Ali HassanColumn

اسمبلیاں اور حکومتیں چلی گئیں

علی حسن
پاکستان کی پندرہویں قومی اسمبلی اپنی مدت مکمل کر کے تحلیل ہو گئی۔ اسمبلی کی کارکردگی اور اس کی مدت کے دوران قائم دونوں حکومتوں کی کارکردگی کیسی رہی تو جواب یہ ہے کہ سیاسی وجوہات کی بنیاد ہر بہت خطرناک حد تک تقسیم شدہ کشیدہ ماحول کے بارے میں حامیوں اور مخالفین کا رد عمل مختلف ہے۔ عمران خان اور شہباز شریف حکومتوں کا حجم اس لحاظ سے ضرورت سے کہیں زیادہ تھا کہ ملک اس کا متحمل ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ ملکی خزانے میں پیسہ ہی نہیں ہے لیکن کابینائوں کا حجم بہت بڑا تھا۔ وزرائ، مشیران، خصوصی نائبین اور معاونین کے لئے ضرورت سے زیادہ سہولتیں درکار ہوتی ہیں۔ کابینہ کے حجم کے بارے میں مستقبل کی حکومت کو ضرور سوچنا ہو گا۔ اگر وہ نہیں سوچیں گے تو آئی ایم ایف انہیں سوچنے پر مجبور کر دے گا۔ شہباز حکومت میں 3وفاقی وزرائ، 7 وزرائے مملکت، 38 کی تعداد میں معاونین سمیت مکمل تعداد 78 تھی۔ ان سب کو تنخواہوں، مراعات، سہولتوں کے علاوہ سٹاف، دفاتر اور گاڑیاں، پٹرول کی سہولت کے ساتھ مہیا کئے گئے تھے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے میں وفاقی حکومت جتنی پاپڑ بیلنے پڑے تھے، اس کے بعد اندازہ تو یہ تھا کہ کابینہ حجم کم کر دیا جائیگا اور بے جا فضول اخراجات پر پابندی عائد کرتے ہوئے سخت کفایت شعاری کی جائے گی۔ لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے جو الوداعی کھانوں کو اہتمام کیا وہ اس لحاظ سے ضرور باعث شرم ہیں کہ اس کی تشہیر نہیں ہونا چاہئے تھی۔ ملک میں عوام کی بھاری اکثریت دو وقت کے کھانے کے لئے ترس رہے ہیں اور ان کے حکمران ملک کے پیسے پر عیاشی کر رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ 5 سال اسمبلی جو میں ہوا وہ ہم سب کیلئے باعث شرم ہے، ہم نے سبق نہیں سیکھا جو سیکھنا چاہیے تھا۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے الوداعی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج یہاں جو فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہیں وہ سارے جیل میں رہے، سپیکر نے پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے کی زحمت نہ کی۔ یہاں لڑائیاں ہوئیں، کون سی گالیاں ہیں جو یہاں نہیں دی گئیں؟ امید ہے اگلی اسمبلی میں جو آئیں گے وہ ایوان کا تقدس بحال کریں گے۔ عام تاثر یہ ہے ارکان پارلیمنٹ کرپٹ ہیں، جو ہم ارکان کو تنخواہ ملتی ہے اس سے ہمارے پیٹرول کا خرچ بھی پورا نہیں ہوتا۔ لیگی رہنما نے مزید کہا کہ یہاں پچھلے دنوں 75 یونیورسٹیوں کے قیام کے بل منظور ہوئے، آپ کو ایسے کاموں کو روکنا چاہیے تھا۔ جب شاہد خاقان جیسا شخص اپنی حکومت کو روک نہیں سکا تو آئندہ کون کس کو روکے گا۔ اب تو معاملہ انتخابات کے انعقاد کا ہے لیکن ملک میں جو باتیں گردش میں ہیں ان سے نہیں لگتا کہ نگران حکومت آئین کی پاسداری کر سکے گی۔ آئین کی پاسداری اور سپریم کورٹ کے احکامات کی پاسداری تو شہباز حکومت نے پنجاب میں انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں بھی نہیں کیا تھا۔ دیکھنا یہ ہے کہ نگران حکومت اپنی آئینی مدت کے دوران انتخابات کے انعقاد کے بارے میں کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔
پاکستان میں انتخابات میں متوقع تاخیر پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سائوتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ ولسن سینٹر کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کہا ہے کہ ( یہ سمجھا جارہا ہے کہ) انتخابات میں تاخیر سے اتحادی حکومت کے بڑے پارٹنرز پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کو موقع ملے گا جو کہ دیکھ سکیں کہ عمران خان کی تحریک انصاف کا مقابلہ کیسے کیا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انتخابات میں تاخیر سے عوامی غصے میں اضافہ ہوتا جائے گا اور پی ٹی آئی کی صورت میں موجود موجودہ اپوزیشن ابھرتی رہے گی بالخصوص ایک ایسے وقت میں جبکہ وہ پہلے ہی کئی ماہ سیکریک ڈائون کا سامنا کر رہی ہے۔ نگران حکومت کیلئے معاشرے میں ابھری ہوئی تقسیم شدہ صورتحال کے دوران کام کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی نام کے تھنک ٹینک کے سربراہ احمد بلال محبوب نے کہا ہے کہ ’’ اقتصادی فیصلے ہمیشہ ہی سخت ہوتے ہیں اور اکثر غیر مقبول ہوتے ہیں اور ان کے موثر نفاذ کے لیے طویل دورانیے کی حکومتیں درکار ہوتی ہیں، اس لیے آئندہ انتخابات کی ایک خاص اہمیت ہے کیونکہ ان کے نتیجے میں جو نئی حکومت بنے گی اس کی مدت پانچ سال ہوگی اور وہ اقتصادی بحالی کے لیے اہم فیصلے لینے کی مجاز ہوگی۔ سابق وفاقی حکومت کے وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ کا البتہ اندازہ ہے کہ کہ 2023 انتخابات کا سال نہیں ہوگا۔ انتخابات کے انعقاد کے دوران حصہ لینے والوں کے درمیان جس قدر کشیدگی اور جتنی خلیج پائی جائے گی اس کے بارے سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔
اسی کشیدگی میں جانے والی وفاقی اور سندھ حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر کلیدی تقرریاں اور بھرتیاں کی گئی ہیں۔ وفاقی حکومت نے اپنی میعاد مکمل ہونے سے قبل اقتصادیات اور مالیات سے متعلق وزارتوں اور ان سے وابستہ محکموں میں کئی کلیدی عہدوں پر تقرریاں کردی ہیں۔ جن میں ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک سلیم اللہ کا انتخاب بھی شامل ہے۔ وزارت خزانہ نے مذکورہ منصب کے لیے وفاقی کا بینہ کو تین نام دیئے گئے تھے۔ جس میں سلیم اللہ کی منظوری دی گئی۔ اس کے علاوہ نیشنل بینک ایس ایس ای سی پی اور سی سی پی کے سر براہ بھی مقرر کئے گئے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل ڈیبٹ ( قرضہ ) آفس کے طور پر سابق بیوروکریٹ محسن چاند نا کا تقرر عمل میں لایا گیا ہے۔ حال ہی میں رحمت علی حسنی کو نیشنل بینک کا صدر بنایا گیا تھا۔ حکومت نے مسابقتی کمیشن میں چار نئے ارکان ڈاکٹر کبیر احمد سدھو، سلمان امین، عبدالرشید شیخ اور سعید احمد نواز کی گزشتہ ماہ تعیناتیاں کیں۔ کبیر احمد سدھو سی سی پی کے چیئرمین مقرر کر دیا۔ اتحادی حکومت نے جانے سے قبل سوئی سدرن کا نیا بورڈ بھی تشکیل دینے کی منظوری دیدی۔ ڈاکٹر شمشاد اختر ایس ایس جی سی بورڈ کی چیئر پرسن ہوں گی۔ وفاقی کابینہ سے سرکولیشن سمری پر منظوری لے لی گئی۔ سوئی سدرن بورڈ ارکان میں خالد رحمان، محمد اکرم شامل ہیں۔ بورڈ میں عمر ظفر اللہ، صاحبزادہ رفات رئوف علی، رضوان اللہ خان بھی شامل ہیں۔ سوئی سدرن بورڈ میں طحہ احمد خان بطور رکن شامل ہوں گے۔ ایس ایس جی سی ایل کا نیا بورڈ3 سال کیلئے ہوگا۔ معروف دانشور اور کالم نگار خورشید احمد ندیم کو رحمت للعالمین اتھارٹی کا چیئر مین بنا دیا گیا۔ ان کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ ادھر وفاقی حکومت نے نعیم الدین خان کو چیئر مین بورڈ آف ڈائریکٹرز زرعی ترقیاتی بنک مقرر کرنے کی منظوری دیدی گئی۔ ان کی تقرری تین سال کیلئے کی گئی ہے۔ کابینہ کی منظوری کے بعد فنا نس ڈویژن نے ان کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ وفاقی حکومت نے چیئرمین نیپرا کے لئے وسیم مختار کے نام کی منظوری دیدی۔ حکومت نے طاہر یعقوب بھٹی کو زرعی ترقیاتی بینک لمیٹیڈ کا صدر تعینات کر دیا ہے، وزارت خزانہ کے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق طاہر یعقوب بھٹی کو آئندہ تین برس کے لیے صدر ؍ سی ای او مقرر کیا گیا ہے ان کی کلیئرنس سٹیٹ بنک نے دی۔ اس طرح اور انداز میں حکومت سندھ نے تو تمام بھرتیاں کر دی ہیں تاکہ اگر انتخابات کے نتیجے میں ان کے سیاسی مخالفین حکومت قائم کرتے ہیں تو انہیں قدم قدم پر تاخیری حربوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button