ColumnImtiaz Aasi

تحفظ آئین کی تحریک کی کامیابی؟

تحریر : امتیاز عاصی
اسلام اور جمہوریت کے نام پر قائم ہونے والی ریاست ابتداء سے جمہوریت کی بجائے آمریت کی لیپٹ میں رہی۔ سکندر مرزا سے جنرل پرویز مشرف تک ملک میں آمریت مسلط رہی۔ درمیانی عرصہ میں نام نہاد جمہوریت کے نام پر در پردہ آمریت کا دور دورہ رہا۔2018 ء سے اب تک ہونے والے اقدامات نے جمہوریت کی بجائے آمریت کی یاد تازہ کردی۔ موجودہ حکومت خواہ وہ کسی طریقہ سے اقتدار میں آئی ہے کا دور آمریت سے برتر ہے صرف ایک سیاسی جماعت جسے عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے کے آزادی اظہار پر مکمل قدغن ہے۔ انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کی بجائے چھ سیاسی جماعتوں نے آئین کے تحفظ کے لئے جدوجہد کا آغاز بلوچستان سے کیا ہے۔ الیکشن میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں تاہم یہ امر خوش کن ہے جے یو آئی جو پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کے ساتھ ہاتھ ملانے کو تیار نہیں تھی آئین کے تحفظ کے لئے شروع کی جانے والی تحریک میں شریک سفر ہونے پر رضامند دکھائی دے رہی ہے۔ تحریک تحفظ آئین میں شامل جماعتوں کے رہنمائوں اور جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان کی مشترکہ پریس کانفرنس اس امر کی غماز ہے ماسوائے جماعت اسلامی کے جو عید کے بعد تنہا تحریک چلائے گی اپوزیشن کی قریبا سبھی آئین کے تحفظ کی تحریک کی کامیابی کے لئے یکسو دکھائی دے رہی ہیں۔ دوسری طرف برسراقتدار ٹولہ جسے مقتدر قوتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے عدلیہ پر کنٹرول کے لئے چند آئینی ترامیم کی تیاریوں میں ہے۔ قانونی پہلو کو دیکھا جائے تو حکومت کو ایوان میں آئین میں ترمیم کے لئے مطلوبہ عددی اکثریت حاصل نہیں ہے تاہم اس امر کا قومی امکان ہے حکومت اس مقصد کے لئے صدارتی آرڈننس کا سہارا لے سکتی ہے۔ عجیب تماشا ہے عدالتوں کی توہین کا قانون حکومت کے لئے ناپسندیدہ ہے اور عدلیہ کے ججوں کو غیر ملکی شہریت کا جو استثناء حاصل ہے کے خاتمے کے لئے کوشاں ہے۔ دراصل اسلام آباد ہائیکورٹ کے چند ججوں کی سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل میں شکایت بعض حلقوں کو گراں گزری ہے اس مقصد کے لئے اعلیٰ عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے لئے نت نئے حربے بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو عوام اور سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو کا دور بھول گئے ہیں۔ بلوچستان کے علاوہ ملک کے مختلف حصوں سے لوگوں کا لاپتہ ہونا، سیاسی رہنمائوں کو تختہ مشق بنانا روزمرہ کا معمول بن گیا ہے۔ ملکی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی خواجہ سراء نے سیاسی رہنما پر تشدد کیا ہوا موجودہ حکومت نے اس سلسلے میں نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ ٹھیک ہے انتخابات میں جس طریقہ سے حکومت کو اقتدار میں لایا گیا ہے تاہم اپوزیشن جماعتوں کی آزادی اظہار پر پابندی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک شخص جو پس زنداں ہے کا خوف کھائے جا رہا ہے قید خانے میں اس پر سیاسی گفتگو پر پابندی ہے ان گنت مقدمات اس پر قائم کرنے کے باوجود بعض حلقوں کا خائف ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔ وکلاء برادری آئین کے منافی اقدامات کے خلاف متحد دکھائی دے رہی ہیں وکلاء کا آئے روز عدالتوں کا بائیکاٹ اس امر کا عکاس ہے ملک میں کسی بڑی تحریک کا آغاز ہونے والا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ججوں کے خلاف اقدامات کے خلاف وکلاء کے ساتھ سول سوسائٹی نے باہم ملکر جدوجہد کی جس کے نتیجہ میں ججوں کی بحالی ممکن ہوئی جس کے بعد کسی حد تک عدلیہ کی آزادی کے آثار دکھائی دینے لگے۔ موجودہ دور میں عدلیہ کے ججوں کے خلاف ہونے والے غیر قانونی اقدامات نے ججوں کو آواز بلند کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کسی ملک میں کبھی ایسا نہیں ہوا ججوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنے کے لئے خفیہ کیمروں کی تنصیب ہوئی ہو۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت نے رسالت مآبؐ کے اس قول کو بھلا دیا ہے۔ جن قوموں میں انصاف نہیں ہوتا وہ قومیں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ ہماری تباہی میں کون سی کسر باقی ہے۔ ہم کیسے مسلمان ہیں نماز، روزہ حج زکوٰۃ ادا کرنے کے باوجود حصول انصاف کو اپنے لئے گراں سمجھتے ہیں جنہیں ہم اغیار کہتے ہیں خلفائے راشدین دور کی اصلاحات اپنے ہاں نافذ کئے ہوئے ہیں ڈنمارک میں جو قوانین رائج ہیں انہیں عمرؓ لاء سے منسوب کیا گیا ہے اور ہم اپنے اسلاف کی اصلاحات سے کوسوں دور ہیں۔ جو حلقے آئین کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں انہیں ملک کے مفاد کو فوقیت دینی چاہیے ذاتیات کے حصار سے نکل کر ملک و قوم کے لئے سوچنا چاہیے۔ ذمہ دار حلقے ملک میں ایک کام کر گزریں تو عوام انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ کرپشن کرنے والوں کا کڑا اور بلاامتیاز احتساب کر دیں تو ہمارا ملک درست سمت چل پڑے گا ورنہ جیسا موجودہ دور میں ہو رہا ہے ہمارا ملک نہ معاشی طور پر مستحکم ہو گا نہ سیاسی طور پر استحکام آسکے گا لہذا اس ملک کو بچانے کے لئے بے لاگ احتساب بہت ضروری ہے۔ ملک کے وہ حلقے جو احتساب سے بالاتر ہیں انہیں احتساب کے دائرہ میں لائے بغیر بے لاگ احتساب خواب رہے گا۔ اس ملک پر رحم کیجئے عدالتوں کو آزادی سے فیصلے کرنے دیں عدلیہ پر دبائو ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ سیاست دان جو روز بروز اکٹھے ہو رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو ایسی تحریک کا آغاز ہو جائے جو نہ ختم ہونے والی ہو اور حکومت کے تمام غیر آئینی اقدام دھرے رہ جائیں۔ جس روز سیاست دان ذاتی مفادات کی بجائے ملک و قوم کے مفاد کی سیاست کریں گے ہمارا ملک ترقی کی طرف گامزن ہو جائے گا۔ اپوزیشن جماعتوں کی تحریک میں جے یو آئی اور جماعت اسلامی نے شمولیت کر لی تو حالات کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے لہذا وہ وقت آنے سے پہلے اپنے حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کریں اور اپوزیشن کو جمہوری اقدامات سے روکنے کی ہرگز کوشش نہ کریں۔ موجودہ سیاسی حالات میں اپوزیشن کا جے یو آئی نے ساتھ نہیں دیا تو آئین کے تحفظ کی تحریک کے کامیابی کے امکانات نہیں ہیں البتہ جے یو آئی نے ساتھ دیا تو حالات خراب ہونے کا قومی امکان ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button