CM RizwanColumn

ففتھ جنریشن وار؟ ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

اس وقت پاکستان دہشت گردی اور جھوٹی اطلاعات کے ذریعے کمزور کرنے والی ایک کٹھن جنگ سے نبرد آزما ہے۔ روایتی دہشت گردی میں ستر ہزار سے زائد پاکستانیوں کی قربانی دینے اور ایک کامیابی سے دشمن کو اپنے ملک سے مار بھگانے کے بعد اب پانچوں پشت کی دوغلی ابلاغی جنگ کی انتہائوں سے پالا پڑا ہوا ہے۔ اس ابلاغی جنگ کے اہداف میں جھوٹی اطلاعات عام کرنا، غلط معلومات اور پراپیگنڈا کے ذریعے خارجہ محاذ پر، سرحدوں پر اور قوم کے اندر تقسیم کے لئے سکیورٹی فورسز کے خلاف عوامی رائے کو غلط راستے پر ڈالنا شامل ہے۔ عام سطح پر انتہائی پریشان کن اور باعث شرم بات یہ ہے کہ خود پاکستانی معاشرہ اس دوغلی ابلاغی جنگ کا اس حد تک شکار ہو گیا ہے کہ جھوٹے پراپیگنڈے کو عین حقیقت مان کر ہم ایک دوسرے سے انتہائی نفرت پر پہنچ چکے ہیں جبکہ دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ مستقبل کی اس ریجنل پاور کو ایک مرتبہ پھر پیچھے دھکیل دیا جائے۔ صد شکر کہ اس مشکل گھڑی میں ہماری سول و فوجی قیادت نہ صرف ایک پیج پر ہے بلکہ پوری قوم بھی آہنی دیوار کی مانند ان کے پیچھے کھڑی ہے۔ البتہ سازشی نظریات اور خیالات کے حامل کچھ طبقے مصروف عمل ہیں جو انتہائی بدبختی کے تحت اپنے ہی محافظ اداروں کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ اس پراپیگنڈے کو ففتھ جنریشن وار کا نام دیا گیا ہے۔ پانچویں پشت کی اس دوغلی ابلاغی جنگ میں میڈیا اور سوشل میڈیا وہ ہتھیار ہیں جہاں سازشوں کے تانے بانے بُنے جاتے ہیں۔ اس کو مزید سمجھنے کے لئے ہمیں یہ جاننا ہو گا کہ ہم کن مراحل سے ہوتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب انسان اپنی بقا کی جنگ تلواروں اور خنجروں سے لڑا کرتا تھا۔ جنگیں ہاتھ سے بنائے تیر تفنگ، منجنیقوں اور تلواروں سے لڑی جاتی تھیں، فتح، شکست کا انحصار فوج کی حجم پر بھی ہوتا تھا۔ اس دور کو فرسٹ جنریشن وار فیئر کا دور کہا جا سکتا ہے۔ انسان نے کچھ ترقی کی تو ہاتھ سے بنے ہتھیاروں، اوزاروں، ہاتھی، گھوڑے کی جگہ بندوق، رائفل، ٹینکوں اور توپوں نے لے لی۔ یہ دور سیکنڈ جنریشن وار فئیر کہلایا۔ ترقی کی مزید منزلیں عبور کیں تو انڈسٹریل دور آ گیا۔ ایئر کرافٹ، جیٹ طیارے اور انواع و اقسام کے میزائل ایجاد ہوئے، بری، بحری اور ہوائی افواج کی تخصیص ہوئی۔ اس دور کو تھرڈ جنریشن وار فئیر کا نام دیا گیا۔ جنگی چالیں، جاسوسی اور جاسوسی کے آلات تو تقریبا ہر دور میں استعمال کئے گئے لیکن فورتھ جنریشن وار فئیر میں کچھ نئے طریقے آزمائے گئے۔ اس دور میں عالمی طاقتوں نے سامنے آئے بغیر اپنے مسلح حامیوں کو میدان میں اتار کر اور کبھی دو گروپوں کو آپس میں لڑا کر اپنے مقاصد حاصل کئے۔ تکنیکی طور پر اس فورتھ جنریشن وار فئیر میں قبضہ کرنے کی خواہشمند طاقت خود پس منظر میں رہتی ہے اور کثیر سرمایہ لگا کر ایسے گروہ تشکیل دے دیتی ہے جو مسلح جدوجہد، بغاوت اور سازشوں کے جال بچھا کر اس کے لئے من پسند سرزمین پر قبضہ کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ فورتھ جنریشن وار فئیر اور ففتھ جنریشن وار فئیر کسی حد تک ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ نیوز اور کرنٹ افئیرز کے اس ہنگامہ خیز دور نے ریٹنگ کی ایسی دوڑ لگائی ہے کہ اب سچ اور جھوٹ میں تمیز مٹ گئی ہے۔ پوری کائنات کو انگلیوں کی پوروں کے گرد گھمانے والا انٹرنیٹ اور اس سے جڑا سوشل میڈیا وجود میں آگیا ہے۔ اس سرچ انجن نے معلوماتِ کے کئی جہان دنیا کے ہر بچے، جوان اور بوڑھے کے ہاتھ میں تھما دیئے ہیں اور یہیں سے ففتھ جنریشن وار فئیر میں بھی تیزی آگئی ہے۔ جہاں پہلے پراپیگنڈے کے لئے ٹی وی اور ریڈیو کا سہارا لیا جاتا تھا۔ اب نظریات کی جنگیں سوشل میڈیا پر لڑی جانے لگی ہیں۔ اب میڈیا کے محاذ پر اذہان کو بدلنے کا کام حملہ اور حملے سے بچا یا جوابی حملہ قرار پاتا ہے۔ اس وارفیئر میں دشمن کی طرف سے نوجوان نسل کو فوج اور قومی سلامتی کے اداروں یا بعض شعبوں یا ان کے کچھ افسروں یا سربراہان کے خلاف بھڑکا کر اندرون ملک بغاوت بھی برپا کی جاتی ہے۔ جیسا کہ عرب سپرنگ میں سوشل میڈیا کو استعمال کر کے نوجوانوں کو بغاوت پر اُکسایا گیا۔ عرب معاشروں میں موجود معاشرتی اور معاشی ناانصافیوں سے اکتائے ہوئے عوام کو ورغلانا انتہائی سہل کام ثابت ہوا اور نتیجتاً کیمیائی ہتھیاروں کے پراپیگنڈے نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی کیمیائی ہتھیار تو برآمد نہ ہو سکے البتہ صدام سے لیکر قذافی تک کو ان کی قوموں کے سامنے پھانسی پر لٹکا دیا گیا لیکن جس امن اور معاشی خوشحالی کے وعدے پر یہ سب کیا گیا وہ کبھی پورا نہ ہوا۔ واضح رہے کہ یہ ففتھ جنریشن وار آج کی برپا نہیں بلکہ اس ابلاغی جنگ کے مختلف حربے ایک مدت سے دشمن کو زیر کرنے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ ہٹلر دور میں ہٹلر پر حملے کے بعد اس کی فوج میں اس کی موت کی جھوٹی خبر پھیلائی گئی۔ جاسوسوں کا استعمال کیا گیا تاکہ قوم پر نفسیاتی اثر ہو اور وہ ہٹلر کے خوف سے باہر نکل کر کسی اور کمانڈر کو حکمران تسلیم کر لیں۔ یہ ففتھ جنریشن وار کے مختلف حربے تھے۔ اسی طرح کی ففتھ جنریشن وار میں پاکستان بھی اپنے روایتی اور غیر روایتی دشمنوں کی زد پر ہے کیونکہ انداز جنگ بدلنے سے دشمن بھی بدل چکے ہیں۔ اب ضروری نہیں کہ دشمن کوئی بھارتی، اسرائیلی یا دہشت گرد گروہ کا کارندہ دشمنانہ حملے کر رہا ہو، اب تو حملہ آور مقامی نادان نوجوان اور عقل خوردہ ریٹائرڈ بابا بھی ہو سکتا ہے جو ابلاغیات یا سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے دشمن کے ناپاک، جھوٹے اور خالص اندرونی معاملات کو ایک مخصوص زاویے سے ڈی ٹریک کرنے والے دشمنانہ پراپیگنڈے کا اس حد تک قائل ہوگیا ہو کہ وہ اس پراپیگنڈے کا مشتہر، تبلیغ کار اور آلہ کار بننے کو اپنی دنیا و آخرت کی بھلائی اور کامیابی تصور کر بیٹھا ہے اور اس مہم سے روکے جانے کے ہر حکومتی اقدام کو اپنی رائے دینے کی آزادی پر حملہ سمجھتا اور قرار دیتا ہو۔ انتہائی ہوشیاری سے اب دشمنوں نے کچھ نادان نوجوانوں سے تھوڑے معاوضے پر یا مفت کام لینے کے ساتھ ساتھ ہوشیار صحافیوں، ادیبوں، علمائے دین، اساتذہ اور میڈیا ورکروں کو کروڑوں ڈالرز کے عوض خرید لیا ہے جو جھوٹی خبروں کی بنیاد پر الزامات، پراپیگنڈے اور ذہن سازی کا کام پوری شدومد، نفسیاتی معاونات اور اطلاعاتی تسلسل کے ساتھ
