ColumnImtiaz Aasi

عدم استحکام اور انتخابات .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

اس وقت ہمارا ملک عجیب وغریب صورت حال سے دوچار ہے۔خراب معاشی صورتحال کے ساتھ سیاسی عدم استحکام ہے۔معاشی صورتحال سیاسی استحکام سے جڑی ہوئی ہے جب تک سیاسی استحکام نہیں آئے گا ہمارا ملک معاشی عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ملک کی سب سے بڑی جماعت کا مطالبہ انتخابات کا انعقاد ہے۔حکومت اور اس کے اتحادی قبل از وقت انتخابات کیلئے تیار نہیں۔کوئی ملک ہماری حکومت پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔حکومت کی ساکھ اس حد تک خراب ہے کہ 2005 کے زلزلے کی تباہی کے مقابلے میں حالیہ سیلاب زدگان کی مالی امداد کیلئے کوئی ملک آگے نہیں آیاورنہ زلزلے سے متاثرہ لوگوں کی مالی امداد کے ساتھ متاثرہ لوگوں کو سعودی حکومت نے گھر بنا کر دیئے۔ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا کہ سپہ سالار کو ملکوں ملکوں جانا پڑا حالانکہ یہ کام تو حکومت کا تھا نہ کہ فوج کے سربراہ کا۔ سیلاب زدگان کی امداد کیلئے ابھی تک ڈونرز کانفرنس کا انعقاد نہ ہو سکا۔ سابق وزیراعظم عمران خان جلد انتخابات کیلئے اسمبلیاں توڑنے کیلئے کوشاں ہیں اور تعجب ہے ایک طرف عمران خان کو الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں دوسری طرف وہ اسی چیف الیکشن کمشنر کی نگرانی میں انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں؟سوال تو یہ ہے کہ حکومت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دے تو کیا عمران خان، سلطان سکند ر راجا کی نگرانی میں انتخابات کے انعقاد پر رضامند ہو ں گے۔موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنی ترجیحات میں سرفہرست انتخابی اصلاحات پرکام کرنے کا عندیہ دیا تھاآٹھ ماہ ہو چکے ہیں ابھی تک انتخابی اصلاحات کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہے جوا س بات کی واضح دلیل ہے کہ حکومت کسی صورت میں اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں۔پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایک بیان میں اس طرف اشارہ دے دیا ہے کہ انتخابات ایک سال تک آگے جا سکتے ہیںجس کے بعد حکومت کی انتخابات بارے نیت کا بخوبی علم ہو جانا چاہیے۔الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد کیلئے تیاریاں جاری رکھے ہوئے ہے،اس مقصد کیلئے 47 ارب روپے کی کثیر رقم کا حکومت سے مطالبہ کر دیا گیا ہے۔الیکشن کمیشن کی جہاں تک
غیر جابنداری کا تعلق ہے تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کوتمام سیاسی جماعتوں کی غیر ملکی فنڈنگ کیس کا بیک وقت فیصلہ سنانے کو کہا تھا مگر الیکشن کمیشن نے کمال مہربانی کرتے ہوئے تحریک انصاف کا فیصلہ تو کر دیا جب کہ دیگر جماعتوں کے بارے میں اس کا فیصلہ ہنوز صیغہ راز میں ہے۔الیکشن کمیشن کی توہین کا کیس عمران خان کے خلاف زیر سماعت ہے۔الیکشن کمیشن میں عمران خان کے خلاف یکے بعد دیگرے کیسوں کی سماعت الیکشن کمیشن پر سوالیہ نشان ہے۔ کیا الیکشن کمیشن کے پاس عمران خان کے سوا اور کوئی کیس زیر سماعت نہیں ہے ؟
