ٹاپ سٹی کیس، جنرل فیض حمید کے خلاف اس کیس کی تفصیلات کیا ہیں؟
ایک زمانے میں ملک کے طاقتور ترین ادارے کے طاقتور سربراہ رہنے والے جنرل فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے کر انکے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ جس کیس میں انکے خلاف شکایات موجود تھیں اسکی تفصیلات کے مطابق فوجی حکام نے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اس کیس میں تحقیقات کا حکم دیا تھا جس میں ہاؤسنگ سوسائٹی کے ایک مالک نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس میں جنرل فیض پر غیر قانونی طور پر ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارنے اور قیمتی سامان چوری کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
17 اپریل کو میڈیا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاک فوج میں خود احتسابی کا سخت اور انتہائی شفاف نظام موجود ہے اور اسی نظام کے تحت تمام الزامات کی بڑی سنجیدگی سے تحقیقات کی جاتی ہیں اور ذمہ داروں کو سخت سزائیں بھی دی جاتی ہیں تاکہ پاک فوج کا خود احتسابی کا نظام برقرار رہے۔
8 نومبر 2023 کو ٹاپ سٹی کے مالک نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں انہوں نے جنرل ریٹائرڈ فیض پر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا۔ درخواست میں الزام لگایا گیا کہ 12 مئی 2017 کو جنرل فیض کے کہنے پر آئی ایس آئی حکام نے سٹی آفس اور ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔
درخواست گزار نے الزام عائد کیا تھا کہ چھاپے کے دوران آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے گھر سے سونا، ہیرے اور رقم سمیت قیمتی اشیا ضبط کیں۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فیض کے بھائی سردار نجف نے بھی بعد میں مسئلہ حل کرنے کیلئے ان سے رابطہ کیا۔ درخواست میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ جنرل فیض نے بعد میں ذاتی طور پر اس مسئلے کے حل کیلئے ان سے ملاقات کی، جس میں انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ چھینا گیا کچھ سامان واپس کیا جائیگا۔ تاہم 400 تولہ سونا اور نقدی اسے واپس نہیں کی جائے گی۔
درخواست گزار نے یہ بھی الزام لگایا کہ آئی ایس آئی کے اہلکاروں 4 کروڑ روپے کی نقدی چھین لی۔ کیس میں سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ الزامات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں، اور اگر درست ہیں، تو بلاشبہ وفاقی حکومت، مسلح افواج، آئی ایس آئی اور پاکستان رینجرز کی ساکھ کو نقصان ہوگا لہٰذا ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
تاہم، عدالت نے درخواست میں کیے گئے مطالبے کے تحت آئین کے آرٹیکل 184(3) کی کارروائی نہیں کی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ عدالت اس آرٹیکل کے تحت اپنے اصل اختیارات کے تحت کارروائی کرے۔
سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کو شک ہے کہ وزارت دفاع اس کی شکایت پر غور نہیں کرے گی، کیونکہ جواب دہندگان مسلح افواج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے، تاہم، ایڈیشنل اٹارنی جنرل فار پاکستان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ شکایت پر مناسب غور کیا جائے گا۔ لہٰذا، درخواست گزار کا شک غلط ہے۔