ColumnRoshan Lal

مسعود کی موت کے بعد۔۔۔۔

روشن لعل

کسی بھی انسان کی موت اگر عام لوگوں کے لیے افسوسناک واقعہ تو مرنے والے کے پیاروں کے لیے سوگ کا مقام ہوتی ہے۔ افسوس اور سوگ میں کچھ ایسا فرق ہے جسے صرف کسی اپنے کی موت پر ہی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ بعض لوگوں کی موت ایسے غمناک واقعہ کی شکل میں رونما ہوتی ہے کہ ان کے اپنوں کے ساتھ عام لوگوں پر بھی سوگ کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی ختم کرنے والے راولپنڈی کے مسعود کی موت بھی کچھ ایسا ہی سوگ کی کیفیت میں مبتلا کرنے والا واقعہ ہے۔ مسعود کو پہلے13ہزار اور پھر اسی تسلسل میں 22ہزار روپے قرض لینے کے بعد خود کشی کرنے کی طرف مائل ہونا پڑا۔ مسعود خود کشی کرنے کی طرف مائل تو چند ہزار روپے قرض لینے کے بعد ہوا مگر اس کی خود کشی کی اصل وجہ یہ ہے کہ قرض میں لی گئی معمولی سی رقم مختصر سے عرصہ میں سود در سود اضافے کے بعد سات لاکھ سے بھی زیادہ ہو گئی تھی۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چند ہزار دے کر سات لاکھ روپے واپسی کا مطالبہ کرنے والوں نے مسعود کی زندگی کس قدر اجیرن کر دی ہوگی کہ اسے خود ہی اپنی ان سانسوں کو بند کرنا پڑا جن کی روانی کے لیے وہ معمولی سا قرض لینے پر مجبور ہوا تھا۔ مسعود کو ان لوگوں نے خود کشی کرنے پر مجبور کیا جو انٹرنیٹ پر بنائی گئی ایپس کے ذریعے لوگوں کو بظاہر آسان شرائط پر قرض فراہمی کی پیشکش کرتے ہیں۔ قرض فراہمی کی ایپس چلانے والوں کی دھمکیوں، بلیک میلنگ اور غیر اخلاقی دبائو کی وجہ سے کی گئی مسعود کی خود کشی تو حالیہ واقعہ ہے مگر مخصوص ایپس کے ذریعے قرض فراہمی کا غلیظ اور غیر قانونی دھندہ یہاں کافی عرصہ سے جاری ہے۔ ایپس کے ذریعے قرض کی پیشکش کرنے والوں کا طریقہ واردات کیا ہوتا ہے اس کی تفصیل سوشل میڈیا پر تو بہت پہلے منظر عام پر آگئی تھی مگر مسعود کی خود کشی کی بعد مین سٹریم میڈیا نے بھی اسے برسر عام کر دیا ہے۔ منظر عام پر آنے والی تفصیل کے مطابق سب سے پہلے انٹر نیٹ پر قرض فراہم کرنے والی ایپس کی تشہیر یہ پراپیگنڈا کرتے ہوئے کی جاتی ہے کہ ان کی طرف سے آسان شرائط پر جو قرض فراہم کیا جائے گا اس کا سود ایک لاکھ قرض پر صرف چھ ہزار ہوگا جسے اصل زر سمیت ایک سال کے اندر واپس کرنا ہوگا۔ اس پراپیگنڈے کے جھانسے میں آکر جب کوئی مجبور، ایپ پر موجود قرض کی درخواست پر کرتا ہے تو اس سے دیگر ذاتی معلومات کے ساتھ یہ ناقابل تنسیخ اجازت بھی لے لی جاتی ہے کہ قرض فراہم کرنے والوں کو اس کے موبائل میں موجود ہر قسم کی ظاہر ی اور خفیہ معلومات تک رسائی ہو گی۔ ناگزیر ضرورتوں کے تحت قرض لینے پر مجبور انسان بلا سوچے سمجھے قرض دینے والوں کی ہر بات مان لیتا ہے۔ قرض کی معمولی سی رقم دینے کے وعدے پر ہر اقرار حاصل کر لینے کے بعد قرض کی ایپ والے نہ تو قرض خواہ کو اس کی مطلوبہ رقم دیتے ہیں اور نہ ہی اس پراپیگنڈے کے مطابق عمل کرتے ہیں جسے سچ سمجھ لوگ قرض حاصل کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں ۔ قرض ایپ والے قرض خواہ سے اپنی مرضی کا اقرار نامہ حاصل کرنے کے بعد معمولی سی رقم ادا کر کے اپنی واردات پر عمل شروع کر دیتے ہیں ۔ جو قرض معمولی سود پر ایک سال کے دوران ادا کرنے کا تاثر دیا گیا ہوتا ہے اس کی واپسی کا تقاضا قرض وصول ہونے کے چند دنوں بعد ہی شروع کر دیا جاتا ہے ۔ قرض ایپس والوں کے تقاضوں کے مطابق قرض واپس نہ کیے جانے پر قرض پر سود ہوائی جہاز کی سپیڈ اور سمندری جہاز کے سائز جتنا بڑھنا شروع ہو جاتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جو بندہ چند ہزار روپے قرض لینے پر مجبور ہوا ہو وہ قرض وصولی کے چند دن بعد قرض میں لی ہوئی رقم سے کئی گنا زیادہ ادا کرنے کے قابل کیسے ہو سکتا ہے۔ جب قرض دار ، قرضہ ایپس والوں کے تقاضوں کے مطابق اصل زر اور سود ادا نہیں کرپا تا تو پھر اس کے فون سے حاصل کردہ ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے اس کی ذاتی اور حساس نوعیت کی تصویریں اور ویڈیوز کو منظر عام پر لانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ اسی تسلسل میں اسے اس کے گھر کی خواتین کی فوٹو شاپ کی ہوئی نازیبا تصویریں اور ویڈیو ز دکھائی جاتی ہیں اور دھمکی دی جاتی ہے کہ ان تصویروں اور ویڈیوز کو کسی ڈارک ویب سائٹ پر بیچ دیا جائے گا۔ اس طرح کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہونے والا انسان چند ہزار قرض لینے کی وجہ سے قرض ایپ والوں کے ہاتھوں کھلونا بن جاتا ہے اور چوری چکاری کر کے ، اپنے جاننے والوں سے مزید قرض لے کر یا اگر کچھ ملکیت میں رہ گیا ہو تو اسے بیچ کر قرض دینے والوں کی ناجائز فرمائشیں پوری کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ایسی ہی واردات جب راولپنڈی کے مسعود کے ساتھ بھی ہوئی تو اس نے بے بس ہو کر خود کشی کرنے کو ترجیح دی۔ مسعود نے خود کشی کرنے سے پہلے اپنی بیوی کے لیے ایک آڈیو پیغام چھوڑا۔ مسعود کا چھوڑا ہوا آڈیو پیغام اب برسر عام ہو چکا ہے۔ یہ آڈیو پیغام سن کر کئی دیگر باتوں کے علاوہ یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ مسعود ایک حساس انسان تھا۔ مسعود نے تو حساس ہونے کی وجہ سے خود کشی کر لی مگر قرضہ ایپس کے چنگل میں پھنسنے والا ہر بندہ مسعود کی طرح حساس نہیں ہوتا۔ ان قرضہ ایپس چلانے والوں کے چنگل میں اب بھی کئی ایسے لوگ پھنسے ہوئے ہونگے جو روز مرتے اور روز جیتے ہونگے۔ ہمارے ارد گرد ہی کئی ایسے لوگ موجود ہو سکتے ہیں جو زندہ لاش بن کر قرضہ ایپس چلانے والوں کی ناجائز فرمائشیں پوری کرنے میں جتے ہوئے ہونگے۔ قرضہ ایپس چلانے والوں کے جس چنگل میں پھنس کر مسعود خود کشی کرنے پر مجبور ہوا ملک میں اس کے پھیلے ہوئے جال کے متعلق گزشتہ برس ہی سوشل میڈیا پر باتیں ہونا شروع ہو گئی تھیں مگر ایسے جرائم کے تدارک پر معمور ایف آئی ای جیسے ادارے ان باتوں سے اسی طرح بے نیا ز رہے جس طرح وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر برسوں سے جاری فراڈ کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ مسعود کی خود کشی کے بعد ایف آئی اے اب اچانک حرکت میں آگیا ہے۔ ایف آئی اے کے حرکت میں آنے کے بعد نہ صرف کئی جعلی قرض ایپس کی نشاندہی ہوئی ہے بلکہ انہیں چلانے والے لوگ بھی گرفتار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ مسعود نے اپنی زندگی تو ختم کر لی مگر اس کی خود کشی کے بعد کئی ایسے لوگوں میں دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آنے کی امید پیدا ہوگئی جو قبل ازیں قرض ایپس والوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر زندہ لاش کی طرح زندگی گزار رہے تھے۔ گو کہ ایسا ایف آئی اے کے سرگرم ہونے کے بعد ممکن ہوا ہے مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ایف آئی اے کے لوگ قرضہ اپیس جیسے سائبر کرائم کے خلاف سرگرم ہونے کے لیے کسی مسعود کی خود کشی کا انتظار کیوں کرتے رہتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button