پاکستان ایٹمی پروگرام کی کہانی
تحریر : علی حسن
مرحوم جناب آصف جیلانی بی بی سی ریڈیو سے طویل عرصہ تک منسلک رہنے والے نامور پاکستانی صحافی تھے۔ انہوں نے بی بی سی کی ویب سائٹ پر 2004 ء میں درج زیل مضمون تحریر کیا تھا جو قارئین کی دلچسپی کے لئے نقل کیا جارہا ہے۔ ’’ پاکستانی ایٹمی پروگرام کی کہانی‘‘ کے عنوان سے مرحوم آصف جیلانی تحریر کرتے ہیں ’’ یہ اکتوبر 1954 ء کی بات ہے۔ عین اس روز جب اْس زمانہ کے پاکستان کے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے وہائٹ ہائوس میں امریکی صدر آیئزن ہاور سے ملاقات کی تھی اور پاکستان نے امریکہ کے ایٹم برائے امن ( ایٹم فار پیس) کے منصوبہ میں شمولیت کے ساتھ جوہری توانائی کے شعبہ میں تحقیق اور ترقی کے لیے جوہری توانائی کے کمیشن کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ یہ آغاز تھا پاکستان کے جوہری پروگرام کا یا دراصل یہ پاکستان کی طرف سے پیمان تھا کہ وہ جوہری توانائی، اسلحہ کی تیاری کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔ مجھے یاد ہے کہ اس زمانہ میں پاکستان میں اس مسئلے پر کافی لے دے ہوئی تھی کیونکہ بہت سے مبصرین کے نزدیک صدر آیئزن ہاور کا ایٹم برائے امن کے منصوبہ کا اصل مقصد امریکہ کے علاوہ دنیا کے دوسرے تمام ملکوں کو جوہری اسلحہ کی صلاحیت سے محروم رکھنا اور ان پر قدغن لگا کر انہیں جوہری اسلحہ کی تیاری سے روکنا تھا۔ پاکستان کی طرف سے آیئزن ہاور کے اس منصوبہ کو تسلیم کرنے پر پاکستان میں بہت سے لوگوں کا ماتھا ٹھنکا تھا کیونکہ یہ آغاز تھا پاکستان کی طرف سے امریکہ کے قدموں میں خود سپردگی کا۔ اسی کے فورا بعد امریکہ اور پاکستان کے درمیان فوجی، سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں ہمہ گیر قربت اور تعاون کا دور شروع ہوا۔ اسی سال پاکستان امریکہ کے دو فوجی معاہدوں ’’ سینٹو‘‘ اور ’’ سیٹو‘‘ میں شامل ہوا اور امریکہ نے بھاری فوجی اور اقتصادی امداد کے عوض پاکستان کی سرزمین پر فوجی اڈے قائم کیے تھے اور اپنے فوجی صلاح کار پاکستان بھیجے تھے اور اسی کے ساتھ پاکستان کے پانچ سالہ اقتصادی منصوبہ کی تیاری کے لیے امریکہ نے اپنے ماہرین پاکستان کے منصوبہ بندی کمیشن میں تعینات کیے تھے۔ یوں امریکہ نے پاکستان کو مکمل طور پر اپنے حصار میں لے لیا تھا۔پاکستان پر امریکہ کے اثر کی مکمل گرفت کا نتیجہ یہ رہا کہ اس زمانے میں پاکستان کی قیادت نے ایک لمحہ کے لیے بھی جوہری اسلحہ کی تیاری کے بارے میں نہیں سوچا۔ عام طور پر اس وقت امریکہ کے دفاعی معاہدے جارحیت کے تدارک کا ذریعہ سمجھے جاتے تھے۔ سن ساٹھ کی دہائی میں یہ خبریں آنی شروع ہوگئی تھیں کہ انڈیا بڑی تیزی سے جوہری تجربات کی سمت بڑھ رہا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کی قیادت نے جوہری اسلحہ کے میدان میں قدم رکھنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ سن چونسٹھ میں انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے انتقال پر جب پاکستان کی طرف سے تعزیتی وفد کی قیادت کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو دلی آئے تھے تو میں وہیں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس موقع پر ان سے طویل ملاقات میں انڈیا میں جوہری توانائی کے شعبہ میں پیش رفت پر بات ہوئی تھی۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ پاکستان جوہری صلاحیت حاصل کرنے کے لیے کیا کر رہا ہے تو ذوالفقار علی بھٹو نے مجھ سے یہ پیمان لے کر کہ میں یہ راز افشا نہیں کروں گا، انکشاف کیا تھا کہ سن تریسٹھ میں انہوں نے کابینہ میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ پاکستان کو جوہری اسلحہ کی تیاری کے لیے پروگرام شروع کرنا چاہیے، لیکن صدر ایوب خان اور ان کے امریکہ نواز وزیر خزانہ محمد شعیب اور دوسرے وزیروں نے ان کی یہ تجویز یکسر مسترد کر دی اور واضح فیصلہ کیا کہ پاکستان جوہری اسلحہ کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کرے گا۔ سن اڑسٹھ میں جب صدر ایوب خان فرانس کے دورے پر آئے تھے تو میں ان کا دورہ کور کرنے کے لیے پیرس گیا تھا۔ اس موقعے پر فرانسسی صدر چارلس ڈی گال نے پاکستان میں جوہری ری پراسسنگ پلانٹ کی تعمیر کی پیشکش کی تھی لیکن ایوب خان نے یہ پیشکش ٹھکرا دی۔ یہ مشورہ انھیں ان کے چیف آف اسٹاف جنرل یحییٰ خان، صدر ایوب کے اعلیٰ سائنسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام اور منصوبہ بندی کمیشن کے نائب سربراہ ایم ایم احمد نے دیا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے، جو سن اکہتر میں بنگلہ دیش کی جنگ کے نتیجہ میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد برسراقتدار آئے تھے اور جنہوں نے پاکستان کو جوہری قوت بنانے کا منصوبہ شروع کیا۔ صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے فوراً بعد بھٹو نے ایران، ترکی، مراکش، الجزائر، تیونس، لیبیا، مصر اور شام کا طوفانی دورہ کیا تھا اور میں اس سفر میں ان کے ساتھ تھا۔ اس دورہ کے دو اہم مقاصد تھے۔ ایک مقصد مسلم ممالک سے تجدید تعلقات تھا اور دوسرا پاکستان کے جوہری پروگرام کے لیے مسلم ملکوں کی مالی اعانت حاصل کرنا تھا۔ دمشق میں اپنے دورے کے اس سلسلہ کے اختتام پر انہوں نے شام کے صدر حافظ الاسد سے کہا تھا کہ ان کا یہ دورہ نشاۃ ثانیہ کے سفر کا آغاز تھا اور پاکستان کی مہارت اور مسلم ممالک کی دولت سے عالم اسلام جوہری قوت حاصل کر سکتا ہے۔
اس دورے کے فوراً بعد انہوں نے سنہ تہتر میں پاکستان کے جوہری اسلحہ کی صلاحیت حاصل کرنے کے پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا اور اس سلسلے میں انہوں نے جوہری توانائی کمیشن کے سربراہ کو تبدیل کیا اور اعلیٰ سائنسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام کو برطرف کر کے ہالینڈ سے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو پاکستان بلا لیا۔ پاکستان کے جوہری پروگرام کے لیے انہوں نے فرانسیسی حکومت کو جوہری ری پراسسنگ پلانٹ کی تعمیر کی پرانی پیشکش کی تجدید کے لیے آمادہ کیا۔ بھٹو جوہری پروگرام میں جس تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے اسے امریکہ نے قطعی پسند نہیں کیا اور اس زمانہ کے امریکی وزیر خارجہ کیسنجر نے تو کھلم کھلا دھمکی دی تھی کہ اگر بھٹو نے ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ کے منصوبہ پر اصرار کیا تو وہ نہ رہیں گے۔ لیکن بھٹو نے جوہری صلاحیت کا جو پروگرام شروع کیا تھا اس پر تحقیقی کام جاری رہا۔ پاکستان کے سائنس دانوں نے کہوٹہ کی تجربہ گاہ میں سنہ چہتر میں یورینیم کی افزودگی کا کام شروع کیا۔ ان کی محنت سن اٹہتر میں رنگ لائی اور سن بیاسی تک وہ نوے فیصد افزودگی کے قابل ہو گئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے مطابق پاکستان کے جوہری سائنس دانوں نے سن چوراسی میں جوہری بم تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی تھی اور انہوں نے جنرل ضیا الحق سے کہا تھا کہ وہ کھلم کھلا پاکستان کی طرف سے جوہری بم کی تیاری کے عزم کا اعلان کریں لیکن ان کے امریکی نواز وزیر خارجہ اور دوسری وزیروں نے سخت مخالفت کی۔ آخر کار مئی سنہ اٹھانوے میں جب انڈیا نے جوہری تجربات کیے تو پاکستان کے لیے کوئی چارہ کار نہیں رہا کہ وہ بھی جوہری تجربات کرے اور یوں پاکستان بھی جوہری طاقتوں کی صف میں شامل ہوگیا۔