CM RizwanColumn

ہائبرڈ وار کے گھنائونے کردار

ہائبرڈ وار کے گھنائونے کردار

سی ایم رضوان
سانحہ 9مئی کے ملزمان کو سزائیں دینے میں جوں جوں تاخیر ہو رہی ہے توں توں ان ملزمان کو ریلیف دینے کے حوالے سے چہ میگوئیاں بڑھ رہی ہیں۔ عوام جانتے ہیں کہ اس تاخیر کے ذمہ دار بھی خود اس واقعہ کے ماسٹر مائنڈ، سہولت کار اور اداکار ہیں جبکہ اس سانحہ کے اصل ہدف عسکری ادارہ کی جانب سے مسلسل تحمل، معاملہ فہمی اور ضابطوں کی پابندی پر عمل جاری ہے جبکہ اس کے برعکس خاص طور پر عمران خان کے خلاف مقدمات پر یکسر پیش رفت نہ ہونے کے مسلسل عمل سے لگتا ہے کہ ملک میں عمران خان کے لئے الگ قانون ہے اور دیگر عوام و خواص کے لئے علیحدہ قانون اور ضابطے کام کر رہے ہیں۔ ایسے بھی لگتا ہے کہ ملک میں دیگر تمام کیس ختم ہو گئے ہیں اور صرف عمران خان کے کیس نمٹانا اور انہیں ریلیف دینا ہی ترجیح رہ گئی ہے۔ مثال کے طور پر ملٹری کورٹس سی متعلق ایک رات پہلے درخواست آئی، اگلے دن کیس لگ گیا، سماعت بھی شروع ہو گئی اور ملکی سکیورٹی کے خلاف کئے گئے جرائم تک کو عمران کی محبت میں عام جرائم سمجھ لیا گیا۔ ایسی کیا جلدی، ایسی کیا مجبوری کہ ملکی دفاع کے خلاف جرم کروائے والے لاڈلے کو ہر قیمت پر ریلیف دیا جاتا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ 9مئی کے واقعات معمولی نوعیت کے تھے۔ حالانکہ ملٹری کورٹ کے فیصلے کے خلاف 3جگہ اپیل بھی ہو سکتی ہے اور ملٹری کورٹ میں ملزم وکیل بھی کر سکتا ہے تو پھر ڈر کس بات کا۔
دوسری طرف زمینی حقائق کے مطابق پاکستانی عوام مختلف بیانیوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ گھروں میں تقسیم، محلوں میں تقسیم، شہروں میں تقسیم، ملک کی پارلیمنٹ میں تقسیم، اداروں میں تقسیم، عدلیہ میں تقسیم، ہر جگہ تقسیم۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہمارے دشمن کا بین الاقوامی ایجنڈا بھی یہی نہیں۔ کیا یہ وہی جنگ نہیں جو منفی پراپیگنڈے اور جھوٹی خبروں کی بنیاد پر ہم مسلط کی گئی تھی جو کہ اب اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے کیونکہ اسے کائونٹر کرنے کے لئے خود پاک فوج میدان میں آ چکی ہے۔ دوسری جانب پاک فوج کے کھلے دشمن بھی جو اسی ملک میں رہتے ہیں وہ بھی اپنے جرائم کی وجہ سے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ کیا اس جنگ کے عروج پر پہنچنے کا یہ واضح اشارہ نہیں کہ آئی ایم ایف ہماری وفاقی حکومت کے ساتھ سٹینڈ بائی معاہدہ فائنل کر لینے کے بعد بھی اپنے جنگی آقائوں کے اشاروں پر ادائیگی سے قبل پاکستان میں اپنی اس ہائبرڈ وار کے سپہ سالار عمران خان سے ملاقات کر کے اس سے اجازت لینا ضروری سمجھتا ہے اور عمران خان آئی ایم ایف وفد سے ملاقات میں اس معاہدے کو انتخابات سے مشروط کروانے کا مشورہ دے کر قوم سے خطاب میں بھی بتا دیتا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کے لئے پی ٹی آئی کا اقتدار میں انا ضروری ہے۔ واضح ہو کہ اس ہائبرڈ نفسیاتی جنگ میں عوام نہیں سمجھ پاتے کہ ملک کا اصل دشمن کون ہے اور دوست کون؟ یعنی اس وقت پاکستانی عوام ہائیبرڈ وار لیول کے مدار میں داخل ہو چکے ہیں جو کہ بظاہر سیاسی ہے اور حقیقت میں عالمی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے پاکستان پر مسلط کی گئی ہے۔
