CM RizwanColumn

سیلاب کا عذاب یا حکومتی غفلت کا گرداب ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

ویسے تو ہر سال پاکستان میں مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں دریاؤں، ندی نالوں اور نہروں میں سیلاب سے تباہی آتی ہے۔ ہر سال ہزاروں لوگ متاثر بھی ہوتے ہیں مگر اس سال یہ تباہی زیادہ ہی بڑھ گئی ہے اور یہ بارشیں رحمت کی بجائے پہلے سے زیادہ زحمت بن گئی ہیں۔ تباہی سے اس سال پاکستان کے چاروں صوبے متاثر ہوئے ہیں جبکہ پچھلے سالوں میں ایک دوصوبے نسبتاً محفوظ رہ جاتے تھے۔ تباہی کا صحیح اندازہ تو جب پانی اُترے گا تب ہی ہوگا یا شاید تب بھی نہ ہوگا کیونکہ جب پانی اُتر جائے گا تو حکومت اور سیاستدان کسی اور بکھیڑے میں قوم کو الجھا دیں گے۔ لوگ بھی بھول جائیں گے کیونکہ میڈیا میں خبروں کی شدت بھی کم ہو جائے گی اور سیلاب زدہ مظلوم بھی بالآخر رو رو کر خاموش ہو جائیں گے۔ اب تو سامنے نظر آرہا ہے کہ لاکھوں پاکستانی متاثر ہوئے ہیں، مویشی ہلاک ہو گئے ہیں، مائیں بچوں سے بچھڑ گئی ہیں اور بچے پانی میں بہ گئے ہیں۔ بزرگ بھی لاپتہ ہیں اور جوان بھی ہلاک ہورہے ہیں،بڑے بڑے ہوٹل اور پلازے بہ گئے ہیں۔ لاتعداد گھر اُجڑ گئے اور بیٹیوں کے جہیز غرق ہو گئے ہیں۔ سینکڑوں مکینوں کی متاع حیات لمحوں میں خس و خاشاک کی طرح بہ گئی ہے اور حکومت اور اس کے کرتا دھرتا خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ گویا سیلاب کے ہر سال آنے والے عذاب نے حکومتی غفلت اور بدعنوانی کے گرداب میں عوام کا بہت کچھ غرق کردیا ہے۔
امسال مون سون کی بارشوں کی تباہ کاریوں پر غور کیا جائے تو پاکستان میں سب سے زیادہ صوبہ بلوچستان متاثر ہوا ہے۔ سیلابی پانی کی وجہ سے قیمتی جانوں کے ساتھ ساتھ کاشتکاروں کی فصلیں بھی پانی کی نذر ہو گئی ہیں۔ قدرتی آفات کے قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی رپورٹس تباہی کی منظر کشی کررہی ہیں لیکن ابھی تو نوشہرہ میں تباہی جاری ہے اور یہ ریلے دریائے سندھ میں جاتے جاتے کیا کریں گے، مزید تباہی اور غرقاب ابھی جاری ہے اور تباہی کے مکمل اعداد و شمار کیا ہوں گے ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ این ڈی ایم اے کے مطابق حکومت پاکستان نے متاثرہ علاقوں میں امدادی اشیاء، خوراک، کپڑے اور دیگر اشیائے ضروریہ پہنچائی ہیں جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے حالیہ دوروں میں جاں بحق افراد کے خاندانوں کو دس، دس لاکھ روپے امداد دینے کا اعلان بھی کیا ہے لیکن باشعور عوام جانتے ہیں کہ یہ صرف اعلامیے اعلانات اور رسمی کارروائیوں کا حصہ ہے عملاً لوگ کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار روتے بلکتے نظر آرہے ہیں۔ ہاں نجی سطح پر اور بعض تنظیموں کی کوششوں سے ان متاثرین کی اشک شوئی ہرسال کی طرح اس سال بھی قابل فخر ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہر سال سینکڑوں افراد اور قیمتی املاک سیلاب کی نذر کیوں ہو جاتے ہیں اور اس کی مستقل روک تھام پر سنجیدگی سے غور آخر کیوں نہیں کیا جاتا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کے دوران ہم نے دیکھا کہ جب سیلابی ریلے آبادی میں داخل ہونے لگے تو ہر طرف چیخ و پکار شروع ہوئی، لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بال بچوں کے ساتھ محفوظ مقامات پر کھلے آسمان تلے
پناہ لینے لگے۔ بلوچستان جو کہ پہلے ہی سے معاشی اور سماجی طور پر متاثرہ علاقہ رہ چکا ہے۔ گزشتہ 22 سالوں سے صوبہ بلوچستان دہشت گردی سے متاثر چلا آ رہا ہے جہاں پر عوام کی معاشی اور سماجی زندگی سب سے زیادہ متاثر ہوئی مگر صوبے کے عوام کے مکمل حالات کا اندازہ اس لئے نہیں ہوتا کہ پاکستانی میڈیا میں ان کے مسائل کو بہت کم جگہ ملتی ہے۔ ایک طرف بدامنی نے صوبے کے مسائل میں اضافہ جاری رکھا ہوا ہے اوپر سے اب سیلاب جیسی قدرتی آفت نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔ یہ سیلاب کاشتکاروں کے لاکھوں، کروڑوں روپے مالیت کے تیار باغات، فصلیں حتیٰ کہ سڑکیں بھی اپنے ساتھ بہا لے گیا اور اب ان علاقوں میں بسنے والے ہزاروں خاندانوں کے پاس کھانے کو بھی کچھ موجود نہیں۔ یہاں تک کہ بچوں کی خوراک بھی ختم ہوگئی ہے اور وہ فاقوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال آنے والے سیلاب کی کئی وجوہات ہیں مثلاً شدید یا غیر معمولی بارشیں اور کوہساروں پر جمی برف کا پگھلنا، موسمیاتی تبدیلی، گلوبل وارمنگ یعنی کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے سبب گلیشئرز کا معمول سے زیادہ پگھلاؤ وغیرہ۔ عالمی آب و ہوا میں تغیرات کا سبب بن رہا ہے۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے کہیں غیرمتوقع طور پر شدید بارشیں ہو رہی ہیں تو کہیں بدترین خشک سالی نے ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ موسمیاتی تبدیلی علاقوں اور آبادیوں کے رسوم و رواج، عادات و اطوار، مخصوص تہواروں اور اخلاق و عادات پر بری طرح اثرانداز ہورہے ہیں۔
