Ali HassanColumn

ء کے آئین کا جشن .. علی حسن1973

1973ء کے آئین کا جشن

علی حسن

مسلمانوں کے سب سے بڑا ملک پاکستان دو لخت ہو چکا تھا۔ 1970کے پہلے عام انتخابات کے وسیلے سے تین سو ارکان کی قومی اسمبلی میں سے صرف137سابق مغربی پاکستان کا حصہ تھے۔ اکثریت ( 162اراکین) بنگلہ دیش نامی قائم ہونے والے نئے ملک کا حصہ بن گئی تھی۔ مغربی پاکستان میں اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی ( پارٹی کے منتخب اراکین کی تعداد 82تھی) کے حوالے کر دیا گیا تھا، اس لئے کہ بچے کھچے ہوئے ملک کو چلانا تھا۔ پاکستان میں1956کا آئین پارلیمنٹ نے بنایا تھا جسے ایوب خان نے1958میں مارشل لا نافذ کر کے منسوخ کر دیا تھا۔ انہوں نے1962میں صدارتی طرز حکومت کا آئین نافذ کیا تھا جسے1969میں جنرل یحییٰ خان کے نافذ کر دہ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد منسوخ قرار دے دیا گیا تھا۔ موجود حکومت 1973کے پاکستانی آئین کا پچاس سالہ جشن منا رہی ہے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس پیر کے روز منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں پاکستان کے مستقبل کے ممکنہ چیف جسٹس جسٹس فائز عیسیٰ کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ یہ بحث اپنی جگہ ہے کہ مستقبل قریب کے ممکنہ چیف جسٹس کو پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کرنا چاہئے تھی یا نہیں؟ کنونشن میں اپنے خطاب کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کا ادارہ سپریم کورٹ آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آئین پاکستان میں سب سے اہم بنیادی حقوق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ سوچ کر آئے تھے کہ یہاں سیاسی نہیں آئینی باتیں ہوں گی، وہ اپنی موجودگی کے دوران یہاں ہونے والی سیاسی باتوں سے متفق نہیں ہیں۔ آپ کی طرح میں نے بھی آئین پر عمل اور اس کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے، کل آپ یہ نہیں کہئے گا کہ ہم نے آپ کو بلایا پھر بھی ہمارے خلاف فیصلہ دے دیا۔ ہمیں اس آئین کو اپنے دل سے لگانا چاہیے، اس میں سب سے اہم بنیادی حقوق ہیں۔ ایک بات انہیں نے بہت زیادہ اہم کہی کہ ہم دشمنوں سے اتنی نفرت نہیں کرتے جتنی آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔
پہلے تو یہ تذکرہ کہ 1973کا آئین اور اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو کی کوشش کے بعد منظور ی پا سکا تھا ۔ ان کی کوشش اور خواہش تھی کہ آئین متفقہ طور پر منظور ہو جائے۔ اسمبلی میں موجود حزب اختلاف کے ارکان حکومت سے تعاون کر نے پر آمادہ نہیں تھے کہ وہ اول تو سابق مشرقی پاکستان کے بحران میں بھٹو کے کردار سے مطمئن نہیں تھے اور پھر بھٹو حکومت کے طرز حکمرانی سے مطمئن نہیں تھے۔ بھٹو حکومت نے1973کے آئین کی منظوری سے قبل ایک عارضی آئین نافذ کیا تھا جس کے خدوخال صدارتی طرز حکومت کے تھے۔ بھٹو چونکہ ایوب کابینہ کا حصہ ہونے کی وجہ سے اپنی ابتدائی تربیت کی وجہ سے صدارتی طرز حکومت کے ذہنی طور پر قریب تھے۔ پارلیمنٹ میں موجود بعض اکابرین نے اس کے نفاذ کی شدید مزاحمت کی تھی۔ آئین کی منظوری کی صرف مزاحمت ہی نہیں بلکہ بعض اراکین نے اس پر دستخط کرنے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ اس پارلیمنٹ میں پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ کے اس وقت کے اہم سیاست دان موجود تھے۔ ان میں سے کئی ایسے تھے جو قیام پاکستان کے وقت سے پاکستان میں سیاسی کھیل کود کا تماشہ دیکھتے رہے تھے۔ بعض اراکین ایسے تھے جو پہلی بار ہی1970کی قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے تھے۔ ان میں حیدر آباد سے جمعیت علماء پاکستان کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے مولانا سید محمد علی رضوی بھی تھے۔ جب اسمبلی نے آئین کو منظور کر لیا تو مولانا موصوف نے ایوان میں موجود اراکین سے اپنی کاپی پر بطور سوینیئر دستخط کرائے۔ اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو اور قومی اسمبلی کے سپیکر چودھری فضل الٰہی نے بھی ان کی کاپی پر دستخط کئے تھے۔ خیبر پختونخوا کے ایک رکن عبدالخالق خان تھے۔ عبدالخالق خان پاکستان کے ایک معروف سرکاری افسر روئیداد خان کے بھائی تھے۔ انہوں نے اپنے دستخط کے ساتھ تبصرہ میں ایک جملہ لکھا کہ یہ آئین ملک کے عوام کی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکے گا۔ ایک اور رکن عبدالحکیم نے بھی تبصرہ میں لکھا کہ یہ آئین ہزارہ والوں کو کچھ نہیں دے سکے گا۔ آئین کے ابتدائی سالوں میں ہی بعد ترامیم نے اسے متنازعہ بنا دیا تھا۔ پھر اس آئین کی موجودگی میں ہی بلوچستان میں فوجی آپریشن کئے گئے۔ اہم قومی معاملات پر فیصلے پارلیمنٹ سے نہیں کرائے گئے بلکہ حکومت ہی فیصلہ صادر کرتی رہی۔ پارلیمنٹ کو چاہئے کہ اس نکتہ پر غور کرے کہ آخر آئین ملک کو ماورائے آئین اقدامات سے کیوں نہیں روک سکا۔ یہ بھی تو غور کرنے کی بات ہے کہ کیا وفاق کی مختلف اکائیوں خصوصاً چھوٹے صوبے اس آئین سے مطمئن رہے یا نہیں۔ اگر مطمئن نہیں رہے تو ان کے اطمینان کے لئے اقدامات تجویز کرنا چاہئی۔ ملک میں رہائش رکھنے والے مختلف طبقات بھی انہیں حقوق نہ ملنے کی شکایت ہی کرتے رہے۔ کسانوں، ہاریوں، محنت کشوں اور طالب علموں کو ان کے حقوق اور تحفظ مل پایا ؟ سندھ میں 1973میں ہی کوٹہ سسٹم دس سال کے لئے نافذ کیا گیا تھا جسے طول دیتے دیتے پچاس سال ہو گئے ہیں۔ سندھ میں آبادی کو ایک حصہ ( اردو زبان بولنے والے عوام) عدم اطمینان ظاہر کرتا ہے۔ حکومت میں شامل عناصر اس پر توجہ دینے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔ دو ایوانی مقننہ کے باجود ایسے عناصر موجود ہیں جو آئین سے مطمئن نہیں ہیں۔
1973کے آئین میں ایک شق آرٹیکل6مستقبل میں مارشل لاء کے نفاذ کو روکنے کے لئے ڈالا گیا تھا لیکن آئین میں جس مقصد کے لئے آرٹیکل چھ رکھا گیا تھا وہ آئین کے نفاذ کے تین سال کے دوران ہی اس وجہ سے ناکام ہو گیا تھا کہ جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ انہوں نے آئین کو کاغذ کی کتاب قرار دیا تھا۔ حکومت ختم کر دی گئی تھی۔ بعد میں تو قتل کے ایک مقدمہ میں سابق وزیر اعظم کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور انہیں عدالت کے تقسیم شدہ فیصلہ کے باوجود پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کرا دیا گیا۔ ضیاء کے مارشل لاء کے خاتمہ کے بعد 1999میں جنرل پرویز مشرف نے براہ راست مار شل لاء نافذ کرنے کی بجائے ملک کے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور خود چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے بجائے چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر براجمان ہو گئے تھے ۔ یہ سلسلہ چلتا رہا جس کے دوران ملک میں عام انتخابات بھی کرائے گئے ۔ پارلیمنٹ کو چاہئے کہ اس نکتہ پر غور کرے کہ آخر آئین ملک کو ماورائے آئین اقدامات سے کیوں نہیں روک سکا۔ یہ بھی تو غور کرنے کی بات ہے کہ کیا وفاق کی مختلف اکائیوں خصوصاً چھوٹے صوبے اس آئین سے مطمئن رہے یا نہیں۔ آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج پاکستان کی تاریخ میں ایک بہت اہم دن ہے، آج جمہوریت کیلئے انتہائی اہم دن ہے،50سال گزرنے کے باوجود آئین میں مختلف اوقات میں ترمیم کی گئی، آئین50مختلف آمریتوں کا سامنا کرنے کے باوجود آج بھی زندہ ہے، یہ تاریخی کارنامہ تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف عدلیہ میں موجود حالات کو آئین کے لئے خوش آئند تصور نہیں کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ دستور پاکستان عوام کے حقوق اور ریاستی اداروں کے فرائض کی کتاب ہے، ملکی تاریخ میں آئین میں بار بار ترامیم سے نقصان ہوا۔ دستور پاکستان عدل و انصاف، مساوات ، اتحاد و اتفاق اور آزادی کا ضامن ہے، آئین پاکستان عوام کے حقوق اور ریاستی اداروں کے فرائض کا احاطہ کرتا ہے۔ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے سلسلہ میں رضا ربانی نے ہی خدمات انجام دی ہیں ۔ اس ترمیم کو بھی بعض عناصر اطمینان بخش قرار نہیں دیتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button