دو ماہ قبل ہی سانحہ نو مئی کے ماسٹر مائنڈز، حملہ آوروں اور سہولت کاروں پر دہشت گردی کے مقدمات چلانے اور ان کو آئندہ دنوں میں گرفتار کرنے کا حکم دیا جا چکا تھا۔ جناح ہائوس اور عسکری تنصیبات پر حملے میں ملوث افراد کی شناخت ہو چکی۔ تصاویر جاری اور 2800سے زائد گرفتاریاں عمل میں لائی جا چکی اور نادرا کے تعاون سے ان کی مکمل شناخت ملنے کے بعد اخبارات میں ان قومی مجرموں کی تصاویر بھی شائع ہو چکیں، نو مئی کے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ 52کی دفعہ 59اور 60کے تحت مقدمات درج کروانا بھی پاکستانی قانون کے عین مطابق ہے اور ان دفعات کے تحت سزائے موت یا کم از کم عمر قید کی سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں۔ آرمی ایکٹ 1952کی کلاز 59جو 76صفحات پر مشتمل ہے، سول جرائم سے متعلق ہے۔ عسکری املاک کو نقصان پہنچانے کے جرم میں 3500افراد کے مقدمات آرمی ایکٹ 1952کے تحت فوجی عدالتوں میں چلائے جا سکتے ہیں لیکن ملک و قوم اور ریاست نے جن افراد کو طاقت، اختیار اور بھاری بھر کم مراعات اور آسائشیں دے کر ملکی مفاد اور تحفظ کے لئے کام اور فیصلے کرنے کا فرض سونپ رکھا ہے وہ شخصی محبت اور سیاسی عصبیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف مسلسل اپنے فرائض سے چشم پوشی بلکہ مجرمانہ حکمت عملی اختیار کر کے اس سے بھی آگے جا کر ملک کو خطرات سے دوچار کرنے کا مبینہ منصوبہ بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب القادر ٹرسٹ کے لئے پنجاب حکومت، ٹرسٹ ایکٹ کے تحت عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو تبدیل کر کے قانون کے مطابق ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنی کے لئے قانونی ماہرین سے رائے حاصل کر چکی ہے کیونکہ طاقت سے اقتدار حاصل کرنے کے لئے جلائو گھیرائو اور عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر دبائو ڈالنے کے لئے نئی روایت کی داغ بیل ڈال کر ریاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ ان تمام جرائم سے تحفظ کے لئے پیدا کی گئی سیاسی کشمکش نے ملک کو ایک مدت سے جس انتشار میں مبتلا کر رکھا ہے اور اس کا دائرہ جس طرح کلیدی ریاستی اداروں تک وسیع کر دیا گیا ہے، اس کی وجہ سے حالات کی سنگینی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ان حالات میں آئین کی بالادستی کو یقینی بنا کر معاملات کو درست کرنے میں عدلیہ کا ادارہ موثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن آج اس کے اندر بھی اختلافات و تقسیم اور جانبداری واضح نظر آ رہی ہے، جس نے اس کے منصوبوں کو سخت متنازع بنا دیا ہے۔ اس کی روشن مثال ماضی قریب میں عمران خان کی گرفتاری اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے اس گرفتاری کو قانونی طور پر جائز قرار دیئے جانے کے فیصلہ اور اس پر ملک بھر میں تشدد اور احتجاج کے بعد 11مئی کو چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے عمران خان کی فوری رہائی اور 12مئی کو اس معاملے کی ازسرِ نو سماعت کے حکم کی شکل میں ہوا۔ حیرت انگیز طور پر سپریم کورٹ میں ہونے والی اس تمام کارروائی اور اس کے فیصلے کی تفصیل نے آئین و قانون کی باریکیوں کو بخوبی سمجھنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کیونکہ جو ملزم ریمانڈ پر ہو تو ریمانڈ کے خاتمے تک اس کو عبوری ریلیف نہیں دیا جا سکتا۔ عوامی سطح پر یہ امید کی جا رہی تھی کہ تحریک انصاف کے کارکنوں نے مسلح افواج کے شہدا کی یادگاروں اور جی ایچ کیو سمیت قومی اور عسکری اہمیت کے متعدد مقامات، جناح ہائوس جو کور کمانڈر کی رہائش گاہ تھی اس کو اور دیگر سرکاری املاک کو جس طرح تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا عدالتِ عظمیٰ اس کا نوٹس لے گی لیکن چیف جسٹس آف پاکستان نے ان واقعات پر عمران خان سے محض ندامت کی اپیل کی اور باعث ندامت امر یہ ہے کہ ان کی طرف سے یہ ایمان کی گھٹیا ترین حالت کی اپیل بھی عملاً مسترد کر دی گئی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق 12مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کے خلاف دس مقدمات میں غیر معمولی ریلیف دیا گیا۔ توشہ خانہ جیسا اہم فوجداری مقدمہ جس میں عمران خان پر فردِ جرم عائد ہو رہی تھی، آٹھ جون تک حکم امتناع کے علاوہ آئندہ کسی مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کا حکم صادر ہوا۔ حالانکہ قانونِ فوجداری کے مطابق فردِ جرم عائد ہونے پر حکمِ امتناعی جاری نہیں کیا جا سکتا۔ پھر یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ عمران خان نے رہائی کے بعد نہایت غیر ذمے داری کے ساتھ قومی احتساب بیورو کی جانب سے اپنی گرفتاری کا الزام آرمی چیف پر عائد کیا۔ اپنے حامیوں کی تخریب کاری کی مذمت اور اس سے باز رہنے کی ہدایت کی بجائے انہوں نے عملاً اس کی یوں حوصلہ افزائی کی کہ اگر ان کو دوبارہ گرفتار کیا گیا تو ایسا ہی ردِعمل دوبارہ سامنے آئے گا۔ اب تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ قرآن پاک میں اللّٰہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اگر تم ظلم کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے تو مر جائو۔ یوں ایک طرف ( نعوذباللہ) اللّٰہ تعالیٰ کے پاک کلام پر بہتان باندھا جا رہا ہے اور دوسری طرف اپنے حب داروں کو اپنی آئندہ متوقع گرفتاری کی صورت میں احتجاج کے طور پر خودکشیوں کی سوچی سمجھی ترغیب دی جا رہی ہے۔ افسوس کہ ہائیبرڈ وار کے اس بے نقاب ہو جانے والے سپہ سالار کے ان انتہائی اقدامات کے باوجود ابھی بھی حکومت کی جانب سے صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے اور ملک کی سلامتی، قانون کی حقیقی بالادستی کے لئے مقتدر حلقوں میں آئین و قانون کے مطابق حل نکالنے کے لئے روڈ میپ تیار کیا جا رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے حالیہ طرزِ عمل اور مس کنڈکٹ کے دائرہ کار کا بھی ابھی جائزہ ہی لیا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے حالیہ ایکٹ کے مطابق اہم فیصلے لئے جا سکیں۔ اس مس کنڈکٹ میں سپریم کورٹ کی جانب سے جب عمران خان کو ایک شب کے لئے عدالتِ عظمیٰ کا مہمان بنانے کا فیصلہ ہوا تھا تو ان کے لئے آرام دہ قیام کی خاطر ایوانِ صدر سپریم کورٹ سے ملحق ہونے کے باعث عمران خان کی اولین ترجیح تھی۔ جس پر عمل کیا گیا۔
پاکستان کے بچے بچے کو علم ہے کہ طاقت سے اقتدار حاصل کرنے کے لئے جلائو گھیرائو اور عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر دبائو ڈالنے کے لئے نئی روایت کی داغ بیل ڈال کر ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا، ان تمام جرائم سے تحفظ کے لئے سیاسی کشیدگی پیدا کی گئی۔ ملک کو انتشار میں مبتلا کر دیا گیا۔ اس انتشار اور کشیدگی کا دائرہ کلیدی ریاستی اداروں تک وسیع کر دیا گیا۔ اب بھی ان حالات کی سنگینی مسلسل بڑھائی جا رہی ہے اور جوں جوں ان مجرموں کے خلاف کارروائی میں تاخیر ہو گی سنگینی بڑھتی جائے گی۔ ملک کے وسیع تر مفاد میں اور ملکی سکیورٹی فورسز کے خلاف جرائم کے ارتکاب پر اگر چند لوگوں کو قربان کرنا ضروری ہو گیا ہے تو اس قربانی میں اب تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button