500 میگاواٹ تک چوری ہو رہی ہے‘ مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہاہے ۔ بجلی کی پیداوار‘ فراہمی اور وصولی تینوں نظام ناقص ہیں۔ اْنہوں نے کہا کہ بجلی بلوں میں اضافے کے ذمہ داران کا تعین تو ہوگا، سو ہوگا، سوال یہ ہے کہ آج ان بجلی بلوں کے مسئلے کا حل کیا ہے ؟ ٹیکسوں کا ناہموار نظام بھی اس مسئلے کی نشاندہی کر رہا ہے ، کسی نے ٹیکس کے اس ناہموار نظام کی توجہ ہی نہیں دی۔ لائن لاسز اور چوری میں پورا کارٹیل کا نظام ملوث ہے۔ اس میں بدقسمتی سے بعض مختلف ڈسکوز یا مختلف اداروں میں کام کرنے والے ملازمین شامل ہیں‘‘۔ دوسری سانس میں انہوں نے کہا کہ آئندہ 48گھنٹوں میں بجلی بلوں پر ریلیف کا اعلان کرینگے۔ بجلی کا بل تو دینا ہوگا ۔ سبسڈی مسئلے کا حل نہیں ‘90ء کی دہائی کے آئی پی پیز سے معاہدے معاشرے اور ریاست کیلئے خوفناک ہیں ۔ آئی ایم ایف کو بجلی کے بلز کے معاملے میں تجاویز دی ہیں خود کچھ نہیں کہوں گا کیا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں کوئی بحران نہیں‘ حالات مشکل ہیں مگر جلد سرخرو ہوں گے‘ سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت بے یقینی اور مایوسی پھیلائی جارہی ہے۔
نگران وزیر اعظم کو بہت سوچ سمجھ کر بیان دینا ہوگا کیوں کہ اگر شہروں میں بجلی چوری ہو رہی ہے تو اس کی روک تھام کی ذمہ داری بجلی تقسیم کرنے والے اداروں کی ہے۔ ان صارفین کی ذمہ داری نہیں ہے جنہیں ان کی قوت خرید سے کہیں زیادہ مالیت کے بل تھما دئے گئے۔ اگر صارفین کے پاس بلوں کی رقم ادا کرنے کے پیسے ہی نہیں ہوں گے تو وہ کہا کریں گے اور کہاں جاکر روئیں گے۔ وزیر اعظم بھیس بدل کر نکلیں اور جائزہ لیں کہ لوگوں کے پاس روٹی کھانے کو ہے یا نہیں۔ پنجاب میں لیہ شہر میں ڈی پی او ایک گھر پر جا کر راشن پہنچاتے ہیں کہ انہیں اطلاع ملی تھی۔ یہاں تو شہر شہر کے بھوکے ہیں۔ مسئلے کو بڑھا کر پیش کرنے کی بات نہ کی جائے تو بہتر ہے ورنہ تیونس میں آنے والے انقلاب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بے روز گار تعلیم یافتہ نوجوان کو روز گار نہیں ملا تو اس نے سبزی فروخت کرنے کا ٹھیلا لگایا۔ پولس نے ٹھیلا الٹ دیا۔ بس اس واقعہ نے ملک بھر میں آگ لگادی۔ پاکستان کی نگراں حکومت کو جنگی بنیادوں پر بجلی کے بلوں کے مسئلہ کو حل کرنا چاہئے۔ آئی ایم ایف کے بتائے ہوئے راستے پر چلے تو پھر صارفین صرف بل ہی نہیں جلائیں گے بلکہ بہت کچھ جلا دیں گے۔ ایک انٹرویومیں معاشی تجزیہ کاروں نے کہا کہ کسی کو مفت بجلی نہیں ملنی چاہیے، جو بجلی مفت دی جارہی ہے اس پر شرائط لگنی چاہیے۔ سرکاری ملازمین کو بھی قربانی دینی چاہیے تاکہ عوام کے دکھوں میں ساتھ ہونے کا پیغام جائے۔ معاشی تجزیہ کار فرخ سلیم نے کہا کہ بجلی کے بل میں 30 فیصد ٹیکس اور 50 فیصد حکومتی نااہلی ہے، بجلی بنانے کی لاگت اتنی نہیں لائن لاسز، عدم ریکوری اور دیگر مسائل ہیں، عوام کو سستی بجلی نہیں مل رہی تو اچھے پیغام کے لیے سرکاری ملازمین بھی فری بجلی نہ لیں۔ کسی کا 10ہزار روپے بل ہے تو بجلی کی کھپت 2 ہزار اور ٹیکس 3 ہزار روپے ہے، 10 ہزار میں سے 5 ہزار روپے حکومتی نااہلی کے ہیں، کسی کو بجلی کا بل ادا کرنے پر اعتراض نہیں یہاں حکومت کی نااہلی ہے۔ معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد نے کہا کہ بل جلانے اور احتجاج کرنے سے حل نہیں نکلے گا، حل نجکاری میں نکلے گا، وفاق بجلی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو صوبوں کے حوالے کرے۔
