
تحریر : سی ایم رضوان
قدیم و جدید تاریخ کے ہر قصے اور تذکرے میں صرف بادشاہوں، حکمرانوں اور طاقتوروں کی کہانیاں ہی ملتی ہیں کیونکہ غریبوں اور عام لوگوں کے لئے کبھی لکھا ہی نہیں گیا اور اگر لکھا بھی گیا ہے تو وہ بھی منہ کا ذائقہ بدلنے یا کسی حکمران کی تعریف کرنے یا کسی فاتح کے حملوں اور لوٹ مار کا جواز بیان اور پیش کرنے کے لئے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ تاریخ کی کسی کتاب میں آپ کو غریب عوام کا تذکرہ خاص طور پر ان کی ہمدردی میں ملے، البتہ تواریخ یہ ضرور بتاتی ہیں کہ عوام کا تو کام ہی یہی ہے کہ خون پسینہ بہا کر اپنے لیڈروں اور آقائوں کی خوشی و آرام کے سامان مہیا کریں یعنی جب آقا ہی سب کچھ ہوں تو تاریخ بھی انہی کی لکھی جائے گی۔ یہی حال ہمارے میڈیا کا ہے خاص طور پر دیکھا جائے تو ہماری تاریخی کتابوں اور پاکستانی میڈیا کی بیانیہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جس طرح ہماری تاریخ حاکموں اور بادشاہوں کے گرد گھومتی ہے بالکل اسی انداز میں ہمارے مین سٹریم میڈیا کا مرکزِ توجہ بھی ایک مخصوص طبقہ ہے جو اس ملک کے سْیاہ و سفید کا مالک ہے۔ باقی غریب عوام کی کسی کو پرواہ نہیں خواہ وہ بھوکوں مریں یا زندہ رہیں۔ جس طرح کہ آج کل صرف ایک قیدی کے کھانے پینے اور انسانی حقوق کے لئے میڈیا ہلکان ہوا جا رہا ہے اور باقی لاکھوں قیدی گویا اس کی نظر میں انسان ہی نہیں۔ پاکستان کے موجودہ حالات اور یہاں کے حکمرانوں کے رویّے دیکھ کر یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم ایک جمہوری ملک میں رہ رہے ہیں۔ جہاں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ اس کے برعکس یہاں ایک مخصوص ٹولہ پورے ملک کا کرتا دھرتا ہے۔ یہاں ستر سال پہلے بھی حکمران غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی اپنے اور اپنے طبقہ کی آسائش و آرام کے لئے بے دریغ خرچ کرتے تھے اور آج بھی آئی ایم ایف سے قرض لے کر بھی عیاشی کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ آج بھی اس ملک کے حکمران غریب عوام کی فکر کیے بغیر اپنی عیاشیوں میں مگن ہیں البتہ کبھی کبھی وہ بھوکے اور محتاج عوام میں خیرات بانٹ کر اپنی سخاوت اور عظمت کا اظہار کرتے ہیں۔ آج بھی پاکستان میں مختلف سکیموں سے عوام کو بھکاری بنانے کے نت نئے طریقے آزمائے جا رہے ہیں اور خود کبھی کوئی وزیرِ اعظم کتے پالتا ہوا نظر آتا ہے تو کبھی کوئی عالم اسلام کا عظیم لیڈر عورتوں کی بھیڑ میں دکھائی دیتا ہے۔ جس طرح مغل امراء پندرہ پندرہ سو بیویاں اپنے حرم میں رکھتے تھے ویسا ہی ایک لیڈر اب تک ایک ناجائز اولاد ایک جائز اولاد پیدا کر چکا ہے اور اب چوتھی بیوی کے ساتھ عدت میں شدت کے کیس میں سزا بھگت رہا ہے۔ اس عظیم لیڈر نے یہاں کرپشن، جوئے، کیری پیکر کانٹی اور پتہ نہیں کن کن ذرائع سے دولت کما کر اکٹھی کی ہوئی ہے۔ اسی دولت کے بل بوتے پر دھوپ ہو یا چھاں ان کے سروں پر چھتری رکھنے کے لئے درجنوں نوکر مامور ہوتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف یا پھر سنی اتحاد کونسل کے کپتان کا ماضی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ان کی نوجوانی ایک پلے بوائے کی طرح گزری۔ کپتان کو کرکٹ سے جتنی شہرت ملی، شاید ہی کسی اور کرکٹر کو نصیب ہوئی ہو۔ ماضی میں ایک برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں جب میزبان نے عالم اسلام کے موجودہ عظیم لیڈر کو ان کی مبینہ گرل فرینڈز کے نام گنوائے تو موصوف کی ہنسی نہیں رُک رہی تھی۔ جب میزبان نے عالم اسلام کے موجودہ عظیم لیڈر سے مشہور آرٹسٹ ایما سارجنٹ، لیڈی لیزا کیمبل اور سوزانا کنسنسٹائن کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ یہ تمام خواتین اب اپنی خوشگوار شادی شدہ زندگی میں مصروف ہیں۔ لیکن شادی کے سوال پر انہوں نے کہا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ان کے پاس شادی کے لئے وقت ہے۔ انہوں نے اپنے دوستوں کی مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے تمام دوست اپنی بیویوں سے طلاق لے چکے ہیں حتیٰ کہ ایک دوست کی تو تین بار طلاق ہو چکی ہے۔ اس کے بعد خود عالم اسلام کے اس عظیم لیڈر کی شادیوں کا جو حال ہوا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔
کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد اب وہ پاکستانی سیاست میں اس قدر مصروف ہو چکے ہیں کہ اب شاید ہی ان کے پاس ایسی ’’ دوستیاں‘‘ نبھانے کا ٹائم ہو۔ ایک دور میں وہ خود کہہ چکے ہیں کہ دو شادیوں کی ناکامی کے بعد وہ تیسری شادی بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس ابھی اس کے لئے وقت نہیں ہے لیکن دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے ریحام خان نامی ایک خاتون سے تیسری شادی بھی کی جو کہ طلاق پر منتج صرف اس واسطے ہوئی کہ چوتھی بیوی کی جانب سے یہ بتایا گیا تھا کہ اگر وہ اس سے شادی کریں گے تو وزیر اعظم بن جائیں گے حالانکہ وہ خاتون خود پانچ بچوں کی ماں تھی جن میں سے دو ایک بچے تو خود شادی شدہ ہیں اور آگی ان کی بھی اولادیں ہیں۔ تاہم چیئرمین پی ٹی آئی کے ماضی کو دیکھتے ہوئے اگر آپ کو پتہ چلے کہ سیاست میں مصروفیت کی باتیں محض دکھاوا ہیں اور ان کو جب بھی ’’ موقع‘‘ ملے وہ اسے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، تو ہمیں یقین ہے کہ آپ سب اس پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیں گے۔
ایسا ہی کچھ گزشتہ سال ہوا تھا جب لارا بنگل نامی ایک معروف آسٹریلوی ماڈل نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ سے بانی پی ٹی آئی کو مشہور ہالی ووڈ فلمساز ہاوری وائن سٹائن سے تشبیہ دیتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ 2013ء میں لندن میں ہونے والی ملاقات کے دوران انہوں نے مجھے جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔ لارا بنگل کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی ایک عیاش شخص ہے، جس سے میں اب کبھی ملاقات کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ ہم خواتین کو وائن سٹائن اور عمران خان جیسے لوگوں سے دور رہنے کی ضرورت ہے۔ درست بات تو یہ ہے کہ اس نوعیت کے ان ٹویٹس کو پڑھنے سے ایک عام آدمی ایک مرتبہ چکرا جاتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے اپنی پرانی عادتیں ابھی تک نہیں چھوڑی تھیں۔ تاہم اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ یہ ٹویٹر اکائونٹ جعلی تھا جو کہ صرف 7دن پہلے ہی بنایا گیا تھا۔ خیال رہے کہ لارا بنگل نامی آسٹریلوی ماڈل بھی اب شادی کے بندھن میں بندھ چکی ہیں۔ لارا کی اپنی ویب سائٹ کے مطابق ان کی حقیقت میں 2013 ء میں عمران خان سے ملاقات ہوئی تھی لیکن ان کی عمران خان سے شناسائی کافی پرانی ہے اور انہوں نے بھی اس ملاقات کے حوالی سے ایسی کوئی بات نہیں کی جو کہ اس مبینہ جعلی اکائونٹ سے کی جا رہی ہے۔ لارا بنگل کا اصلی اکائونٹ ان کے شوہر کی نسبت سے مسز لارا ورتھنگٹن کے نام سے آپریٹ ہوتا ہے اور یہ ٹوئٹر کی جانب سے تصدیق شدہ بھی ہے۔ بانی پی ٹی آئی پر عائشہ گلالئی کے الزامات کے بعد اس خبر کے آنے پر بہت سے حلقوں میں بانی پی ٹی آئی کی متنازعہ شہرت کی وجہ سے اسے فوراً ہی درست تسلیم کر لیا گیا اور اس مبینہ فیک اکائونٹ سے کی گئی ٹویٹس کو بہت سے لوگوں نے ری ٹویٹ بھی کیا مگر بادی النظر میں یہ اکائونٹ جھوٹا اور اس سے کی گئی ٹویٹس عمران خان کو بدنام کرنیکی ایک سازش دکھائی دیتی ہیں لیکن ریحام خان کی جانب سے لگائے گئے اسی نوعیت کے الزامات کی نہ تو آج تک تردید کی گئی ہے اور نہ ہی ان الزامات کو کسی عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے۔
مختصراً بات یہ ہے کہ ہم آج بھی پاکستان نامی اس سلطنت میں رہ رہے ہیں جہاں عمران خان جیسے عیاش لوگوں کا ایک ٹولہ پورے ملک کی دولت، وسائل اور اختیارات پر قابض ہے اور جب کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے تو وہ آنکھیں نکال لی جاتی ہیں۔ جب کوئی لب کشائی کرنے کی جرات کرے تو وہ لب سی لئے جاتے ہیں۔ اسی ٹولے کی بداعمالیوں کی وجہ سے آج پورا ملک معاشی بحران کا شکار ہے اور تباہی کے دہانے پر ہے مگر اس ٹولے کو اپنی عیاشیوں اور ملک کو نقصان پہچانے سے فرصت ہی نہیں ملتی۔
یہاں عوام بھوکوں مر رہے ہیں اور مقتدر طبقہ اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف ہے۔ یہاں کپتان نامی پلے بوائے اڈیالہ جیل میں بھی ایک بادشاہ کی طرح اپنی شان و شوکت کے ساتھ رعونت کے تخت پر بیٹھ کر ہر ایک کو گالیاں دیتا ہے مگر مجال ہے گالیاں سننے کے باوجود بھی کوئی ملک کا طاقتور شخص بھی اس کا کچھ بگاڑ سکے۔ آج بھی اس کی پارٹی کے لوگ اور دیگر طاقتوں کے مراکز پر بیٹھے اس کے سہولت کار وہی درباری چاپلوس اس کے ارد گرد منڈلا رہے ہیں اور باہر بھوک و افلاس کا راج ہے۔ نہ اس بادشاہ کو عقل ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر اور جمہوریت کی خاطر اپنی ضد کو چھوڑ دے اور نہ ہی حکمرانوں سے یہ اُمید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ جزیروں میں عیاشی کے دلدادہ اس کاغذی ہیرو کو اس کے اصل انجام تک پہنچانے کا اقدام کریں حالانکہ وہ نو مئی جیسے جرم کا ارتکاب کر کے یہ ثابت کر چکا ہے کہ وہ ملک دشمن ہے اور اسے جب بھی موقع ملا ملک کو بیچ کر خود کسی جزیرے میں عیاشی کے لئے چھپ کر بیٹھ جائے گا۔ پاکستان کے عوام کو یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اب اسے جزیروں میں جا کر عیاشی کے دلدادہ اس انقلابی سے واسطہ پڑا ہے جو وقت آنے پر اس ملک کا سودا کرنے سے بھی باز نہیں آئے گا جس طرح کہ اس نے ماضی میں آئی ایم ایف سے تاریخ کا سب سے بڑا قرض لے کر آج ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچایا ہوا ہے اور آج پوری منتخب کابینہ اس کے بداعمال کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