5اگست: جبر کی تڑ تڑا تی گھنگور گھٹائیں

5اگست: جبر کی تڑ تڑا تی گھنگور گھٹائیں!!!
عابد ضمیر ہاشمی
بھارت نے 5اگست 2019ء کو تحریک ِ آزادی کی صدا کو دبانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اپنے آئین سے آرٹیکل 370 نکال دِیا۔بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں لگائے گئے تاریخ کے بدترین جبری، ظالمانہ، انسانیت سوز کرفیو کو 5سال مکمل ہوگئے، آج یوم ِاستحصال کشمیر منایا جائے گا۔ہندوتوا کے نظریے پر عمل پیرا فاشسٹ نریندر مودی سرکار نے آرٹیکل A-370کے تحت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھارت کے آئین سے ختم کر دیا تھا۔ مودی سرکار نے غیر معینہ مدت کے لیے کشمیر میں کرفیو لگا کر ظلم و ستم کی انتہا کر دِی اور تمام مواصلاتی رابطے بند کردیے گئے جو ابھی تک ظلم وبربریت کی تاریخ رقم کرتے ہوئے بحال ہیں۔ ہزاروں کشمیریوں کو شہید اور لاپتہ کر دیا گیا، کشمیری خواتین کی عزتیں پامال کی گئیں، سیکڑوں خاندان اجڑ گئے۔
دونوں ملک کشمیر پر تین جنگیں لڑ چکے ہیں جن میں 1947ء کی جنگ، 1965ء کی جنگ اور 1999ء کی کارگل جنگ شامل ہیں۔ 1971ء کی جنگ بنگال کی وجہ سے ہوئی تھی۔ سولہ مارچ 1846ء انگریز نے 75لاکھ کے عوض کشمیر گلاب سنگھ ڈوگرہ کو فروخت کیا، امرتسر معاہدہ.پھر اس کا بیٹا زنبیر سنگھ جانشین بنا۔ پھر پرتاب سنگھ جانشین بنا، افیون کا نشہ کرتا تھا۔ کرکٹ کھیلنے کا شوقین تھا۔ پھر امر سنگھ کا بیٹا ہری سنگھ سازش سے جانشین بنا، حکیم نور دین جو مرزا قادیانی کا دست راست اور سرکاری حکیم تھا، اس سازش میں پیش پیش تھا۔ یہ قادیانی سازش کی پہلی فتح تھا۔ قادیانی کشمیر میں الگ ریاست کے خواہاں تھے۔ ہری سنگھ 1925ء میں گدی نشین بنا جسے قادیانی حمایت حاصل تھی، مسلمانوں پر ظلم و استبداد شروع ہوا۔ 1929ء میں شیخ عبد اللہ نے ریڈنگ روم تنظیم اور اے آر ساغر نے ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن بنائی۔1931ء میں پہلی مسجد ریاسی میں شہید ہوئی، کوٹلی میں نماز جمعہ پر پہلی بار پابندی لگائی گئی۔ ایک ہندو کانسٹیبل نے قرآن کی بے حرمتی کی، عبدالقدیر نامی مسلمان نے بے مثال احتجاجی جلسے کیے، جو گرفتار ہوا پھر مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ 13جولائی کو شہدائے کشمیر ڈے اسی قتل عام کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اس طرح تحریک آزادی کشمیر 1931ء میں مکمل شروع ہوئی۔
25جولائی 1931ء میں فئیر ویو منزل شملہ میں ایک میٹنگ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی، جس کی صدارت قادیانی مرزا بشیرالدین محمود نے کر ڈالی، یہ مرزا قادیانی کا بیٹا تھا۔ یہ پھر قادیانی فتح تھی، اس نے سازش کر دی کہ تمام مسلمان قادیانی کے نبی ہونے کو مان چکے ہیں، اسی لیے مرزا بشیر کو صدر منتخب کیا۔ اس کمیٹی میں علامہ اقبالؒ بھی شامل تھے۔ سب مسلمان فورا اس کمیٹی سے دستبردار ہوئے، عطاء اللہ شاہ بخاری فورا کشمیر بھیجے گئے۔ بڑی مشکل سے مسلمانوں کو اس سازش سے نکالا۔ علامہ اقبالؒ مجلس احرار کے سرپرست بنے اور بشیر قادیانی کی سازش ناکام کی۔14اگست 1931ء پہلی بار کشمیر ڈے منایا گیا۔ اکتوبر 1931ء میں علامہ اقبالؒ کی سرپرستی میں مسلمان وفد مہاراجا ہری سنگھ اور اس کے وزیر اعظم ہری کرشن کول سے مذاکرات کے لیے ملے، مذاکرات ناکام ہوئے، سیالکوٹ سے کشمیر چلو کشمیر چلو تحریک چلی، یوں تحریک آزادی باقاعدہ 1931ء میں شروع ہوئی، مسلمانوں کا دوسرا مجاہد دستہ جہلم سے میر پور کی طرف روانہ ہوا، تیسرا دستہ راولپنڈی کے تیس نوجوانوں پر مشتمل تھا جو قرآن پر قسم اٹھا کر نکلے کہ کوہالہ پل بند کر کے رہیں گے۔ پھر اس جنگ کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے نومبر 1931ء میں سر بی جے گلینسی کی صدارت میں کمیشن بنا۔1933ء میں سری نگر پتھر مسجد میں جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی۔ شیخ عبد اللہ اس کے صدر اور چودھری غلام عباس اس کے جنرل سیکرٹری بنے۔
