Ali HassanColumn

سیاسی جماعتوں میں تطہیری عمل

علی حسن
سیاسی جماعتوں میں تطہیر وقت اور سیاست کو لونڈی بنانے کے خلاف شدید ضرورت ہے، پاکستان میں اپنی روح کے مطابق جمہوری اقدار کو پنپ کر سیاست کو فروغ دینا ہوگا وگرنہ سیاست تو چل ہی رہی ہے۔ ایسی سیاست جسے جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے لیکن بادشاہت سے بھی بہت زیادہ بد ترین طریقہ کار ہے۔ سیاسی جماعتوں کو الیکٹ ایبلز ( ایسے افراد جن کے پاس وسائل ہیں اور ان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ انتخابات میں کامیابی کی اہلیت رکھتے ہیں) کے ہاتھوں بلیک میل ہونے سے جان چھڑانی چاہئے تھی لیکن مفادات اور ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کی خواہش کی وجہ سے سیاسی رہنمائوں نے بلیک میل ہونا بہتر سمجھا بجائے اس کے کہ ایسے سیاست دانوں سے جان چھڑاتے۔ ایوب کے دور میں ایبڈو قوانین کے تحت سیاست دانوں پر پابندی کے باوجود سیاست نتھر نہیں سکی بلکہ اور گندگی کا شکار ہو گئی۔ اس وقت کے حکمران جمہوری سیاست کی خواہش رکھنے کے باوجود سیاست میں صفائی نہیں کر سکے۔ صفائی نہ ہونے کی وجہ سے ہی جمہوریت اور انتخابات کے نام پر اسمبلیوں میں رشتہ داروں کی بھر مار ہو گئی جس پر سیاسی جماعتوں، الیکشن کمیشن، حکومتوں نے توجہ دینے کے بجائے صرف نظرانداز کیا۔ آج اکثر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں کی فہرستوں کا جائزہ لیا جائے تو بھیانک صورتحال سامنے آتی ہے۔ رشتہ داروں کی بھر مار ہے۔ کیا یہ ہی جمہوریت ہے؟ کیا یہ ہے عوام کی نمائندگی کا طریقہ کار ہے؟ مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، چودھری شجاعت حسین کا گھرانہ، سارے بھائی بھتیجے بھانجے منتخب ہونا جانتے ہیں اور اسمبلیوں میں موجود ہیں۔ کیا دولت مند خانداانوں کے تمام کے تمام افراد سیاست کر نے کے اہل ہیں۔ اگر ان سے اسمبلی کے قواعد و ضوابط اور آئین پاکستان کے بارے میں سوالات کر لئے جائیں تو ان کی اہلیت کا پردہ چاک ہو جائے گا۔
عجیب اتفاق ہے کہ سیاسی حالات کے جبر نے کم از کم دو سیاسی جماعتوں کو تو مجبور کر دیا کہ وہ ہمت کر کے اپنی اپنی پارٹیوں میں تطہیر کے عمل کی ابتدا کریں۔ تحریک انصاف نے تو اپنے درجنوں سابق منتخب شدہ افراد کو پارٹی سے نکال باہر کیا۔ تطہیری عمل کا آغاز ہوا ہے جو کئی لحاظ سے پاکستان کی سیاست میں سے غلاظت کو ختم کر سکے گی۔ مفاد پرستی، موقع پرستی، بار بار سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے، کسی نظریہ، اصول کی بغیر پیسہ بنانے اور اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کرنے کی غرض سے سیاست کرنے کے رجحان کو ختم کرنے میں مدد گار ہو سکے گا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو یہ ہمت نصیب ہو گی کہ وہ بھی اپنی صفوں میں سے موقع پرستوں کی صفائی کریں۔ ایسا اصول اپنائیں کہ ایک خاندان کو صرف ایک ہی نشست پر ٹکٹ دیں اور دوسرے خاندانوں سے تعلق رکھنے والوں کو موقع دیں تاکہ سیاست میں نیا خون پیدا ہو اور نئی سو چ سامنے آئے تاکہ جمہوریت اور جمہوری روایت پنپ سکیں اور مستحکم ہو سکیں۔ اسی طرز عمل سے عوام کی فلاح و بہبود کا راستہ نکل سکے گا اور پاکستان موروثی اور خاندانی سیاست سے محفوظ رہ سکے گا۔ عین ممکن ہے کہ یہ عمل اور موقع پاکستانی سیاست کے لئے کوئی بہترین موقع پیدا کر نے کا سبب بن جائے۔
تحریک انصاف کے ایک اعلان میں کہا گیا ہے کہ ’’ اس لسٹ کو شیئر کرنے کا مقصد سب کو یہ بتانا ہے کہ کوئی چاہے کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو تحریک انصاف میں صرف تبھی رہ سکتا ہے اگر وہ وفادار اور بہادر ہے ورنہ ہمیں فرق نہیں پڑتا‘‘۔ تحریک انصاف نے سابق وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان احمد بزدار، ڈیرہ غازی خان، سابق وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار، رحیم یار خان، سابق ایم پی اے میاں طارق عبداللہ، ملتان، وزیر مملکت خارجہ حنا ربانی کھر کے ماموں، نواب بہاول عباسی، بہاولپور، نواب آف بہاولپور صلاح الدین عباسی کے بیٹے، سابق ایم پی اے میاں شفیع محمد، رحیم یار خان، سابق ایم پی اے میاں اسلام کے بیٹے اور میاں ستار کے بھائی، سابق ایم این اے سید محمد اصغر شاہ، بہاولنگر، سید محمد ندیم شاہ ( اصغر شاہ کے بھانجے)، سابق ایم این اے سردار محمد خان لغاری، ڈیرہ غازی خان ( انہوں نے شہباز شریف کو 2018الیکشن میں شکست دی تھی)، سابق صوبائی وزیر محمد اختر ملک، ملتان، سابق ایم این اے فاروق اعظم ملک، بہاولپور، سابق ایم پی اے جاوید اختر انصاری، ملتان، سابق ایم پی اے ظہیر الدین خان علیزئی، ملتان، سابق ٹکٹ ہولڈر ملک اکرم کنہوں، ملتان، سابق ایم پی اے سلیم اختر، ملتان، رحیم یار خان سے تین صوبائی ٹکٹ ہولڈر، غلام محی الدین سولنگی، راجہ محمد سلیم، مخدوم افکار الحسن ( مخدوم خسرو بختیار کے کزن)، ٹکٹ ہولڈر میاں احتشام الحق لالیکا، بہاولنگر وغیرہ کو پارٹی سے نکال باہر کیا ہے جنہوں نے تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت کی حمایت کی ان میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجہ ریاض اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان بھی شامل ہیں۔ تحریک انصاف کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے راجہ ریاض، نور عالم سمیت مزید13ارکان کو پارٹی سے نکال دیا جن میں رمیش کمار وانکوانی، نزہت پٹھان، وجیہہ قمر، سردار ریاض محمود خان مزاری شامل ہیں۔ اعلامیے کے مطابق رانا محمد قاسم نون کی بھی پی ٹی آئی کی بنیادی رکنیت ختم کردی گئی جبکہ نواب شیر، مخدوم زادہ سید باسط احمد سلطان، افضل خان ڈھانڈلہ، محمد عبدالغفار وٹو، عامر طلال گوپانگ اور احمد حسین دہر کو بھی پارٹی سے نکال دیا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کو ووٹ ڈالنے پر بلال احمد، کریم بخش گبول کو پارٹی سے نکال دیا۔ تحریک انصاف نے محمد علی عزیز، عمر اماڑی، رابعہ اظفر نظامی، سچانند لکھوانی سچل، سید عمران علی شاہ، سنجے گنگوانی کی بنیادی رکنیت ختم کرکے پارٹی سے نکال دیا۔ ارکان کو پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کو ووٹ دینے پر شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ مقرر مدت کے اندر نوٹس کا تسلی بخش جواب موصول نہ ہونے کی صورت میں ارکان کی بنیادی رکنیت ختم کی گئی ہے۔
سیکرٹری جنرل تحریک انصاف عمر ایوب کے دستخط سے جاری شدہ برطرفی کے نوٹس میں تمام رہنمائوں کو کسی بھی طرح سے پارٹی کا نام اور عہدہ استعمال کرنے سے گریز کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
پیپلز پارٹی نے بھی بے وفائی کرنے والوں کو پارٹی ٹکٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیئرمین کی ہدایت پر امیدواروں کی فہرستوں میں پارٹی چھوڑنے والوں کے نام شامل نہیں کئے جارہے اور انہیں ہرگز معافی نہیں دی جائے گی۔ پارٹی ذرائع نے کہا کہ یہ فیصلہ چیئرمین بلاول بھٹو کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں کیا گیا، فیصلے کی زد میں آنے والوں میں بڑے بڑے نام شامل ہیں، جن سیاسی رہنمائوں نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ حاصل کرکے ریٹرننگ افسر کو جمع نہ کرائے تھے ان میں فردوس عاشق اعوان، قیوم جتوئی فیملی، شوکت بسرا، نوشیر لنگڑیال، کاشف نوید پنسوتہ، ڈاکٹر جاوید گنجال سمیت دیگر شامل ہیں۔ ذرائع نے کہا کہ ان تمام رہنمائوں نے پارٹی میں دوبارہ شمولیت کے لیے سینئر پارٹی رہنمائوں سے سفارشیں کرائی ہیں لیکن بلاول بھٹو نے انکار کر دیا ہے، یہ تمام رہنما پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں چلے گئے تھے۔ چیئرمین کی ہدایت پر امیدواروں کی فہرستوں میں پارٹی چھوڑنے والوں کے نام شامل نہیں کئے جارہے اور انہیں ہرگز معافی نہیں دی جائے گی۔ ذرائع نے کہا کہ اس اعلیٰ سطح کے اجلاس میں آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی، مخدوم احمد محمود، نیئر بخاری، عبدالقادر شاہین، رخسانہ بنگش اور سینئر رہنما شریک تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button