ایک تجزیہ ہے کہ بجلی کے بلوں میں اضافہ کیوں ہوا ہے ، کون، کون سا ٹیکس کس مد میں لیا جارہا ہے ، ٹیکسز کے علاوہ اور دیگر سرچارجز کتنے ہیں؟ نیپرا نے بجلی یونٹ میں 4 روپے 96 پیسے کا بنیادی اضافہ کیا جس کے بعد ملک بھر کے صارفین کا بجلی کا بل بڑھ گیا۔100 یونٹ تک کے صارفین کا پہلے فی یونٹ 13روپے 78 پیسے کا تھا، اب 16 روپے 48 پیسے کا ہے، یعنی 3 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔200 یونٹ تک فی یونٹ پہلے 18روپے 95 پیسے کا تھا اور اب 22روپے 95 پیسے کا ہے، مطلب 4 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
300 یونٹ تک استعمال کرنے والوں کا پہلے فی یونٹ 22 روپے 14 پیسے کا تھا ، اب27 روپے 14 پیسے کا ہے ، یعنی 5 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح 400 یونٹ تک فی یونٹ 25 روپے 80 پیسے کا تھا ، اب 32 روپے 30 پیسے کا ہے، یعنی ساڑھے 6 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔500 یونٹ تک پہلے فی یونٹ 27 روپے 74 پیسے کا تھا اور اب 35 روپے 24 پیسے کا ہے۔ مطلب ساڑھے 7 روپے فی یونٹ کا اضافہ ہوا ہے۔ بجلی میں اضافے کا اطلاق یکم جولائی سے ہوا، اس لیے اگست کے بلوں میں ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے نام پر پچھلے مہینے کے بل کا اضافہ رواں ماہ میں ہوا اور رواں ماہ کی بجلی کے یونٹ پر بھی رقم بڑھ گئی یوں بلوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ رواں ماہ فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ہر یونٹ پر 2 روپے 31پیسے بڑھے ہیں۔ کے الیکٹرک کے مطابق گزشتہ ماہ مہنگا فرنس آئل یا گیس خرید کر صارفین کو سستی بجلی دی جائے تو فیول کاسٹ ایڈجسٹمٹ کی رقم رواں ماہ میں شامل کردی جاتی ہے۔اگر کے الیکٹرک کا حساب کتاب یہ بتائے کہ صارفین سے رواں ماہ رقم کم لی گئی ہے تو مزید رقم کے حصول کیلئے یونیفارم کوارٹرلی ایڈجسٹمنٹ کے نام سے پچھلے مہینوں کی رقم رواں مہینے میں لی جاتی ہے اوراس ماہ بھی کوارٹر لی ایڈجسٹمنٹ کے نام سے بلوں میں فی یونٹ ایک روپے 55 پیسے لیے گئے ہیں۔جن صارفین کو ماضی کی حکومتوں نے ریلیف دیا ان سے پچھلے مہینوں کی رقم لینے کیلئے ڈیفرڈ ایف سی اے حاصل کیاجاتا ہے۔ اس ماہ کے بل میں مئی کے ڈیفرڈ ایف سی اے کی مد میں 74پیسے اور جون کے ہر یونٹ کی مد میں 33 پیسے لیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ پاور سیکٹر کا گردشی قرض اتارنے کیلئے بھی پیسے بجلی صارفین سے لیے جا رہے ہیں۔پاور ہولڈنگ لمیٹڈ سرچارجز کے نام سے ہر گھریلو صارف سے فی یونٹ 43 پیسے جبکہ کمرشل صارفین سے 3 روپے 82 پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔ ڈھائی سو یونٹ کے بل پر الیکٹرک سٹی ڈیوٹی، سیلز ٹیکس ٹی وی ایل فیس ملا کر ٹیکسز اور ڈیوٹیز 13 فیصد سے زائد ہیں۔اگر ایک بل تقریباً ڈھائی سو یونٹ کا ہے تو 27 روپے فی یونٹ کے حساب سے پرائز 7 ہزار روپے ہوں گے لیکن ٹیکسز اور دیگر چارجز تقریباً ساڑھے 5 ہزار روپے کے بنیں گے اور یوں 7 ہزار کا بل ساڑھے 12ہزار کا ہوجائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button