ویسے تو دنیا اور انسانی زندگی میں آنے والی ہر قدرتی آفت کے مابعد اثرات ہوتے ہیں مگر سیلاب کے اثرات بڑے واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ سیلابی پانی جب خندقوں اور کھڈوں میں کھڑا ہو جائے تو بیماریاں پھیلنے کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں جن میں ہیضہ، معدہ کی متعدی بیماریاں، ڈینگی اور ملیریا سرفہرست ہیں۔ اس کے علاوہ سیلاب زدہ علاقوں میں بجلی کا نظام مکمل طور پر درہم برہم ہو جاتا ہے، پینے کے لیے صاف پانی تک میسر نہیں ہوتا، مہنگائی میں اضافہ ہوجاتا جبکہ غذائی قلت کا اندیشہ بھی غالب آجاتا ہے، القصہ معاشرے کی انسانی زندگی مجموعی طور پر خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ سیلاب نہ صرف معروضی حالات پر منفی اثرات ڈالتے ہیں بلکہ مستقبل کے لیے خطرات کی تعداد میں بھی اضافہ کردیتے ہیں کیونکہ سیلاب سے زرعی زمینیں مٹ جاتی ہیں جو کسی بھی علاقے کی معیشت اور انسانی زندگی کی بقا میں منفی کردار ادا کرتی ہیں۔
ہر سال خیبر پختونخوا، پنجاب اور بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اور اس کے متعلقہ ادارے سیلاب کی روک تھام پر پورا سال توجہ ہی نہیں دیتے حتیٰ کہ سیلاب سے پہلے سیلاب کی شدت اور سرعت کا بھی اندازہ نہیں لگایا جاتا حالانکہ موجودہ دور میں سائنس کی ترقی سے بیش بہا فائدے حاصل کئے جاسکتے ہیں لیکن اگر حکومت اور اس کے ادارے کچھ کرنا ہی نہ چاہتے ہوں تو لوگ کیا کریں۔ اب اگر ہم اپنے عوام کے رویے کی بات کریں تو یہ کہاوت سچ ثابت ہوتی ہے کہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ پھر یہ کہنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں ہوتا کہ سیلاب سے آنے والی تباہی کی صرف حکومت ہی نہیں ہم بھی کہیں نہ کہیں ذمہ دار ہیں کیونکہ دریا کنارے پشتوں کی عدم موجودگی اور نکاسی آب کا ناقص نظام سیلاب کے اسباب میں سے چند ایک ہیں۔ اگر دریاؤں کے کناروں پر پشتوں اور نکاسی آب پر توجہ دی جائے تو شاید دریاؤں کے قریب آبادیاں بڑے نقصان سے بچ سکیں۔ بحیثیت ذمہ دار شہری ہمیں بھی سوچنا ہو گا کہ ہم دریاؤں سے دور اپنے گھر آباد کریں، کھیتوں کے ساتھ لگی پشتیں نہ گرائیں، درخت اُگائیں، درختوں کی بے جا اور غیر قانونی کٹائی سے گریز کیا جائے۔ جنگلات میں گھاس پھوس کو آگ نہ لگائی جائے۔ یہ تمام معاملات گو کہ محکمہ جنگلات اور دیگر متعلقہ محکموں کے ملازمین اور ماہرین کی ذمہ داری ہیں لیکن ان حوالوں سے ہمارے شہریوں، زمینداروں اور آبادکاروں کی بھی کچھ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں اور اگر ہم سب اپنی یہ قومی ذمہ داریاں پوری نہ کریں تو ان سیلابوں کی تباہ کاریوں کو کون روک سکتا ہے۔ ان تمام پہلوؤں پر عملدرآمد کے لیے حکومتی سطح پر آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ سیلابی پانی کو ڈیموں میں ذخیرہ کرنے کا بندوست ازحد ضروری ہے تاکہ آنے والی تباہ کاریوں سے بچاجا سکے تاکہ پانی جیسی جو نعمت ہر سال ہمارے ملک میں آتی ہے اسے بجلی بنانے اور اپنی زراعت کے لیے استعمال میں لایا جا سکے۔ ان تمام معاملات پر حکومتی اور عوامی سطح پر سنجیدگی سے غور ہونا چاہیے کہ کیسے ہم سیلاب کی تباہ کاریوں کی روک تھام کریں گے اور اس کے لیے کون سے ٹھوس اقدامات اُٹھانے ہوں گے ورنہ آئندہ سال بھی سیلاب میں بہ جانے کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے جس طرح کہ اب ہمارا بہت کچھ غرق ہو رہا ہے اور ہم بے بسی کے ساتھ اپنی تباہی کی ویڈیوز بنا کر شیئر کررہے ہیں اور کسی حد تک یہ ویڈیوزشیئر کرکے ہی اپنا قومی فریضہ انجام دینے کا اعلان کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بحیثیت ایک عقلمند قوم کے سوچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button