تحریک انصاف کے خلاف الیکشن کمیشن کا کیسوں کی سماعت کی رفتار سے واضح ہوتا ہے الیکشن کمیشن کو ماسوائے عمران خان اور اس کی جماعت کے خلاف مقدمات کے سوا اور کوئی کام نہیں۔الیکشن کمیشن کے ان جانبدارانہ اقدامات نے اسے متنازعہ بنا دیا ہے۔صدر مملکت اور حکومتی نمائندوں کے درمیان ہونے والی ملاقاتیں بے نتیجہ ثابت ہوئی ہیں۔موجودہ حکومت کے آٹھ ماہ کے اقتدار کے دوران کوئی ایک مسئلہ ایسا نہیں جو حکومت نے حل کر لیا ہو۔ملک کے معاشی عدم استحکام کے ساتھ افغانستان میں ڈالرز اور گندم کی سمگلنگ عروج پر ہے۔ایف آئی اے نے ایک روز پہلے پشاور میں غیر ملکی کرنسی کا کاروبار کرنے والوں کی چند دکانوں کو سیل کیا ہے ورنہ تو منی چینجرز کا بزنس کرنے والوں سے کبھی کسی نے باز پرس نہیں کی۔عمران خان کے دور میں ای وی ایم الیکڑانک ووٹنگ مشین کو متعارف کرنے کی کوشش کی گئی تو پی ڈی ایم کی جماعتوں نے حکومت کے ساتھ مل بیٹھنے سے انکار کر دیا۔حکومت کی جلد اور شفاف انتخابات کے انعقاد کی نیت ہوتی ہے تو اقتدار سنبھالنے کے بعد اسے انتخابی اصلاحات پر کام کرنا چاہیے تھااس کے برعکس اقتدار میں آتے ہی اپنے خلاف مقدمات کا ختم کرنے پر کام کا آغاز کر دیا۔وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے ہونہار بیٹے حمزہ شہباز کے خلاف مقدمات کا خاتمہ اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی منشیات کے مقدمہ کے گواہان کو منحرف کرانے کے بعد بریت حکومتی اثر ورسوخ کی واضح مثال ہے۔ سیاست دانوں نے ملک کو عجیب تماشا بنا رکھا ہے ایک حکومت کسی کے خلاف مقدمہ بناتی ہے تو آنے والی حکومت اپنے خلاف مقدمات ختم کرا لیتی ہے۔ ملک کو جہاں انتخابی اصلاحات کی اشد ضروری ہے اتنی ہی عدالتی نظام میں اصلاحات کی بھی ضرورت ہے تاکہ ملک میں یہ تماشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو سکے۔ درحقیقت عمران خان بذات خود تذبذب کا شکار ہیں کے پی کے جہاں ان کی جماعت کو دوتہائی اکثریت حاصل ہے وہ بھی چودھری پرویز کی طرف دیکھ رہے ہیں۔پہلے تو عمران خان کو اداروں کی حمایت حاصل تھی وہ پی ڈی ایم کے رہنمائوں کو چور اور ڈاکوں کہتے تھے اوران کے ساتھ بیٹھنے کی بجائے مرنے کو تیار تھے اداروں کی سپورٹ ہٹنے کے بعد انہیں آخر حکومت سے براہ راست مذاکرات ہی کرنا ہوں گے۔جمہوریت کے استحکام کیلئے سیاسی رہنمائوں کے درمیان مکالمہ کا آغاز بہت ضروری ہے تاکہ کم ازکم وہ کسی ایک ایجنڈے پر متفق ہوسکیں۔سیاسی ایجنڈے کے بغیر انتخابات ہوئے تو کسی ایک فریق کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کا الزم لگانے سے انتخابات کی ساکھ مشکوک ہو سکتی ہے لہٰذا حکومت اور عمران خان دونوں غیر مشروط بات چیت کاآغاز کرکے ملک کو سیاسی اور معاشی بحرانوں سے نکالنے کی کوشش کریں اسی میں ملک وقوم کی بھلائی ہے۔ جیسا کہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس جناب عمر عطاء بندیال نے بھی عمران خان کو پارلیمنٹ میں واپس جانے کا مشورہ دیا تھا ۔آج سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی اور سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف دونوں تحریک انصاف کو کسی طریقہ سے پارلیمنٹ میں لانے کے ٹاسک پر لگے ہوئے ہیں۔اگر موجودہ صورت حال برقرار رہی نہ تو ملک میں معاشی اور نہ سیاسی استحکام آسکے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button