Column

پاک چین دوستی: معاشرتی تعمیر، مربوط اقوام

انوار الحق کاکڑ وزیراعظم پاکستان
پاک چین تعلقات بہت خاص نوعیت کے حامل ہیں۔ یہ بھائی چارے، دوستی اور اعتماد کا وہ باب ہے جس کی بنیاد ستر سال سے زاید عرصہ قبل رکھی گئی تھی۔ دونوں ممالک کی اُس وقت کی قیادت نے انتہائی بالغ نظری سے ایک مستحکم تعلق کا آغاز کیا جو ہر گزرتے برس کے ساتھ ساتھ مزید موثر، مضبوط اور توانا تر ہوتا گیا۔ نہایت مہارت اور ہوش مندی سے تشکیل دیا گیا یہ خاص تعلق وقت کی ہر آزمائش پر پورا اترا ہے اور لمبے عرصے کی تزویراتی شراکت پر محیط ہے۔ میں مکمل اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان اور پاکستان کے لوگ اس تعلق کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور فخر سے چین کو اپنا بہترین دوست قرار دیتے ہیں۔ یہ بات انتہائی خوش کُن ہے کہ چینی قوم بھی آہنی بھائی کی اصطلاح فقط پاکستان کیلئے استعمال کرتی ہے۔ پاکستان اور چین کی لازوال شراکت داری اور گہری دوستی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اور یہ ہمارے عوام کا تاریخی انتخاب ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہماری خارجہ پالیسی کا اہم ترین ستون ہیں۔ چین کے ساتھ قریبی دوستی کو پاکستانی عوام کی مستقل حمایت حاصل ہے۔ بے مثال دوستی پر مبنی دو برادر ممالک کا یہ بھائی چارہ وقت کے ہر امتحان پر پورا اترتا آیا ہے اور دونوں ممالک ہر قسم کے تغیراتِ زمانہ سے بے نیاز ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے باہمی تعاون اور تزویراتی شراکت کا یہ پودا اب ایک تناور درخت بن چکا ہے اور اس کی پیار بھری جڑیں ہمارے لوگوں کے دلوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام کے مابین محبت و الفت کا یہ رشتہ درحقیقت ’’ پہاڑوں سے بلند، سمندر سے گہرا اور شہد سے میٹھا‘‘ ہے۔ چین کے پہلے وزیر اعظم چو این لائی نے ایک بار کہا تھا کہ چین اور پاکستان کے عوام کے درمیان دوستانہ روابط ازمنہ قدیم سے ہیں۔ یقیناً پاک چین تعلقات ہمارے لوگوں کے درمیان موجود قدیم تہذیبی رشتوں کا تسلسل ہیں۔ قدیم شاہراہِ ریشم کے ذریعے ہونے والی تجارت اور جغرافیائی قربت دونوں عظیم ایشیائی تہذیبوں میں قربت کا سبب بنی۔ زمانہ قدیم سے چین کے راہب اور مفکر ٹیکسلا اور پاکستان میں موجود بدھ مت کے دیگر مقامات کا سفر کرتے آئے ہیں جس کے ذریعے گندھار آرٹ اور بدھ مت کی حکمت چین تک پہنچی جو دونوں قوموں کے مابین ایک لازوال بندھن کا باعث بنی۔ پاک چین تعلقات کا تاریخی ارتقاء اور علاقائی اور عالمی منظر نامے کے تناظر میں اس کی بڑھتی ہوئی اہمیت بین الریاستی تعلقات میں مثالی حیثیت کی حامل ہے۔ مضبوط سیاسی حمایت، باہمی اعتماد اور ہمہ جہت عملی تعاون سے سات دہائیوں میں تشکیل پانے والا یہ منفرد رشتہ اب ایک مضبوط تزویراتی شراکت داری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ میں عالمی تعاون کیلئے بیجنگ میں ہونے والے تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں شرکت کر رہا ہوں۔ دنیا بھر کی ترقی کیلئے دس برس قبل شروع ہونے والا یہ پروگرام صدر شی جن پنگ کی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہم صدر شی جن پنگ کی مدبرانہ صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے دس سال قبل ترقی کیلئے بنی نوعِ انسان کو ایک کمیونٹی قرار دیتے ہوئے مشترکہ مستقبل کیلئے عالمی ترقیاتی شراکت داری اور عالمی گورننس کا نیا تصور پیش کیا۔ صدر شی بین الاقوامی تعاون و تبادلے کے خیالِ تازہ کے موجد ثابت ہوئے ہیں اور انہوں نے دنیا کی آپسی جُڑت کا اچھوتا مگر قابلِ عمل ماڈل پیش کیا ہے جس کی عملی شکل بتدریج سامنے آتی جا رہی ہے۔ اس مدبرانہ تصور کا مرکزی نکتہ ایک ایسی سماجی اور اقتصادی ترقی ہے جس میں سب شامل ہوں، سب کا فائدہ ہو اور سب کی فتح ہو۔ یہ ایک آپس میں جڑی ہوئی صاف ستھری، پر امن اور خوبصورت دنیا کا تصور ہے۔ ایک ایسی دنیا جو سب کیلئے ہے اور جس میں کسی کیلئے کوئی خطرہ نہیں۔ جوں جوں ہم اس خیال کی گہرائی میں اترتے ہیں، ہمیں واضح ہوتا جاتا ہے کہ یہ تصور قدیم چینی فلسفے اور حکمت پر مبنی ہے۔ چینی تصور تیان زی ہے (tianxihe)جسے ہم اردو میں ’’ آسمان کے نیچے ہم آہنگی‘‘ کہہ سکتے ہیں، پوری دنیا کی طرف اشارہ کرتا ہے اور پائیدار امن کیلئے تنوع کو تسلیم کرتے ہوئے باہمی تعاون پر زور دیتا ہے۔ چینی ریاستی کونسل کی جانب سے حال ہی میں ایک وائٹ پیپر جاری کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بی آر آئی مشترکہ مستقبل کی عالمی برادری کا ایک اہم ستون ہے۔ بی آر آئی کے بعد سامنے آنے والے تصورات بشمول گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو (GDI)، گلوبل سیکورٹی انیشیٹو (GSI)اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو (GCI)سے ’’ مشترکہ کمیونٹی‘‘ کا تصور مزید واضح ہو جاتاہے۔ پاکستان بی آر آئی میں شامل ہونے والے اولین ممالک میں سے ہے۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے پرچم بردار کے طور پر سی پیک پاک چین تعلقات میں اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ سی پیک کے ذریعے اقتصادی تعاون اور connectivity پاک چین تعلقات کا مرکزی نقطہ بن چکے ہیں اور اس وقت دونوں ممالک پہلے سے کہیں زیادہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ سی پیک اقتصادی خوشحالی اور رابطے کے حوالے سے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے خواب کی بہترین تعبیر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ سی پیک پاکستان کے سماجی و اقتصادی منظر نامے میں انقلابی تبدیلیاں لاتا جا رہا ہے۔ اس سے جدید انفراسٹرکچر وجود میں آیا ہے، علاقائی رابطے بہتر ہوئے ہیں، توانائی کی کمی پوری ہوئی ہے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ اس سال پاکستان نے CPECکی کامیاب پہلی دہائی کے موقع پر کئی تقریبات اور سرگرمیوں کی میزبانی کی۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی دس سالہ تقریبات میں شرکت کے لیے صدر شی جن پنگ کے خصوصی ایلچی کی حیثیت سے چین کے نائب وزیر اعظم ہی لائفنگ پاکستان تشریف لائے جن کا پاکستان میں خیرمقدم کرتے ہوئے ہمیں بے حد مسرت ہوئی۔ پاکستان سی پیک کے دوسرے مرحلے میں اعلیٰ معیار کے حامل منصوبوں پر کام کیلئے تیار ہے اور دوسرے مرحلے کی کامیاب تکمیل کے لیے پرعزم ہے۔ ہم سی پیک کو ترقی اور روزگار کی فراہمی کا اہم ذریعہ جانتے ہیں اور سبز معیشت، نئی ٹیکنالوجی، مل جل کر ترقی کرنے اور کھلی معیشت کیلئے چین کی تجاویز سے اتفاق کرتے ہیں۔پاکستان جی ڈی آئی گروپ آف فرینڈز کا بھی ایک اہم رکن ہے اور اس نے اسے مزید ٹھوس شکل دینے میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان GDIکے تحت پہلا ترجیحی شراکت دار اور GDIمفاہمت نامے پر دستخط کرنے والا پہلا ملک ہونے کی حیثیت سے تعلیم، صحت، موسمیاتی تبدیلی اور غربت میں کمی کے شعبوں میں تعاون سے بروقت انداز میں مستفید ہونے کے لیے تیار ہے۔ اس طرح ہمیں پائیدار ترقی کے مقاصد بر وقت حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ پاکستان GSIکی بھی حمایت کرتا ہے اور اسے اقوام متحدہ کے چارٹر اور کثیر الجہتی اصولوں اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت سے مطابق جانتا ہے۔ مدت سے حل طلب تنازعات اور دہشت گردی سے نقصان اٹھانے کی بنا پر ہم جنوبی ایشیا میں علاقائی امن کو یقینی بنانے کے لیے باہمی احترام پر مبنی بات چیت کی بھی حمایت کرتے ہیں۔GCIصدر شی جن پنگ کا ایک اور تاریخی اور بروقت اقدام ہے جس میں تنوع، پرامن بقائے باہمی، ایک دوسرے سے سیکھنے اور جامعیت کے احترام کو فروغ دیا گیا ہے جو اختلاف اور تفرقہ سے دوچار دنیا میں تہذیبوں کے درمیان مکالمے، امن اور مفاہمت کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے ارشادات کی روشنی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مقاصد ہمیشہ ’’ اندرونی و بیرونی امن ‘‘ رہے ہیں۔ لہٰذا، صدر شی جن پنگ کی طرف سے پیش کئے گئے ان اہم اقدامات کی توثیق پاکستان کے لیے فطری تھی۔ تنازعات، معاشی کساد بازاری، غذائی عدم تحفظ، سماجی عدم مساوات اور موسمیاتی تبدیلی جیسے متعدد چیلنجوں سے دوچار دنیا میں پاک چین سٹریٹجک پارٹنر شپ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ دونوں ممالک کے عوام کے لیے فخر اور سکون کا باعث ہے اور خطے کے اندر اور باہر امن و استحکام کا عنصر ہے۔ ہمارا ماضی، حال اور مستقبل کا رشتہ ہے۔ اور کوئی چیز اس حقیقت کو بدل نہیں سکتی۔ ہماری دیرینہ روایات کے مطابق ہم اپنے بنیادی مسائل پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم پاکستان کی خود مختاری، علاقائی سالمیت، اقتصادی استحکام اور جموں و کشمیر کے معاملے پر چین کی اصولی حمایت کیلئے اس کے شکر گزار ہیں۔ ہم ون چائنا پالیسی کے لیے اپنی وابستگی اور تائیوان، ہانگ کانگ، تبت، سنکیانگ اور بحیرہ جنوبی چین سمیت اس کے بنیادی مسائل پر چین کی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔ قریبی دوستوں، سٹریٹجک پارٹنرز اور آہنی بھائیوں کی حیثیت سے پاکستان اور چین مشترکہ مستقبل کی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری دوستی آنے والے دنوں میں مزید مضبوط ہوگی اور آنے والے برسوں میں اس کو مزید فروغ حاصل ہو گا۔
پاک چین دوستی زندہ باد!

جواب دیں

Back to top button