اس وقت خطہ کشمیر کے سب سے زیادہ حصی یعنی 101،387مربع کلومیٹر پر بھارت جبکہ پاکستان 85،846اور چین 37،555مربع کلومیٹر پر قابض ہے۔ آزاد کشمیر کا 13350مربع کلومیٹر (5134مربع میل) پر پھیلا ہوا ہے جبکہ شمالی علاقہ جات کا رقبہ 72،496مربع کلومیٹر ہے جو گلگت اور بلتستان پر مشتمل ہے۔ تقسیم ہند سے قبل بلتستان صوبہ لداخ کا حصہ تھا اور اس کا دارالحکومت سکردو لداخ کا سرمائی دارالحکومت تھا۔
بھارت کی ماضی کی حکومتوں، چاہے کانگریس ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) نے اپنے آئین کے آرٹیکل 35اے اور 370 کے تحت کشمیر کی متنازع حیثیت کو کبھی نہیں چھڑا، یہ الگ بات ہے کہ مقبوضہ علاقے میں فوج، پولیس اور دیگر نوعیت کے ظلم و ستم بدستور جاری رہے لیکن کشمیریوں کی خصوصی حیثیت ختم نہیں کی گئی مگر 2019ء میں نریندر مودی کی حکومت نے وزیر داخلہ امیت شاہ کی سرکردگی میں اس تار کو بھی چھیڑا دیا اور 5اگست کو 80 لاکھ سے زائد آبادی کا حامل یہ خطہ متنازع طور پر تقسیم کرکے رکھ دیا گیا، جہاں تعلیمی ادارے مسلسل بند ہیں، غذائی اجناس کی صورت حال سے دُنیا ناواقف ہے۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹر نہیں بلکہ وہاں پر بھارتی فوج کا بسیرا ہے، کسی کو نہیں معلوم لیکن پاکستان سمیت پوری دُنیا کو یہ معلوم ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اسلحے کے زور پر ظلم و جبر کا نیا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ ہزاروں فوجی اہلکار ہر وقت گلیوں میں گشت کر رہے ہیں اور علاقے میں کسی بھی قسم کے احتجاج یا اجتماع کی بھنک پڑنے پر فوری کارروائی کا آغاز کر دیتے ہیں۔ وادی کشمیر میں نماز عید بھی نہیں ادا کرنے دی گئیں۔
نہتے کشمیریوں کو خاک و خون میں نہلا دیا جاتاہے۔ حو آزادیوں کی عصمتوں کے آبگینے پارا پارا کیے جا رہے ہیں۔ حریت پسندوں کو قید و بند کی صعوبتوں سے گزارنے کے ساتھ ساتھ ان پر قہر و ہولناکی کے آتش فشاں برسائے جا رہے ہیں۔ وہاں قائم کیے گئے عقوبت خانے ہٹلر اور چنگیز خان کے مظالم کو شرما رہے ہیں۔ زندہ انسانوں کو شکنجوں میں کس کر ان کا بند بند ہتھوڑوں سے توڑا جاتا ہے۔ ناخن کھینچے جاتے ہیں، سروں اور داڑھیوں کے بال نوچے جاتے ہیں۔ آج کشمیر وقت کی نوک قلم سے ٹپکنے والا لہو رنگ سوالیہ نشان ہے۔ بلاشبہ یہ کرہ ارض پر عصر ِ حاضر کا سب سے بڑا اندوہناک المیہ ہے۔
جہاں ایک طرف بھارتی سامراج کے ظلم و تشدد کا آتش فشاں دہکا ہوا ہے وہیں اہل ِ کشمیر کا جذبہ بھی لائقِ دید ہے۔ وہ جرات و ہمت کی نئی داستانیں رقم کرنے کے لیے میدان ِ عمل میں نکل آئے ہیں۔ آج کشمیر میں ہر گھر مورچہ ہے تو ہر گلی میدان ِ جنگ۔ کشمیر کے ہر گھر میں شہیدوں کے لہو سے چراغاں کیا جا رہاہے۔ اہلِ کشمیر کسی بھی قسم کی بیرونی امداد کے بغیر اپنی جنگ خود لڑ رہے ہیں۔ ان کے ارادے عظیم ہیں اور حوصلے فراخ۔ وہ اپنے ہی لہو میں ڈوب کر آزادی کشمیر کا پرچم لہرا رہے ہیں۔ بھارتی قاتل افواج کشمیر پر اپنا خونی پنجہ گاڑھے ہوئے ہیں لیکن آزادی پسند مجاہدین کے ہر سانس سے ’ کشمیر بنے گا پاکستان‘ کی صدائیں ابھر رہی ہیں۔ بارگاہِ خداوندی میں اٹھتے ہوئے ہاتھ پکار رہے ہیں: پنجہ ظلم و جہالت نے برا حال کیا، بن کے مقراض ہمیں بے پروبال کیا، توڑ اس دستِ جفا کیش کو یا رَب جس نے، روح ِ آزادی کشمیر کو پامال کیا۔
ایک پرندہ بھی قفس سے آزادی چاہتا ہے تو ایک کروڑوں کشمیریوں کے لیے آزادی کیوں نہیں؟، علاقائی تنازعات میں سے ایک شمار کرتے ہیں۔ 5اگست2019ء سے آج تک کشمیر میں انسانی حقوق کا چراغ گل ہے، روشنیوں کے اس خطے میں جبر کی گھنگور گھٹائیں تڑ تڑا رہی ہیں۔ اور اقوام عالم خاموش تماشائی ہے۔





