تازہ ترینخبریںٹیکنالوجی

انسانی موت کا عمل پرسکون ہوتا ہے یا تکلیف دہ؟ سائنسی تحقیق نے نئی بحث چھیڑ دی

برسوں یہی سوچا جاتا رہا کہ کیا زندگی کے آخری لمحات میں جب ہم موت کی آغوش جا رہے ہوتے ہیں وہ پل تکلیف دہ ہوتا ہے۔ کئی مذاہب بھی اسی کیفیت کو بیان کرتے ہیں، لیکن سائنس کے میدان اس سوال کا تحقیقی جواب حاصل کرنے کے لیے مسلسل تحقیق کے مراحل میں ہیں۔ سائنسدان سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا وہ پل زبردست خوشی دینے والا ہوتا ہے؟ یا تکلیف دہ؟ تکلیف دہ ہوتا ہے تو اکثر مردوں کے چہرے سکون کا احساس کیوں لئے ہوئے ہوتے ہیں؟ جب کہ کئی لوگ موت سے قبل بے چین نظر آتے ہیں۔ لیکن اب میڈیکل سائنس نے نئی تحقیق میں کچھ جوابوں جب کہ کئی سوالوں کا اضافہ کیا ہے۔ نئی تحقیق کا مفروضہ یہ رہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ مرنے کا عمل مرنے والے کے لئے دردناک کی بجائے مسرور کن ہو؟ تکنیکی طور پر وہ پوچھتے ہیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ انتقال کے وقت جسم میں تناؤ دور کرنے والا انڈورفن ہارمون بھرپور مقدار میں خارج ہوتا ہو؟

عام طور یہ تصور کیا جاتا ہے کہ زندگی کے آخری لمحات میں ایک جنگ سی چل رہی ہوتی ہے۔ لیکن کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ جسم موت کو خوشی خوشی گلے لگاتا ہو؟ دنیا کے اہم اشاعتی اداروں میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ متاثرہ شخص کے موت کے مقام پر پہنچنے تک ہمیں یہ سمجھ آنے لگتا ہے کہ بس اب اس کی دو چار روز کی زندگی اور باقی ہے۔ بہت سے لوگ اس پورے عمل سے ایک ہی دن میں گزر جاتے ہیں۔ اور کچھ لوگ زندگی اور موت کے درمیان تقریباً ایک ہفتے تک رہتے ہیں۔ یہ صورت حال رشتہ داروں کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اس تحقیق نے ایک اور حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایرین ٹریسی کی ریسرچ کے مطابق مذہبی عقائد بھی درد کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مراقبہ بھی فائدہ پہنچاتا ہے۔ بی بی سی میں شائع ہونے والی اس تحقیقی دستاویز کے مطابق جیسے جیسے موت کی گھڑی قریب آتی ہے جسم میں تناؤ پیدا کرنے والے کیمیکل میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ ممکنہ طور پر جسم میں موت کے وقت تناؤ کم کرنے والے انڈورفن ہارمون کا اخراج ہوتا ہے۔ لیکن کبھی اس بارے میں کوئی ریسرچ نہیں ہوئی ہے، اس لیے اسے یقینی طور پر کہنا ممکن نہیں۔

جب جسم کام کرنا بند کرتا ہے تو ظاہر ہے دماغ بھی متاثر ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے بھی زندگی کے آخری لمحات کا تجربہ متاثر ہوتا ہو۔ امریکی سائنسدان جل بولٹ ٹیلر نے ایک ٹیڈ ٹاک میں اس تجربے پر تبصرہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے موت کو قریب سے محسوس کیا۔ انہون نے بیان کیا کہ سٹروک کی وجہ سے ان کے دماغ کے بائیں حصے کے بند ہو جانے کے باعث انہیں ہر فکر سے ‘آزاد’ ہونے جیسا احساس ہوا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بولٹ ٹیلر کو دماغ کے بائیں جانب چوٹ لگی تھی۔ جبکہ دماغ کے داہنی جانب چوٹ لگنے سے بھی آپ کے خدا کے نزدیک ہونے کے احساس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button