Abdul Hanan Raja.Column

جب پہاڑ نے رنگ بدلا

تحریر : عبد الحنان راجہ
بھارت کی جانب سے ایٹمی پروگرام کا آغاز تو 1948ء میں ہی ہو گیا تھا مگر اس میں جنونیت کے ساتھ تیزی اس وقت آئی جب 1964ء میں چین کی جانب سے ایٹمی دھماکے کئے گئے۔ اندرا گاندھی کی مسلم اور پاکستان دشمنی تو پہلے بھی تھی ہی، مگر چین کی جانب سے ایٹمی قوت کے اعلان نے تو ان کی راتوں کی نیند حرام کر دی۔ اس خطہ میں وہ طاقت کا توازن ہر صورت اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی تھیں. باوجود عالمی دبائو کے مسز اندرا گاندھی نے 18مئی 1974 ء کو ایٹمی تجربات کر کے بھارت کے مستقبل کے عزائم نہ صرف پاکستان بلکہ خطہ کے تمام ممالک پر واضح کر دئیے۔ پاکستان ابھی 71ء کی جنگ کے گرداب سے پوری طرح باہر نہ نکلا تھا کہ بھارت کے ایٹمی تجربات بلائے ناگہانی کی طرح اس کے سر پر ہی نہیں قلب و روح پر ان گرے۔ اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے فیصلہ پر عملی اقدامات کا فیصلہ کیا ان کا تاریخی جملہ کہ ’’ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے‘‘ اس پروگرام کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی زیر نگرانی کام شروع تھا مگر روایتی انداز میں، جو مسٹر بھٹو کو قبول نہ تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملاقات نے بھٹو کے عزائم کو مہمیز لگائی اور پھر اس پر جس سرعت، جرات اور ولولہ سے کام کا آغاز ہوا وہ ناقابل بیان۔ ادھر بھارت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی بھی جوہری ہتھیاروں بارے بہت پرجوش اور وہ اس معاملے پر کسی بھی دبائو کو خاطر میں نہ لانے کا فیصلہ کر چکے تھے، جبکہ امریکی دستاویزات بھی یہی بتاتی ہیں کہ جوہری صلاحیت کے حصول میں امریکی انتظامیہ میں بھارت کے لیے نرم گوشہ جبکہ پاکستان کو وہ اس کے نتائج سے سفارتی زبان میں آگاہ کرتے رہتے تھے۔ 20اپریل 1998ء کو بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر کے چوٹی کے سائنس دانوں کو وزیر اعظم کے فیصلے سے آگاہ اور پھر انہیں فرضی ناموں سے بھارت کے مختلف شہروں سے گھماتے مطلوبہ مقام تک پہنچایا گیا۔ مشن کو خفیہ رکھنے کے لیے پوکھران میں ان سائنس دانوں اور ٹیم ممبران جن کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ تھی کو فوجی وردیاں پہنا دی گئیں۔ معروف بھارتی صحافی راج چنگپا کے مطابق ایٹمی مواد کو چار مضبوط باکسز میں فوجی ٹرکوں کے ذریعے ممبی ایئرپورٹ اور وہاں سے ٹرانسپورٹ طیارہ کے ذریعے منتقل کیا گیا۔ امریکی سیٹلائٹس کا خطرہ کے پیش نظر آمد و رفت محدود اور رات کے اوقات میں کی جاتی۔ 10مئی کو اگرچہ ایک امریکی سیٹلائٹ نے نقل و حمل کی کچھ تصاویر بنائی بھی، مگر جب تک ان کو پرکھا اور جانچا جاتا بھارتی سائنس دان اپنا کام مکمل کر چکے تھے۔ 11 مئی 1998ء کو محکمہ موسمیات کی جانب سے موسم کے احوال کی رپورٹ موصول ہونے پر دھماکوں کا وقت 3بج کر 45منٹ پر طے کیا گیا۔ واجپائی چار اہم وزرا کے ہمراہ کھانے کی میز پر بے چینی سے کامیابی کے منتظر، اطلاع ملنے پر، پر سکون ہوئے جبکہ دیگر نے جے ہند کے نعرہ کے ساتھ خبر کو سنا۔ اب پاکستان نے بھی اپنا فرض ادا کرنا تھا اور وہ قرض بھی چکانا تھا جو 1984ء سے واجب الادا۔ گو کہ پاکستان نے بفضل تعالیٰ عالمی پابندیوں، دشمن سمیت امریکہ، برطانیہ، فرانس، اسرائیل اور دیگر متعدد ممالک کے خفیہ اداروں کی سخت نگرانی کے باوجود 1982ء تک یورینیم افزودگی پر 90فیصد کام مکمل کر لیا تھا۔ اس تمام عرصہ کے دوران کئی گمنام اور خاموش مجاہد کہ جن کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے بڑی طاقتیں بھی بخوبی واقف اس مشن کی تکمیل اور دشمن کی خفیہ چالوں کو ناکام بنانے میں لگے رہے اور کڑی نگرانی کے باوجود مختلف ممالک سے مطلوبہ سامان اپنے سائنس دانوں کو بہم پہنچاتے رہے۔1984 ء میں ڈاکٹر خان نے صدر جنرل ضیا الحق کو پروگرام کی کامیابی بارے مطلع کر دیا۔ باوجود دل میں مچلتی خواہش کے، عالمی دبا ہمیشہ پاکستان کے پیش نظر رہا اور وہ ایٹمی دھماکوں سے باز رہا۔ مگر بھارت نے 11مئی 98ء کو دھماکے کر کے از خود یہ جواز پاکستان کو فراہم کر دیا۔ ان سترہ ایام میں ایک طرف پاکستان پر بے پناہ امریکی عالمی دبائو تو دوسری طرف مراعات کا پیکیج بھی۔ اس کا ذکر امریکی صدر کے سپیشل اسٹنٹ برائے جنوبی ایشیا بروس ریڈل نے اپنی کتاب میں بھی کیا کہ’’ انہیں بھارتی عزائم کا علم ہونے پر واجپائی سے ملاقات کے لیے بھیجا گیا، ان کے ہمراہ سٹروٹ ٹالبوٹ اور کارل انڈر فرتھ بھی تھے۔ اپریل میں ہونے والی اس ملاقات میں واجپائی نے انہیں ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی مگر ایک ماہ بعد کر ڈالے۔ اس کے بعد پاکستان کے رد عمل کا سب کو علم تھا مگر اس مشن ایمپاسیبل پر ہمیں پھر پاکستان جانا پڑا۔ ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی صورت میں فوجی و اقتصادی امداد کے علاوہ پریسلر ترمیم کا خاتمہ اور عالمی برادری کی جانب سے بھی امداد کی یقین دہانی کرائی گئی مگر حکومت پر تمام طبقات کی جانب سے بے پناہ دبائو تھا ‘‘۔ ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے مشاورتی اجلاسوں میں شعبہ صحافت کی نمائندگی محترم مجید نظامی مرحوم کر رہے تھے کہ جن کا یہ جملہ آج بھی کانوں میں گونجتا ہے کہ ’’ میاں صاحب آپ نے اگر دھماکے نہ کئے تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی‘‘۔
ایٹمی تجربات کے لیے چاغی کو پہلے ہی منتخب کر لیا گیا تھا سو وزیر اعظم نواز شریف کی منظوری کے بعد اگلے تین روز میں دھماکوں کے لیے تیاریوں کو مکمل اور 28مئی کی صبح تمام عسکری تنصیبات کو ہائی الرٹ کر دیا گیا جبکہ دھماکے کے مقام سے دس کلو میٹر دور آبزرویشن پوسٹ قائم کہ جہاں چیئرمین اٹامک انرجی کمیشن ڈاکٹر اشفاق، محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر ثمر مبارک مند سمیت پاک فوج کے اعلیٰ ترین افسر موجود تھے۔ تین بج کر 16 منٹ پر اللہ کے حضور مناجات اور کامیابی کی دعا کے ساتھ ٹریگر بٹن دبا دیا گیا جس کے بعد مرحلہ وار چھ زور دار دھماکوں سے پہلے پہاڑ کا رنگ بدلا پھر ٹیم کا اور بعد ازاں فخر سے پوری قوم کا۔ آپریشنل ٹیم نے سجدہ شکر اور قوم نے پرجوش نعروں سے اظہار تشکر کیا۔ پاکستان نے بھارت کے پانچ کے جواب میں چھ دھماکے کیے اور یہ بات قابل فخر و قابل ذکر کہ ہمارا ایٹمی پروگرام نہ صرف بھارت بلکہ امریکہ اور برطانیہ سے زیادہ محفوظ، جبکہ بولٹن آف اٹامک سائنٹسٹ کے مطابق پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد ہندوستان کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ڈاکٹر اے کیو خان سمیت ملک کو ایٹمی قوت بنانے والا ہر کردار اس ملک اور قوم کا محسن اور قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔

جواب دیں

Back to top button