کرتے ہیں۔ اس طرح چند مہینوں میں یہ لاکھوں لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے اور سوشل میڈیا پر لائیک شئیر اور سبسکرائب کر کے ٹرینڈ بنانے کا کام بڑی آسانی سے کر رہے ہیں۔ اس مکروہ مہم میں یہ کمزور دماغوں پر مبنی ایک ایسی ملک گیر ٹیم تیار کر لیتے ہیں جو اپنے ہی ملک کے بنیادی اصولوں اور سکیورٹی فورسز کے خلاف آخری حد تک جانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ سب کچھ ہو چکا ہے اور ہورہا ہے تبھی تو قومی سلامتی کونسل کے گزشتہ روز کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملک دشمن دہشت گردوں کو نرم رویے سے اپنا حصہ بنانے والوں اور اداروں کے خلاف پراپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف آپریشن ترجیحی بنیادوں پر کیا جائے گا۔ ان حالات میں جبکہ دشمن گھات لگائے بیٹھا ہو اور ثقافت سے لے کر معاشرتی و مذہبی نظریات پر حملے کئے جا رہے ہوں، معیشت کو کمزور کر کے ریڑھ کی ہڈی توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہو تو سوشل میڈیا کو شتر بے مہار آزادی نہیں دی جا سکتی۔ یاد رہے سوشل میڈیا پر ہمارے ہر کلک پر ہماری شناخت دوسرے تک پہنچ رہی ہوتی ہے۔ ہم کہاں ہیں، کیا کر رہے ہیں، کس سے مل رہے ہیں، ہماری پسند، ناپسند کیا ہے۔ ہمارے رحجانات کیا ہیں۔ یہ سب بھاری قیمت میں بکتے ہیں اور پھر ان معلومات سے فائدہ اٹھا کر ہمیں ہمارے اداروں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ قومی مفاد کو گزند پہنچانے کے لئے کبھی ریاست مخالف بیانیہ ترتیب دے کر پاکستان کا نام بلیک لسٹ کرنے اور کبھی ڈیفالٹ کے خطرات سے ڈرایا جاتا ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جس کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ نوجوان ہی اس قوم کا سرمایہ اور مستقبل ہیں۔ انہیں برین واش کر کے ملک کے خلاف استعمال کرنا بڑا تباہ کن ہے۔ پاکستان کو اس وقت شدید اور براہ راست ففتھ جنریشن وار کا سامنا ہے۔ اس صورتحال میں اگر میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس سازش کا حصہ بن جائیں تو ملک تباہی سے دوچار ہو سکتا ہے۔ اس لڑائی میں حریف توپ ٹینک یا میزائل کا استعمال نہیں کرتا بلکہ کسی مہرے کے منہ میں ٹھونسے گئے الفاظ اور دماغوں میں ڈالے گئے خیالات کارگر ہتھیار بن کر معاشرے کی جڑوں پر کاری ضرب لگاتے ہیں۔ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو معلوم ہے کہ یہاں سوشل میڈیا، ٹی وی، اخبارات میں اپنے حواریوں کے ذریعے دشمن نے طرح طرح کے پینترے بدلے، جال بُنے، چالیں چلیں، بڑے بڑے جغادری مہروں کے طور پر استعمال ہوئے۔ صد شکر کہ دنیا بھر میں اول درجے پر تسلیم کئے گئے ہمارے انٹیلی جنس اداروں اور سکیورٹی فورسز نے دشمن کی ان کوششوں کو نابود کیا۔ ایک قدم آگے بڑھ کر اب آپریشن کلین اپ شروع کیا جارہا ہے۔ نادان دماغوں اور ہوشیار چالبازوں دونوں کا قلع قمع اب یقینی ہوگیا ہے کیونکہ اب یہ گھنائونا کھیل ہماری آزادی اور معیشت پر حملہ آور ہو چکا ہے۔ یقیناً ہمارے محافظ یہ وار فئیر ناکام بنا دیں گے۔ ادارے اپنا کام کریں گے لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم سب کو یہ سوچنا ہو گا کہ ہمارے ملک میں بولنے اور لکھنے کی جتنی آزادی ہے، بڑی بڑی جمہوریتوں میں اتنی آزادی نہیں لیکن ہم اس آزادی کو سنبھال نہیں پائے۔ ہمارے نوجوانوں کو کسی وارفیئر کا حصہ بننے کی بجائے اپنے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button